پیپلز پارٹی مشکل میں

بالائی سندھ میں مذہبی جماعتیں اسرائیل کے خلاف، جب کہ قوم پرست جماعتیں سندھ میں بلدیاتی نظام کے خلاف متحرک نظر آتی ہیں۔


Parvez Khan November 27, 2012
جمعیت علمائے اسلام سکھر میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً مذہبی جلسے اور عوامی مسائل پر دھرنے دیتی رہی ہے۔ ۔ فوٹو فائل

سکھر کی سیاسی جماعتوں نے آیندہ انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔

قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی چار نشستوں کے لیے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ فنکشنل، متحدہ قومی موومنٹ، متحدہ مجلس عمل، جماعت اسلامی اور قوم پرست جماعتوں کے ذمے داران انتخابی امیدواروں کی فہرستیں مرتب کر رہے ہیں۔ ایک جانب سیاسی محاذ پر تیزی آئی ہے، اور دوسری طرف غزہ پر ہونے والے اسرائیلی حملے کے خلاف مذہبی جماعتیں سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔ گذشتہ ہفتے کے دوران شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو، جب مذہبی جماعتوں نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج نہ کیا ہو۔ مذہبی جماعتوں کے اِس اقدام سے اُن کارکنوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے کا موقع ملا ہے، جو کافی عرصے سے منظر سے غائب تھے۔

بالائی سندھ پر نظر ڈالی جائی، تو مذہبی جماعتیں اسرائیل کے خلاف، جب کہ قوم پرست جماعتیں سندھ میں بلدیاتی نظام کے خلاف متحرک نظر آتی ہیں۔ سندھ میں قوم پرستی کی بنیاد پر سیاست کرنی والی جماعتیں ایک عرصے سے حکومت مخالف تحریک چلا رہی ہیں۔ گذشتہ دنوں جیے سندھ محاذ کے چیئرمین ریاض چانڈیو، سابق اسپیکر سندھ اسمبلی عبداللہ ہارون اور جنرل سیکریٹری خان محمد بھیو کی قیادت میں بلدیاتی نظام کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی، اور گھنٹا گھر چوک پر دھرنا دیا گیا۔ ریلی کے شرکاء نے ایک مرتبہ پھر پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومینٹ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ون یونٹ کے بعد بلدیاتی نظام نافذ کر کے سندھ دھرتی پر حملہ کیا گیا ہے، یہ اقدام سندھیوں کے لیے ''بلیک وارنٹ'' کے مترادف ہے، اور ہم سندھ کی وحدت پر کسی کو حملہ نہیں کرنے دیں گے۔ اگر یہ نظام واپس نہ لیا گیا، تو سندھ دھرتی کے غداروں کو صوبے میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

شرکاء نے صدر زردای کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کی کرپشن کے باعث سندھ غربت کی دلدل میں دھنس چکا ہے، جب کہ پیپلز پارٹی کے عہدے دار اور کارکن کروڑ پتی بن گئے ہیں۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ تین بار منتخب ہونے والی جماعت کبھی سندھ کی توقعات پر پوری نہیں اتری۔ عوام کی اکثریت آج بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، اگر اب بھی سندھ کی عوام کی آنکھیں نہ کھلیں، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ سندھ کے تیسرے بڑے شہر میں معمولی بارشوں کے جنم لینے والے افسوس ناک صورت حال حکومتی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

قوم پرست جماعتوں کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج کے بعد عوام کی بڑی تعداد ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہورہی ہے۔ آیندہ انتخابات قوم پرست جماعتوں کے سرکردہ راہ نمائوں کا امتحان ہوگا۔ اگر اُنھوں نے پیپلزپارٹی اور حکومتی اتحادیوں کے نام زد کردہ امیدواروں کے خلاف الیکشن لڑا، تو دل چسپ صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ ماضی ریکارڈ پر موجود ہے کہ قوم پرست جماعتوں نے سندھ کے اہم ایشو پر بات تو کی، مگر انتخابات میں کام یابی حاصل نہیں کرسکیں، اور نہ ہی کوئی کوئی ایسا امیدوار سامنے لاسکیں، جو حقیقی معنوں میں ووٹ بینک رکھتا ہو۔

