غالب عرفان کا تخلیقی شعور اور پانچویں سمت
غالب عرفان کی شعری انفرادیت اور مخصوص لب و لہجے نے انھیں اردو شاعری میں نمایاں مقام عطا کیا ہے
ان دنوں دو اہم کتابیں میرے زیر مطالعہ رہیں، دونوں ہی بے حد خاص اور اپنی تحریروں کے اعتبار سے معتبر ہیں، ان کے تخلیق کار دیار غیر میں رہائش پذیر ہیں، ایک کتاب کا عنوان ''غالب عرفان اور تخلیقی وجدان'' یہ کتاب غالب عرفان کی مکمل شاعری کا احاطہ کرتی ہے، مصنف سید مسعود اعجاز بخاری نے شاعر کی چاروں کتابوں کو اپنی تحریر میں سمو دیا ہے۔
دوسری کتاب ''پانچویں سمت'' کے نام سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی ہے، یہ افسانوں کا مجموعہ ہے، اس کتاب کی مصنفہ سلمیٰ صنم ہیں، سلمیٰ صنم کا تعلق بنگلور سے ہے، سلمیٰ سے ہماری دوستی کئی سال پر محیط ہے، حیدر قریشی کے وسیلے سے سلمیٰ سے ہمارا تعارف ہوا اور پھر یہ تعارف بہت جلد ذہنی ہم آہنگی اور خلوص کا باعث بنا۔
چند ماہ قبل مذکورہ کتاب موصول ہوئی۔ افسانے پڑھے تو اس بات کا احساس جاگزیں ہوا کہ سلمٰی ہوا میں تیر چلانے کی قائل ہرگز نہیں ہیں بلکہ اپنے تجربات و مشاہدات، وسیع النظری اور اپنی علمیت و صلاحیت کی بدولت معاشرتی واقعات کو افسانوں کے پیمانے میں بے حد خوبصورتی کے ساتھ ڈھالتی ہیں، ان کے افسانوں کے موضوعات اور افکار و خیالات بھی انھیں دوسرے قلمکاروں سے ممتاز کرتے ہیں۔
سلمیٰ صنم کا شمار تو تقریباً نئے قلمکاروں میں ہوتا ہے لیکن سلمیٰ کے برعکس عرصہ دراز سے شاعری کر رہے ہیں اور وہ قادرالکلام شاعر ہیں، شعر و سخن کے گلستان میں قدم جمائے انھیں زمانے گزر گئے ہیں، ان کا شمار سینئر شعرا میں ہوتا ہے۔
غالب عرفان کی شعری انفرادیت اور مخصوص لب و لہجے نے انھیں اردو شاعری میں نمایاں مقام عطا کیا ہے، وہ لفظوں کے شناسا اور الفاظ کو برتنے کے سلیقے سے آشنا ہیں، ان کی شاعری استعارات و تلمیحات سے مرصع ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے محقق، نقاد اور شاعر سید مسعود اعجاز بخاری غالب عرفان کے شعری محاسن سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے اور انھوں نے کاغذ قلم سنبھال لیا۔
اس طرح ایک کتاب وجود میں آگئی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر غالب عرفان عہد جدید کے اہم شاعر ہیں تو سید مسعود اعجاز بخاری بھی اپنی تحریر کے بانکپن اور تنقیدی رجحان سے اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ سید صاحب کی کتابیں مختلف موضوعات پر ہیں، وہ پانچ کتابوں کے مصنف ہیں، انھوں نے ادب کی خدمت میں بہت سا وقت گزارا ہے، جس کے نتیجے میں انھیں اعزازات اور ایوارڈز سے نوازا گیا۔اعجاز بخاری غالب عرفان کی شاعری کے بارے میں اس طرح رقمطراز ہیں کہ:
''غالب عرفان اپنے عہد کا خود ہی موجود اور خود ہی خاتم ہے، کیوں نہ ہو کیونکہ وہ ہفت آسماں پر مکیں اور براجمان دو ہستیوں غالب و اقبال سے برابر فیضیاب ہوئے، تخلیق و دانش و ادراک کی ساری قوتیں اور وسائل تخلیقیہ کے ساتھ اپنے جہاں کا مکیں ہے، غالب عرفان کا کلام شدید مزاحمتی توانائیوں سے بھرپور ہے۔''بخاری نے اشعار کا انتخاب معاشرتی تلخ حقائق کی روشنی میں کیا ہے، سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے یہ اشعار قابل توجہ ہیں:
کس قدر تیز ہوا چلتی رہی کل رات
پتے پتے کا درختوں سے تعلق ٹوٹا
سبز ملبوسات حوادث نے اتارے ایسے
صبح کی جوت نے ہر پیڑ کو عریاں دیکھا
محسن بھوپالی نے غالب عرفان کی شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار اس انداز میں کیا ہے کہ غالب عرفان نے اپنے گرد و پیش میں اپنے باطن کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے وہ اس میں بہت حد تک کامیاب نظر آتے ہیں:
