یورپی یونین امریکی شکنجے میں
دنیا کے امن کو اب اصل خطرہ امریکا کی جنگجویانہ پالیسیوں سے لاحق ہے
ISLAMABAD:
دنیا کے امن کو اب اصل خطرہ امریکا کی جنگجویانہ پالیسیوں سے لاحق ہے۔ وہ دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے باوجود دنیا میں امن کو پروان چڑھانے کے بجائے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب گھسیٹ رہا ہے، وہ چین اور روس سے اپنی مخاصمت ختم کرنے بجائے انھیں زیر کرنے کے لیے اونچے پیمانے پر جنگی تیاریاں کر رہا ہے۔ روس سے تو خیر اسے پرانا بیر ہے مگر چین سے اس کی دشمنی کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ امریکا کو چین کے ایک کمیونسٹ ملک ہونے پر ضرور پرخاش رہی ہے مگر اب تو وہ ایک لبرل اور عام سا ملک بن چکا ہے۔
اسے بھارت، جاپان، کوریا اور ویت نام کے ذریعے فوجی نرغے میں لینے کا کیا جواز ہے، جب کہ چین کی امریکا کے خلاف ایسی کوئی تیاری نظر نہیں آتی۔ وہ تو اس وقت معاشی جنگ لڑنے میں لگا ہوا ہے اور اس جنگ میں کامیابیوں اور کامرانیوں کے نئے ریکارڈ قائم کرکے تمام مغربی ممالک کو چیلنج کر رہا ہے۔ ادھر امریکا روس سے بھی جنگ کرنے کی بھرپور تیاری جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس نے تمام یورپی ممالک کو بھی اس جنگ کا حصہ دیا ہے۔ یوکرین کے مسئلے پر امریکی مداخلت اس کی واضح جارحیت کی عکاس تھی۔ لگتا ہے اب امریکا اپنی دولت اور فوجی برتری کے غرور میں مست تیسری عالمی جنگ کے ذریعے دنیا کو کھنڈر بنانا چاہتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکا سمیت تمام ممالک نے یہ عہد کیا تھا کہ اب دنیا سے دشمنی کا خاتمہ کردیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دنیا کو امن کا گہوارا بنائیں گے۔ اسی عہد کے تحت اقوام متحدہ کا وجود عمل میں آیا تھا مگر افسوس کہ وہ عہد اب قصہ پارینہ بن چکا ہے اور اقوام متحدہ بھی امریکا کی باندی بن کر اپنا مقام کھوچکی ہے۔
اس وقت دنیا میں ناانصافیوں کا بازار گرم ہے۔ اقوام متحدہ خاص طور پر مسلمانوں کے مسائل کے سلسلے میں بالکل اندھی، گونگی اور بہری بن چکی ہے، اس میں بھی دراصل امریکی سازش کارفرما ہے۔ اس تمام کچھ کے باوجود بھی مسلمانوں نے کبھی امریکا کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا لیکن امریکا کی وجہ سے مسلمانوں کو جو مصائب اٹھانا پڑ رہے ہیں لگتا ہے اب اس کی بددعا ضرور امریکا اور اس کے حواریوں کو لگنا شروع ہوگئی ہے۔ یورپی یونین اب منتشر ہونے کو ہے، برطانیہ کے بعد ہالینڈ اور فرانس بھی اس سے نکلنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد متحارب یورپی ممالک میں یورپی یونین کے ذریعے اتحاد کی داغ بیل اس لیے ڈالی گئی تھی تاکہ یورپ سے تیسری عالمی جنگ کا بھی آغاز نہ ہوسکے۔ لیکن امریکی مخاصمانہ پالیسیوں کی وجہ سے یورپی یونین ٹوٹنے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ مشرقی یورپ کے غریب ممالک کو امریکا کی زبردستی کی وجہ سے یورپی یونین کا ممبر بنالیا گیا تھا۔ یہ مشرقی یورپ کے لوگ اب تمام ترقی یافتہ یورپی ممالک میں نوکریوں اور روزگار کے سلسلے میں پھیل چکے ہیں، ان کی وہاں جوق در جوق آمد نے ان ممالک کے لیے مسائل کے پہاڑ کھڑے کردیے ہیں۔ برطانیہ کے ریفرنڈم میں مقامی مزدور طبقے نے یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اب برطانیہ کے عوام کھل کر کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے اپنے ملک کو مشکل سے نکال لیا ہے۔ 23 جون کا ریفرنڈم دراصل ان کا یوم آزادی تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی روس سے اندھی دشمنی نے یورپ کو انتشار اور تباہی کے راستے پر ڈال دیا ہے اور سارے یورپی ممالک امریکا کی کالونیاں بن کر رہ گئے ہیں، وہ ہر امریکی فیصلے کو تسلیم کرنے کے پابند ہیں، خواہ اس سے ان کا کتنا ہی نقصان ہو۔ اس سے لگتا ہے کہ امریکا نے دوسری عالمی جنگ میں یورپی ممالک کی جو مدد کی تھی وہ اب اس کا خراج وصول کر رہا ہے۔
