سیاست اور اخلاقیات
سیاست میں اخلاقیات کا اخراج عوامی دور سے ہوا اور انتہا اسمبلیوں میں گالم گلوچ تک پہنچ گئی،
گزشتہ دنوں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ سے ملتے ہوئے ان کے گھٹنوں کو جھک کر ہاتھ لگانے کا میڈیا میں بڑا چرچا ہوا، جس پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے جو منفی ریمارکس دیے اس پر پرویز رشید کا کہنا تھا کہ یہ انکساری ان کی تربیت کا نتیجہ ہے اور وہ آیندہ بھی اسی طرح ملیں گے۔ اگر یہ انکساری وزیر اطلاعات کی تربیت کا حصہ ہوتی تو تین سال میں یہ انکساری پرویز رشید میں پہلے تو دیکھنے میں نہیں آئی جب کہ وہ پہلے بھی خورشید شاہ سے ملتے رہے ہیں۔ پہلے سیاست میں اخلاقیات کی بڑی اہمیت ہوتی تھی اور سیاستدان سیاسی مخالفت میں نہ کبھی ایک دوسرے کے لیے بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے تھے نہ کسی کے خلاف گری ہوئی زبان استعمال کرتے تھے، بلکہ کسی کی غیر موجودگی میں بھی اس کی عزت کا خیال کیا جاتا تھا اور سیاسی جلسوں میں بھی کسی کی تضحیک نہیں کی جاتی تھی۔ اسمبلیوں میں نوک جھونک اور مخالفت بھی ہوتی تھی مگر اخلاق کی حد میں رہا جاتا تھا۔
سیاست میں اخلاقیات کا اخراج عوامی دور سے ہوا اور انتہا اسمبلیوں میں گالم گلوچ تک پہنچ گئی، جس کا مظاہرہ کے پی کے اسمبلی میں زیادہ اور سندھ اسمبلی میں کم ہوا جب کہ اب ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز اور سیاسی جلسوں میں بھی سیاستدانوں کی زبان پھسلنے لگی ہے اور بات لائیو پروگرام میں گالی تک پہنچ گئی ہے۔ ماضی میں قائد عوام کہلانے والے سابق وزیراعظم نے عوامی دور میں اپنے مخالفین کو مختلف ناموں سے یاد کیا تھا اور عوامی جلسوں میں ان کی تضحیک شروع کی تھی اور ان کا سیاسی انتقام اپنے خلاف پی این اے کی تحریک میں تمام مخالفین کی گرفتاری تک جا پہنچا تھا اور بعض گرفتار رہنماؤں کی جیلوں میں توہین کے معاملات بھی سامنے آئے تھے۔
سابق عوامی وزیراعظم کا تعلق سندھ سے تھا جہاں انکساری کا اظہار اجتماعات میں دونوں ہاتھ جوڑ کر اور ایک دوسرے سے ملتے ہوئے جھک کر کیا جاتا تھا اور سیدوں کو خصوصی عزت دینے کے لیے ان کے پیروں اور گھٹنوں کو ہاتھ لگانا اب بھی عوامی سطح پر موجود ہے اور سندھیوں میں سیاسی بنیاد پر ایک دوسرے کی تضحیک دوسرے صوبوں اور قوموں سے کم ہی نظر آتی ہے۔ ملک میں اب تک نہ جمہوریت مستحکم ہوئی ہے، نہ ہمارے رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں میں جمہوری رواداری پروان چڑھی ہے، جس کے ذمے دار ہمارے سیاسی قائدین ہیں۔
سیاست اور جمہوریت میں سیاسی اختلافات ہر ایک کا جمہوری حق سمجھا جاتا ہے مگر ہمارے یہاں سیاسی مخالفت کو ذاتی اور خاندانی دشمنی سمجھ لیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر ایک دوسرے کی جانیں بھی لے لی جاتی ہیں، جو شرمناک جمہوری رویہ ہے۔ ہماری سیاست میں یہ بھی ہوتا آیا ہے کہ ایک بھائی ایک پارٹی میں ہے تو دوسرا دوسری پارٹی میں۔ باپ بیٹے بھی اپنی مرضی کی پارٹیوں میں موجود ہیں، جو ان کا جمہوری حق ہے اور وہ اپنی مرضی کی سیاست کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