جمعیت علمائے اسلام بھی ان دنوں خاصی فعال نظر آتی ہے۔ سکھر میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً مذہبی جلسے اور پریس کانفرنسوں کے علاوہ عوامی مسائل پر دھرنے دیتی رہی ہے۔ گذشتہ دنوں جے یو آئی سندھ کے جنرل سیکریٹری علامہ ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے صوبائی مجلس عاملہ کے اجلاس اور پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کراچی میں امن و امان کی صورت حال کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تجارتی حب میں فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہو رہے، بلکہ تیسری قوت مسلمانوں کو لڑوا رہی ہے، حکومت پر بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ عدلیہ کی نشان دہی پر کارروائی کرتے ہوئے امن دشمنوں کا خاتمہ کرے۔

ڈاکٹر خالد محمود سومرو کا یہ بھی کہنا تھا کہ سندھ میں جاری لاقانونیت، ٹارگیٹ کلنگ کی ذمے داری طالبان پر عاید کرنا فیشن بن گیا ہے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر اُن پارٹیوں کا ذکر کیا ہے، جن کے عسکری ونگ موجود ہیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ عدالت عظمیٰ کے احکامات پر کراچی کو اسلحے سے پاک کیا جائے۔ ساتھ ہی کہا کہ سندھ میں آیندہ عام انتخابات میں حکم راں جماعت کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام اپوزیشن جماعتوں کو ایک جگہ جمع کرنے کی غرض سے رابطہ مہم کا آغاز کیا گیا ہے، اور آیندہ الیکشن میں پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط کروا دی جائیں گی۔

واضح رہے کہ جے یو آئی ایک عرصے سے سکھر میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران جے یو آئی کی صوبائی قیادت نے بڑی کام یابی سے بکھرے ہوئے کارکنوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر لیا ہے۔ جے یو آئی نے سکھر سمیت سندھ بھر میں، انتخابات میں حصہ لینے والے اپنے امیدواروں کی ابتدائی فہرست بھی مرتب کر لی ہے، حتمی نام نگراں حکومت کے قیام کے فوری بعد منظر عام پر آنے کی توقع ہے۔

دیگرسیاسی جماعتوں کی طرح حکم راں جماعت پیپلزپارٹی کی قیادت نے بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ محرم الحرام کے باوجود وزیر سید خورشید احمد شاہ نے پنوعاقل، روہڑی، صالح پٹ اور دیگر علاقوں کے بے روزگار نوجوانوں میں خود روزگار اسکیم کے تحت رکشے تقسیم کیے۔ اس اقدام نے حلقہ 199کے پانچ سو سے زاید بے روزگار نوجوانوں، جو چند روز قبل پارٹی سے نالاں نظر آ رہے تھے، نئی روح پھونک دی۔ اب اِس اسکیم سے مستفید ہونے والے عام انتخابات میں پارٹی کی حمایت کے لیے تیار نظر آتے ہیں، اور ضلع کے تین تعلقوں روہڑی، پنوعاقل اور صالح پٹ کے عوام کی بڑی تعداد وفاقی وزیر کے لیے مثبت جذبات رکھتی ہے۔

یاد رہے کہ عام انتخابات میں حکم راں جماعت کو ضلع سکھر کی دو قومی اور چار صوبائی نشستوں کے لیے امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دینے میں دشواری کا سامنا ہے۔ چند ماہ قبل مہر گروپ سے وابستگی ختم کر کے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے سابق ضلعی ناظم سید ناصر حسین شاہ اور تعلقہ ناظم روہڑی محمد اسلم شیخ، انتہائی مضبوط امیدوار نظر آتے ہیں۔ پنوعاقل کے لیے امیدوار کا انتخاب بھی پیپلز پارٹی کے خاصا مشکل ثابت ہوگا۔ وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ اور سینیٹر اسلام الدین شیخ کے درمیان سرد جنگ نے بھی پارٹی قیادت کو دشواری سے دوچار کیا ہوا ہے، اور مہر گروپ کی پیپلز پارٹی کی شمولیت نے جنگ کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے۔ جوں جوں نگراں سیٹ اپ کا وقت نزدیک آ رہا ہے، حکم راں جماعت ضلع کی سطح پر موجود اختلافات کو ختم کرکے ذمے داران کو اکٹھا کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ 2008 کے عام انتخابات کے بعد حالات میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ شہری حلقہ سینیٹر اسلام الدین شیخ اور رکن قومی اسمبلی نعمان اسلام شیخ کی طرف دیکھ رہا ہے، جب کہ تحصیلوں میں سید خورشید احمد شاہ کی پوزیشن انتہائی مضبوط نظر آتی ہے، اور عام انتخابات میں اگر سکھر ہائوس کو ٹکٹ کے حوالے سے نظر انداز کیا، توپارٹی پر اس کا گہرا اثر پڑے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں