مٹا کر ہی دم لیں گے
قانون کا لفظ اس وقت تک ایک بے جان لفظ ہی رہتا ہے جب تک اس کو دیانت، صداقت، شرافت اور ہمت کے پائے نصیب نہیں ہوتے
قانون کا لفظ اس وقت تک ایک بے جان لفظ ہی رہتا ہے جب تک اس کو دیانت، صداقت، شرافت اور ہمت کے پائے نصیب نہیں ہوتے۔ یہ کوئی ہمارے ملک کی بات نہیں دنیا بھر کی بات ہے اور ہم دنیا سے الگ تو نہیں ہیں۔ ہر چیز کی ایک بنیاد ہوتی ہے یعنی پائے، سری پائے نہیں۔ ویسے سری پائے سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جانور ان پر ہی قائم تھا۔
تو قانون کو روبہ عمل لانے اور رکھنے کے لیے جن چار عناصر کی ضرورت ہے وہ ہم نے لکھے ہیں، اپنی سمجھ کے مطابق۔ علامہ اقبال نے چار عناصر سے مسلمان بنایا تھا، اگر کوشش کریں تو ہمارے طے شدہ چار عناصر سے ایک اچھا معاشرہ بن سکتا ہے۔ آپ چاہیں اور ضروری ہو تو اسے اسلامی معاشرہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ ہم بنیادی طور پر عقائد رکھتے ہیں، عمل سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔
ماہ رمضان کا آخری حصہ ہے۔ اس کی تمام تر دینی خصوصیات کے علاوہ ''دنیاوی'' خصوصیت یہ ہے کہ اس ماہ میں مسلمان مسلمانوں کو جی بھر کے لوٹتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ سارا سال کوئی آمدنی نہیں ہوئی ہے اور اب حکومت کے ٹیکسوں سے جو بچا ہے اور ڈاروی معاشی حملوں سے اگر معاشرے میں کچھ جان بچی ہے تو وہ اب دکاندار نکال لیں گے اور عید پر مسلمانوں کے چہرے گزرے ظلم و ستم کو آشکار کر رہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کو اپنا ماہ قرار دیا۔ اس کا ثواب خود دینے کا اعلان کیا بلکہ ایک جگہ تو خداوند کریم نے دنیا کی خوبصورت ترین بات کہی بلکہ کائناتوں کی خوبصورت ترین بات کہ ''رمضان کا اجر میںدوں گا۔'' لیکن یہ انسان اس کے فرمان کو اس کے ماننے والوں کے لیے سزا بنانے پر تلے ہیں۔
ہم کسی بھی سیاسی پارٹی سے قطع نظر حکومت کو اس کا ذمے دار قرار دیتے ہیں، جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے یہی دیکھا ہے کہ محض اعلان ہوتے ہیں، چند خبریں آتی ہیں پھر پتا نہیں چلتا کہ کیا ہوا۔ ہوتا یہ ہے کہ سزا تو ہے نہیں جرمانہ ہے۔ اگر سزا ہوگی تو ضمانت پر دوسرے دن آزاد ہو جائیں گے اور زرضمانت اور جرمانہ دونوں عوام سے اشیا مزید مہنگی بیچ کر حاصل کرلیں گے۔
دوسرے لفظوں میں دراصل یہ سزا بھی روزہ داروں کو ہی مل رہی ہے کہ ناجائز منافع خوری سے کیوں روکا؟ اگر روکا ہے تو جرمانہ دو۔ ہر شخص کی زبان پر سیزن کا لفظ ہے اور وہ اسے کمائی کا سیزن قرار دے رہے ہیں، تو کیا روزہ دار سیاح ہیں؟ کسی دوسرے ملک سے پاکستان میں روزہ رکھنے آئے ہیں؟ ہر سال مہاجر پرندوں کی طرح روزہ دار آتے ہیں کیا؟
ان کا قصور صرف یہ ہے کہ یہ روزہ دار ہیں۔ لہٰذا ان کو روزہ دار ہونے کی سزا دو۔ گلا پھاڑ پھاڑ کر زکوٰۃ کا تقاضا، انجمنوں، تحریکوں، اداروں کے علاوہ گھر گھر جعلی زکوٰۃ کے جمع کرنے والے جو دوسری جگہوں سے یہاں آتے ہیں، سیزن ہے۔ خدا کے بندو۔ بندوں پر رحم کرو، کوئی قانونی بھی ہے، روزہ دار کو کہاں کہاں اور کس کس طرح لوٹو گے؟