موجودہ سیاست میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تین بڑی پارٹیاں ہیں۔ سابق جنرل عمر کے ایک صاحبزادے (ن) لیگ کے وزیر ہیں تو دوسرے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔ شاہ محمود قریشی کے بھائی پیپلز پارٹی میں ہیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے کزن ممتاز بھٹو نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی تھی اور دوبارہ پی پی میں نہیں گئے جب کہ بے شمار ایسے ہیں جو پارٹیاں تبدیل کرنے کو برا نہیں سمجھتے، تو بعض پارٹی کو ماں کا درجہ دیتے ہیں، مگر بہت کم ایسے سیاستدان ہیں۔
جنھوں نے اصولی اختلاف پر اپنی پارٹی چھوڑی مگر دوسری پارٹی میں نہیں گئے اور الگ ہوکر بیٹھ گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ صدر ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے مگر بعد میں حکومت چھوڑ کر انھوں نے ایوب خان کے خلاف ایک کامیاب تحریک چلائی اور ایوب خان کی موت پر تعزیت کے لیے بھی نہیں گئے۔ نواز شریف جنرل ضیا الحق کی پیداوار ہیں جنھوں نے نواز شریف کو اپنی عمر لگ جانے کی دعا دی تھی۔ کیا نواز شریف کو جنرل ضیا اب بھی یاد ہیں۔ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل ہوتا ہے نہ جذبات برقرار رہتے ہیں اور موقع کے لحاظ سے ان کے سیاسی موقف بدل جاتے ہیں۔
پرویز رشید کو خورشید شاہ کا احترام یاد آیا تو پیپلز پارٹی کو اس کی قدر کرنی چاہیے تھی۔ پرویز رشید نے خورشید شاہ کے معاملے میں انکساری غلط وقت پر دکھائی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پرویز رشید کے تین سالہ دور میں وہ خود تبدیل ہوچکے ہیں اور ان کے پاس اپنے قریبی (ن) لیگیوں کے لیے بھی وقت نہیں ہے اور ان کی خورشید شاہ سے انکساری مجبوری نظر آئی جس پر پی پی نے اپنی مرضی کے معنی پہنائے جب کہ پرویز رشید عمر میں خورشید سے بڑے ہیں۔
سیاست میں اخلاق اب مفاد کی حد تک محدود ہے اور کسی کا اگر کوئی پرانا ساتھی اس کے خلاف کچھ کر جائے تو اسے دشمن سمجھ لیا جاتا ہے جس کا ثبوت صدر زرداری کا سابق صدر فاروق لغاری کی وفات پر ورثا سے تعزیت نہ کرنا تھا جب کہ صدر پرویز مشرف نے اپنے مخالف مگر اچھی شہرت کے حامل سیاستدانوں نوابزادہ نصر اللہ خان اور مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات پر اظہار تعزیت نہیں کیا تھا۔ اخلاق اور انکساری میں صدر ضیا الحق فوجی جنرل ہونے کے باوجود مشہور تھے جو اپنے پاس آنے والوں کو باہر جاکر رخصت ہی نہیں ان کی گاڑی کا دروازہ بھی خود کھولتے تھے۔ جنرل ضیا نے بھی اپنے اس محسن کو نہیں بخشا جس نے انھیں نیچے سے اوپر لا کر جنرل بنایا تھا مگر جب 1977 میں انھوں نے مارشل لا لگا کر اپنے قیدی معزول وزیراعظم بھٹو کو سر کہا اور سیلوٹ کیا تھا اور بھٹو نے انھیں دھمکی دی تھی جس کا نتیجہ پھانسی کی صورت میں نکلا۔
سیاسی دوستوں کو نوازنے میں سابق صدر آصف علی زرداری بھی بہت مشہور ہیں اور مخالف سے ملتے ہوئے بھی ان کے چہرے پر مسکراہٹ واضح ہوتی ہے اور وہ اپنے حقیقی دوستوں کا ساتھ بھی دیتے ہیں خواہ اس پر الزام کوئی بھی ہو جس کا ثبوت ڈاکٹر عاصم ہیں جنھیں قید میں ہوتے ہوئے سندھ حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سیاست اور اسمبلیوں میں ایک دوسرے کے شدید مخالف نظر آنے والوں کے بھی دو چہرے ہوتے ہیں اور وہ سیاست سے باہر ایک دوسرے کو نہ صرف تحفے بھیجتے ہیں بلکہ نجی طور پر جوش اور پرتپاک طور پر ملتے ہیں اور تقریبات میں وہ بالکل مختلف نظر آتے ہیں جو بہت اچھی بات ہے اور ایسا جاری رہنا چاہیے کیونکہ سیاست اپنے اپنے نظریے کے مطابق ہونی چاہیے مگر سیاست میں اخلاقیات کی حد میں رہنا ہی بہتر اور جمہوری رویے کا عکاس ہوتا ہے۔