ابھی حال ہی میں تمام یورپی دارالحکومتوں میں امریکی سی آئی اے کا خفیہ فون ٹیپنگ کا نیٹ ورک پکڑا گیا ہے، اس کے ذریعے یورپی ممالک کے سربراہان کی گفتگو ٹیپ کی جا رہی تھی۔ حالانکہ یہ ایک سنگین ایشو تھا مگر اس پر یورپی ممالک کی جانب سے کوئی خاص احتجاج نظر نہیں آیا۔ یوکرین کے مسئلے پر امریکی دھمکیوں اور یوکرین حکومت کی فوجی امداد پر روس نے انتقاماً یورپی ممالک کو گیس کی سپلائی روک دی تھی، اس سے گھریلو صارفین کے علاوہ صنعتیں بھی متاثر ہوئی تھیں، مگر یورپی ممالک نے یہ نقصان امریکی تحفظ سمجھ کر برداشت کرلیا تھا۔ برطانیہ کے امریکا سے اگرچہ بہت قریبی تعلقات ہیں مگر اسے بھی امریکی اشاروں پر چلنا ہوتا ہے۔
عراق، افغانستان، لیبیا، شام اور یمن کی تباہی میں وہ امریکا کا خاص شریک کار ہے۔ اس وقت عراق اور لیبیا کے کئی ٹکڑے کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، مگر قدرت کا انتقام بھی نرالا ہے اب تو خود برطانیہ چار حصوں میں تقسیم ہونے والا ہے۔ یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے سے اسکاٹ لینڈ کے عوام سخت برہم ہیں، ادھر ویلز اور شمالی آئرلینڈ بھی علیحدگی کی تیاری کر رہے ہیں۔ اسکاٹش نیشنل پارٹی کے سربراہ نکولاسٹرجن نے اعلان کیا ہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کے بعد اسکاٹش عوام برطانیہ کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے سلسلے میں ایک اور ریفرنڈم کرا سکتے ہیں۔ کیونکہ انھیں یہ قابل قبول نہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر یورپی یونین کو چھوڑا جائے۔
ہم عوام کی خواہشات کو پورا کریں گے۔ دراصل اسکاٹ لینڈ کے عوام میں اب یہ رجحان پروان چڑھ رہا ہے کہ انھوں نے 2014ء کے ریفرنڈم میں برطانیہ کے ساتھ جڑے رہنے کا جو فیصلہ کیا تھا اب انھیں اس فیصلے کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے والے ریفرنڈم میں برطانوی عوام اور اسکاٹش عوام کے ووٹوں میں بڑا فرق تھا۔ اسکاٹش عوام کی اکثریت نے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپی یونین کو چھوڑنے کے فیصلے نے برطانیہ کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔
ایک طرف اسے سخت معاشی دھچکا لگا ہے، اس کی اسٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی ہے تو پاؤنڈ کی قدر میں تاریخی گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے تو دوسری جانب اس کی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ابھی صرف یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ ہوا ہے تو اس اعلان کے فوراً بعد ہی اسپین جیسے کمزور ملک نے برطانوی جزیرے جبرالٹر پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کردیا ہے۔ دراصل اس تمام خرابی کے ذمے دار ڈیوڈ کیمرون ہیں، کیونکہ جب وہ ایسے بھیانک نتائج سے پہلے سے واقف تھے اور اسی لیے وہ اخراج کے خلاف تھے تو پھر انھوں نے ریفرنڈم ہی کیوں منعقد کرایا؟ بہرحال اب خوش قسمتی سے برطانوی عوام حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے پھر سے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں مظاہرے کرنے لگے ہیں۔