آئینہ مرے مقابل ہے مگر
میرا چہرہ نہیں ملتا مجھ سے
آگ پھیلی اور بستی راکھ بن کر رہ گئی
کچھ تھا موسم کا تقاضا کچھ مقدر کا ہوا
سید مسعود اعجاز بخاری نے اپنے دوست غالب عرفان کی شاعری پر اپنی تنقیدی بصیرت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حق دوستی ادا کردیا ہے اور ایک ایسا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے جو ادب کے طالب علموں کے لیے بے حد مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
ضلع بنگلور کرناٹک سے تعلق رکھنے والی سلمیٰ صنم تین افسانوی مجموعوں کی تخلیق کار ہیں۔ ''طور پر گیا ہوا شخص'' ، ''پت جھڑ کے لوگ'' اور اب ''پانچویں سمت'' ان کے افسانوں کے تراجم پنجابی اور مراٹھی زبان میں ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری ان کے افسانوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ''سلمیٰ صنم کا تعلق اکیسویں صدی کی خواتین افسانہ نگاروں سے ہے، دراصل سلمیٰ صنم سائنس کی طالبہ بھی رہیں اور مدرس سے بھی ان کا تعلق زولوجی (علم حیوانیات) سے ہے، ان کی افسانوی زبان میں بھی سائنس کا پرتو دکھائی دیتا ہے، ان کے افسانوں کا خاص وصف عورت کے حقوق کی پامالی کے خلاف احتجاج ہے۔''
''پانچویں سمت'' کے افسانے قاری کو متاثر بھی کرتے ہیں اور چونکاتے بھی ہیں، قاری اس وقت عالم استعجاب میں مبتلا ہوجاتا ہے جب وہ ''ارگن بازار''، ''تیسری سمت''، ''دو شاخوں والی ندی''، ''پُل'' جیسے افسانے پڑھتا ہے۔ ''ارگن بازار'' نے مجھے بھی بے حد متاثر اور حیران کیا کہ سلمیٰ کی سوچ نے بہت آگے تک کا سفر کیا اور موجودہ حالات کی ستم ظریفی سے دل برداشتہ ہوکر افسانے تخلیق کیے ہیں۔ ''ارگن بازار'' ایک ایسی کہانی ہے جو خوشیوں کو خریدنے اور اس پر نوحہ پڑھنے کا منظر پیش کرتی ہے۔ اسی افسانے سے چند سطور:
''وہ امیر اور ثمین کی شادی کرنا چاہتی ہیں لیکن انھیں ثمو کے جہیز میں ایک گردہ چاہیے، اب آپ بتائیے میں اپنے کس بچے کو ان پر بھینٹ چڑھاؤں کہ ثمو کی شادی ہوسکے۔جیسے زلزلے کا ایک شدید جھٹکا لگا اور سب کچھ زیر و زبر ہوگیا۔ ثمین کو لگا جیسے قیامت آگئی ہو، یہ اس نے کیا سن لیا تھا گردہ اور جہیز میں...دفعتاً اس کو لگا زمانے نے ایک لمبی سی جست لگائی ہے اور وہ دور آگیا ہے جب ارگن بازار وجود میں آچکے ہیں۔ ''
اسی طرح ٹائٹل اسٹوری ''پانچویں سمت'' بھی بے حد شاندار افسانہ ہے، اس کی بنت، کردارنگاری، جزئیات اور اسلوب بیان نے قاری کو مسحور و مبہوت کردیا ہے کہ ایسا بھی ممکن ہے، لیکن آج کے دور میں سب کچھ ممکن ہے، افسانہ نگار نے کھلی آنکھوں اور وجدان کے طلسمات میں گم ہوکر معاشرے کی غلاظت کو اپنی تحریروں میں نفاست کے ساتھ سمو دیا ہے۔ اسی افسانے سے ایک پیراگراف:
''اس نے ایک زناٹے دار تھپڑ مہاراج کے منہ پر دے مارا۔ یہ پاپ ہے، وہ زخمی شیرنی کی طرح دہاڑی۔ نہیں دیوی! مہاراج پر جیسے کوئی اثر ہی نہ ہوا۔ وہی محسوساتی مسکراہٹ، وہی مقناطیسی کشش لیے ہوئے یہ پراچین کال سے چلی آرہی ہے پرتھا ہے جسے نیوگ کہتے ہیں دھرم گرنتھوں میں اس کے کئی اداہران ہیں۔''
ہندو سماج میں عورت پر ہونیوالے مظالم کو سلمیٰ نے افسانوں کا رنگ دیا ہے، جو بے حد متاثر کن ہے۔سلمیٰ صنم کے تمام افسانے زندگی کی کربناکیوں کے گرد گھومتے ہیں انسان پر ہونے والے ظلم، غم، دکھ، افلاس، غربت، معاشرتی طبقات اور موضوعات کو افسانوں کی زبان عطا کردی ہے۔سلمیٰ صنم ایک صلاحیت درد دل رکھنے والی تخلیق کار ہیں، انھیں عورت پر ہونے والے ہر ستم کا احساس شدت سے ہے، یہی احساس انھیں اپنے افسانے لکھنے پر مجبور کرتا ہے، میری دعا ہے کہ وہ اسی طرح افسانے لکھتی رہیں۔