اسلامی ممالک ہی میں بدامنی اور تباہی کیوں

گزشتہ چند ماہ سے برادر اسلامی ملک ترکی میں دہشت گردی کے واقعات تیزی سے ظہور پذیر ہونے لگے ہیں۔


Dr Mansoor Norani July 05, 2016
[email protected]

لاہور: گزشتہ چند ماہ سے برادر اسلامی ملک ترکی میں دہشت گردی کے واقعات تیزی سے ظہور پذیر ہونے لگے ہیں۔ وہ ملک جو ایشیا اور یورپ دونوں براعظموں کے سنگم پر واقع ہے اور جہاں کے لوگ عدم تشدد اور امن و آشتی کے زبردست داعی اور علمبردار ہیں، اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ وہاں بھی خودکش حملے اور بم دھماکے ہونے لگے۔ وہ ملک جہاں نہ القاعدہ اپنے قدم جما سکی اور تحریک طالبان سرائیت کر پائی اور جہاں مذہبی انتہاپسندی کو کوئی امان نہ مل پائی، وہ اب کیوں مبینہ طور پر داعش کے نشانے پر ہے۔

وہاں خودکش حملوں کے ذریعے کیونکر بے چینی اور افراتفری پیدا کی جا رہی ہے۔ ترک قوم کے موجودہ صدر طیب اردگان کی دینِ اسلام سے محبت اور وابستگی کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ وہ ترکی کو ایک مضبوط ترقی یافتہ اسلامی ملک بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی قوم نے اسی بنیاد پر انھیں دوبارہ منتخب کیا ہے۔ وہ 2002ء میں وزیراعظم منتخب ہوئے اور 2014ء تک اس عہدے پر برقرار رہے۔ پھر اگست 2014ء میں ترک قوم نے انھیں اپنا صدر منتخب کر لیا اور وہ آج بھی صدر کی حیثیت میں ملک کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کر رہے ہیں۔

لیکن سامراجی قوتیں کسی اسلامی ملک کو ترقی کرتا دیکھ نہیں سکتے ہیں۔ اس سے قبل صدام حسین کی قیادت میں عراقیوں نے ایسی جرأت کی تو انھیں عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ سوڈانیوں نے ایسا کرنے کا سوچا تو انھیں فاقوں کی مار ماری گئی۔ کرنل قذافی نے جرأت رندانہ دکھائی تو انھیں بھی نیست و نابود کر دیا گیا۔ مصر کے منتخب صدر محمد مرسی نے اقتدار میں آتے ہی ان عالمی طاقتوں کی مرضی و منشا سے انحراف کیا تو انھیں بھی صرف ایک سال بعد جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔

دنیا کے کسی بھی ملک میں اسلامی انقلاب کی کوئی منحنی سی صدا بھی بلند ہوتی ہے تو ان مخالفین اسلام کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ مل جل کر اس پر ہلہ بول دیتے ہیں۔ ان کا طریقہ واردات کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ پہلے ملک کے اندر سیاسی، نسلی اور فروعی اختلافات کو ہوا دے کر بیچینی اور اضطراب پیدا کیا جائے۔ دہشت گردی اور بم دھماکے کروا کر اس کی معیشت پر کاری وار کیا جائے۔ پھر اس کی قوم کو دیوالیہ اور قلاش کر کے اپنے حکمرانوں سے متنفر کر دیا جائے اور ان کا حال لیبیا، عراق، افغانستان اور شام کی مانند کر دیا جائے۔ پھر وہ اپنے تئیں اس قوم کے مددگار اور نجات دہندہ بن کر وہاں کے لوگوں پر احسان کرتے ہوئے ان کو حکمرانوں سے نجات دلانے آ جاتے ہیں۔ کرنل قذافی اور صدام حسین کا بھیانک انجام کچھ ایسی ہی پسِ پردہ سازشوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

عراق اور لیبیا کے لوگوں کو اپنے حکمرانوں سے نجات تو مل گئی لیکن امن و آشتی آج تک نصیب نہ ہوا۔ انھیں خانہ جنگی کی مار مار کے باہم دست و گریباں کر دیا گیا ہے۔ وہ اب سڑکوں پہ غیرملکی اسلحہ تانے ایک دوسرے سے ہمہ تن جنگ میں مصروف ہیں۔ معاشی و اقتصادی طور پر وہ مکمل تباہ و برباد کر دیے گئے ہیں۔ انھیں اب کچھ سمجھ نہیں آ رہا اور کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ اپنے حکمرانوں سے نجات پا کر انھوں نے کیا کھویا اور کیا پایا۔

یہی حال اب اسلامی ملک شام کا ہونے جا رہا ہے۔ وہاں عرصے سے جاری خانہ جنگی نے سارے ملک کا حال بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ وہاں روزانہ ہزاروں لوگ مارے جا رہے ہیں۔ معیشت کمزور اور لاغر ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن حکمران دوسروں کی شہہ پر ابھی تک اپنی ضد پر قائم اور ڈٹے ہوئے ہیں۔ انھیں شاید معلوم نہیں کہ ان کا انجام بھی صدام حسین اور کرنل قذافی سے مختلف نہیں ہو گا۔ عالمی معیشت پر قابض استعماری قوتیں پہلے اس خانہ جنگی کے ذریعے اس ملک کو تباہ و برباد کر کے قلاش اور کنگال کرتے ہیں، اور بعد ازاں پھر وہاں کے حکمرانوں کا کام بھی تمام کر دیتے ہیں۔ جس کسی اسلامی ملک نے ترقی و خوشحالی کے خواب دیکھنا شروع کیے، اسے اسی طرح نیست و نابود کر دیا گیا۔