کوئی قانون نہیں ہے، کوئی قانون نہیں بنے گا، سب شریک جرم ہیں۔ جرم سے چشم پوشی بھی جرم کے برابر کا گناہ ہوگا، معلوم کرلیجیے حقیقی علمائے دین سے۔ یہ اللہ کا مہینہ ہے اور اس سارے ماہ میڈیا صرف مسائل پر صرف کردے گا، ایک ماہ تک مسائل اور مسلمان کو مسلمان بنانے کے پروگرام جاری رہیں گے۔ سوال کرنے والے یوں لگیں گے کہ ابھی ابھی دائرہ اسلام میں تشریف لائے ہیں اور ان کے سوالوں کے جواب اس طرح دیے جائیں گے جیسے نو مسلمانوں کو اسلام کا سبق پڑھایا جا رہا ہے۔
کیا مذاق ہے، ہر سال وہی مسائل وہی جواب۔ جو ہم نے روزہ دار کا ذکر کیا وہ شاید ہی کوئی ذکر کرتا ہو، ایک آدھ رپورٹ کرلی اور اللہ اللہ خیر صلا۔ کوئی فالو اپ نہیں، کوئی قانون کے اداروں کا عمل نہیں۔ روزہ دار کو ہر سال نئے سرے سے مسلمان بننا پڑتا ہے، مسلمان ہونا پڑتا ہے، سارے درس اس کیلیے ہیں، چوروں ڈاکوؤں کو کوئی کچھ نہیں کہہ رہا۔ علما کوئی تحریک نہیں چلا رہے اس ظلم کے خلاف۔
ایک بہت اچھا مضمون میں نے اسی روزنامے کے میگزین میں پڑھا تھا، خدا لکھنے والے کو بلند درجات عطا کرے۔ موضوع تھا ہرن مارے، پرندے بیچے اور اب کالے نشان والے کچھوؤں کے پیچھے قوم پڑی ہے کہ انھیں ختم کردیا جائے۔
جو حکومت عدالت سے اس بات پر رجوع کرے کہ شہزادوں کو شکار کی آزادی دی جائے، جو اپنے پرندوں کو دوسرے ملکوں کے شہزادوں کیلیے ہلاک کرنے کو پیش کر دے، وہ اپنے ملک کے انسانوں سے کیا سلوک کرے گی؟
یہ ایک ماہ، صرف ایک ماہ اس ملک میں اسلام کا زور کیوں رہتا ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ یہ دین کا جذبہ ہے، جی ہاں روزہ داروں کے لیے، عبادت گزاروں کے لیے، بقیہ نوے فیصد کے لیے یہ دراصل کمائی کا مہینہ ہے اور کمائی کہاں سے ہوگی، بے ایمانی سے کمائی جائے گی دولت تاکہ پورے سال آرام سے بسر ہوسکے۔
عجیب بات ہے لوگ یوں کیوں نہیں سوچتے کہ یہ جو ایک ماہ میں آپ حرام کمائی کریں گے وہ بقیہ گیارہ مہینوں میں کھائیں گے تو گویا پورے سال حرام کھائیں گے۔ کیا مسلمان کا ایمان اتنا سستا ہے کہ ایک ماہ کی حرام کمائی کے عیوض بیچ دیا جائے۔ کہہ سکتے ہیں وہ لوگ جو ہماری بات کا برا مانیں گے کہ ہم گھر سے تو بلا کر نہیں لائے تھے خریداروں کو، نہ خریدتے۔ یہی تو ایک جملہ ہے خرابی کا اس قوم میں کہ یہ برائی کو ختم کرنے کے بجائے نشاندہی کرنے والے کو ختم کرنے کے درپے رہتے ہیں۔
چاہے آپ پسند کریں یا نہ کریں، کیونکہ ان کے اندرونی معاملات کا خدا جاننے والا ہے اور وہ خود اس کے ذمے دار ہیں مگر قانون کی حکمرانی خصوصاً اسلامی ریاستوں میں جہاں نظر آتی ہے وہ ہم جانتے ہیں۔ ہم اس ملک کا عیش و آرام اپنانا چاہتے ہیں مگر قانون نہیں کہ اس میں بڑی بڑی گردنیں قلم ہونے کا خطرہ ہے۔
کیا ہرج ہے اگر ایسا کرلیا جائے؟ نہیں کرینگے۔ زمین بیچ دینگے، مکان بیچ دینگے، ملک بیچ دینگے، اس کی عزت فروخت کردینگے۔ سارے پرندے، جانور، انسان بیچ دیں گے، اس ملک کو بنجر کردیں گے مگر قانون کو عمل کا موقع نہیں دیں گے اور اس میں الا ماشا اللہ سب شریک ہیں۔
اگر گریبان سلامت ہیں، اور ہیں، کیونکہ گریبان تو صرف غریب کا اس ملک میں سلامت نہیں ہے تو اپنے گریبان میں جھانکیں۔ سرمایہ دار، پیر، وڈیرے، سیاستدان اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں گے تو اپنے آپ کو قوم کا مجرم پائیں گے۔
ہم کچھ بھی لکھ دیں، آپ کچھ بھی کہہ لیں، چیخ و پکار کرلیں، مظاہرے کرلیں، دھرنے دے لیں، ان پر کچھ اثر نہیں ہوگا۔ یہ ان کا ملک ہی نہیں ہے۔ ان کو اگر موقع مل جائے تو یہ اسے مٹا کر ہی دم لیں گے۔