دوسروں کے سیاسی و معاشی بحرانوں پر عقاب کی نگاہ رکھنے والے غریب اور پسماندہ قوموں کو اپنے شکنجے میں جکڑ لینے اور اپنے انگوٹھے تلے دبائے رکھنے کی غرض سے وہ وہاں آئے دن کوئی نہ کوئی بحران پیدا کرتے رہتے ہیں۔ بھارت نے 1974ء میں ایٹم بم بنا کر خود کو ایک نیوکلیئر پاور کا درجہ دلایا تو کسی نے اس کی سرزنش نہ کی۔ لیکن 24 سال بعد جب ایک اسلامی ملک پاکستان نے 1998ء میں بھارت کے دوسرے اٹامک تجربے کے بعد جواباً ایٹمی دھماکے کیے تو ساری دنیا نے اس پر معاشی پابندیاں لگا دیں۔ آج بھی اگر کوئی اسلامی ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی تگ و دو کرے تو اس کا ایسا ہی انجام کر دیا جاتا ہے۔

ترکی اور پاکستان آج کچھ ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ ترک صدر اپنے ملک کو ترقی اور استحکام دے کر عالمی طاقتوں کے تسلط سے آزاد ایک خودمختار ملک بنانے کی جستجو کررہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے معاشرے کو اسلامی خدوخال میں ڈھال کر ایک جداگانہ تشخص بھی دینا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ بات عالمی استعمار کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔لہٰذا وہ انھیں اب سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ یہ دھماکے اور خودکش حملے اسی اسٹرٹیجی کا ایک حصہ ہیں۔ ترک صدر کا منفرد انداز اور اسٹائل بغاوت اور سرکشی کے زمرے میں گردانا جاتا ہے۔

یہی حال ہمارے ملک کا بھی ہے۔ جنرل ضیاء جب تک سامراجی اور استعماری قوتوں کے ساتھ چلتے رہے ان کے اقتدار کو دوام ملتا رہا لیکن جیسے ہی انھوں نے ان کے فیصلوں سے انحراف اور انکار کیا وہ صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے۔ اسی طرح میاں نواز شریف نے بل کلنٹن کی ممانعت اور تنبیہہ کے باوجود نیوکلیئر ٹیسٹ کر ڈالے تو انھیں بھی قبل از وقت محروم اقتدار کر کے دس سالہ جلاوطنی کی شکل میں بطور احسان جاں بخشی بھی کر دی گئی۔ اب یہی نواز شریف ایک بار پھر برسراقتدار ہے۔

اس نے آتے ہی ملک کو ایک بار پھر ترقی و خوشحالی کے راہ پر گامزن کرنا چاہا اور سی پیک منصوبے کی شکل میں چائنا کے ساتھ ایک ایسا تاریخی معاہدہ کر ڈالا جس نے ان عالمی طاقتوں کے حکمرانوں کی نیندیں حرام کر کے رکھ دی ہیں۔ وہ اب نہ صرف اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں بلکہ میاں صاحب کو بھی اس جرم کی پاداش میں شکست و سرکوبی سے دوچار کر دینا چاہتے ہیں۔ ہماری افواج کی دانشمندانہ اور بصیرت افروز حکمت عملی کی بدولت وہ ابھی تک اپنے اس مشن میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔ دوسری جانب ضربِ عضب نے ان کی آرزؤں کا قلع قمع کر دیا ہے۔

دہشت گردی کا عفریت رفتہ رفتہ اپنی موت سے ہمکنار ہو چکاہے۔ ادھر بلوچستان میں بھی علیحدگی پسند رجحانات کی بیخ کنی کر دی گئی ہے۔ لہٰذا اب وہ اس حربے کو بھی استعمال کر کے سی پیک کا راستہ نہیں روک سکتے۔

مجبوراً اب وہ ملک کے اندر سیاسی بے چینی اور اضطراب اور افراتفری پیدا کر کے ہی اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے کچھ نادان دوست دانستہ و غیر دانستہ اپنی کم عقلی اور ناسمجھی کے سبب ان کی ملک دشمن سازشوں کو مزید مہمیز کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ گرچہ انھیں معلوم ہے کہ ان کی جانب سے کی جانے والی ان کارروائیوں اور ہنگامہ آرائی کا وصول کنندہ وہ نہیںکوئی اور ہی ہوگا۔ ان کے حصے میں تو صرف ہزیمت اور رسوائیاں ہی آئیں گی۔ لیکن ان کے اس عمل کے نتیجے میں ملک اور قوم کو اس کا خمیازہ اگلی کئی دہائیوں تک اٹھانا پڑے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں