پالیسی سازی تبدیلی کی متقاضی
یہی کچھ حال ہمارے منصوبہ سازوں کا ہے، جنھیں نہ تو خطے کے سیاسی منظرنامے میں کوئی تبدیلی نظر آ رہی ہے
MUZAFFARABAD:
محاورہ ہے کہ شتر مرغ کی طرغ ریت میں منہ چھپا لینے سے طوفان ٹل نہیں جاتا۔ اپنے اطراف اور عالمی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، ان سے صرف نظر کسی اور کو نہیں، خود اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا پہلے دو قطبیت کا شکار ہوئی، پھر یک قطبیت اور اب کثیرالقطبیت میں تبدیل ہو رہی ہے۔ وہ یورپ جو کبھی کرۂ ارض کا حکمران ہوا کرتا تھا، آج سمٹ کر اپنے خطے تک محدود ہو گیا ہے۔ بلکہ یورپی یونین کی شکل میں قائم ہونے والا اتحاد بھی خطرات کی زد میں ہے۔
اسی طرح وہ امریکا جو دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک بڑی عالمی قوت اور سرد جنگ کے بعد شتر بے مہار ہو گیا تھا، اب آہستہ آہستہ اپنی حدود میں آنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں امریکا کا کردار انتہائی سفاکانہ تھا۔ اس نے دنیا کے کئی ممالک میں مقبول جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کرنے والی فوجی آمریتوں کی سرپرستی کی۔ جرمنی یا کوریا کی سفاکانہ تقسیم ہو یا افریقی و ایشیائی ممالک میں کمیونزم کا راستہ روکنے کی کوشش ہو، اس نے اپنے مفادات کی خاطر تمام سیاسی، سفارتی اور اخلاقی اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ دیا تھا۔
معروف منحرف امریکی دانشور نوم چومسکی لکھتے ہیں کہ عالمی جنگ کے خاتمے کے صرف تین برس بعد امریکا نے یونان، اٹلی اور اسپین میں بننے والی مقبول حکومتوں کو اس خوف سے ختم کروا دیا، کیونکہ اسے شک تھا کہ ان کا جھکاؤ سوشلزم کی طرف ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے امریکا نے فاشسٹوں کے ساتھ دست تعاون بڑھانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ مگر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد وہی امریکا سابق یوگوسلاویہ میں ہونے والی خانہ جنگی میں یورپی ممالک کی خواہشات کے برخلاف بوسنیا ہرزیگووینا کی خودمختاری کو تسلیم کر لیتا ہے۔
کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وہ امریکا جس نے کمیونزم کے خاتمے کے لیے ہر حربہ انتہائی سفاکی کے ساتھ استعمال کیا، سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بالعموم اور 9/11 کے بعد بالخصوص اس کے رویوں میں واضح تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔ نظریاتی بندشوں میں گھرے دائیں اور بائیں بازو کے دانشور، جو سرد جنگ کی نفسیات سے جان نہیں چھڑا سکے ہیں، ان باریکیوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
یہی کچھ حال ہمارے منصوبہ سازوں کا ہے، جنھیں نہ تو خطے کے سیاسی منظرنامے میں کوئی تبدیلی نظر آ رہی ہے اور نہ ہی عالمی سطح پر ترجیحات میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔ اس لیے وہ سرد جنگ کے زمانے کی پالیسیوں کے تسلسل پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ ان 68 برسوں میں دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے۔ مگر ہم زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کے مصداق اسی پرانی ڈگر پر رواں ہیں اور اسی پر مسلسل اصرار کر رہے ہیں، جو ہماری فکری اور عملی فرسودگی کا سبب ہے۔
ان صفحات پر ایک سے زائد مرتبہ لکھا ہے کہ سابق امریکی سفیر رابرٹ اوکلے مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ عالمی تعلقات باہمی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں، ان میں اخلاص (Sincerity) کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی وہ یہ الزامات بھی عائد کرتے رہے ہیں کہ امریکا نے پاکستان سے جو کام لیا اس کا خاطر خواہ معاوضہ بروقت ادا کیا۔ جب کہ پاکستان نے ہمیشہ طے شدہ شرائط سے انحراف کیا۔ مگر وزارت خارجہ نے اس سینئر سفارت کار کے الزامات کا کبھی کوئی مدلل جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس رویے سے دو نتائج نکلتے ہیں۔ اول، حکومت پاکستان امریکی سفیر کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتی۔ دوئم، وہ ان الزامات کی صداقت کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ وزارت خارجہ کا موقف جو بھی ہو، اس کے رویوں سے بہرحال ابہام پھیل رہا ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ میں پائے جانے والے کنفیوژن کا اندازہ مشیر خارجہ امور سرتاج عزیز کے سال بھر کے دوران دیے گئے مختلف بیانات، پریس کانفرنسوں اور ٹیلی وژن انٹرویوز سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان کا ہر بیان اور ہر انٹرویو ایک دوسرے سے مختلف تاثر لیے ہوتا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملے میں ریاستی مقتدرہ کے مختلف حلقوں کے درمیان شدید نوعیت کا اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہو یا افغانستان میں قیام امن کا مسئلہ ہو، یا چین کے ساتھ اقتصادی تعاون ہو، پاکستان میں منصوبہ ساز کوئی ٹھوس موقف اختیار کرنے میں ناکام ہیں۔ اس کا سبب پاکستان کے قیام کے منطقی جواز کا بحران ہے، جس کی وجہ سے حقیقت پسندانہ (Rational) حکمت عملی طے نہیں ہو پا رہی۔
جدید دنیا میں خارجہ پالیسی کسی ریاست کے قومی مفادات کی عکاس ہوتی ہے۔ حکومتیں وزارت خارجہ کے تجربہ کار اہلکاروں یعنی Technocrats اور سفارتکاروں کی مدد سے خارجہ پالیسی تشکیل دیتی ہیں۔
جس میں تزویراتی معاملات و مسائل کی ترجیحات طے کرنے کے لیے عسکری قیادت سے مشاورت کی جاتی ہے۔ امریکا میں دونوں جماعتیں تھنک ٹینکس کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کرتی رہتی ہیں کہ امریکا کے قومی اور عالمی مفادات کیا ہیں؟ عالمی منظرنامہ کے تناظر میں یہ مفادات کن کلیدی تبدیلیوں کے متقاضی ہیں؟ ہر جماعت موصولہ معلومات کی روشنی میں اہم نکات (Outlines) بناتی ہے، جو اقتدار میں آنے کے بعد اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو دیے جاتے ہیں۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ پنٹاگون کی مشاورت سے خارجہ پالیسی کا ابتدائی ڈرافٹ تیار کرتا ہے۔ سینیٹ اور کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹیاں اس کا جائزہ لے کر اس میں مناسب ترامیم و اضافہ تجویز کرتی ہیں۔ ان کمیٹیوں میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اراکین شامل ہوتے ہیں۔ پالیسی کی حتمی منظوری پارلیمنٹ دیتی ہے۔
دوسری مثال بھارت ہے۔ جس کی پالیسی سازی پر ابتدائی چند دہائیوں تک گاندھی جی کی خواہشات اور پنڈت نہرو کے سوشلسٹ نظریات کا غلبہ رہا۔ جو بدیسی اشیا پر پابندی اور ملکی صنعت کے فروغ کے خواہاں تھے۔ یہ India Centric پالیسی 43 برس تک چلی۔ اس پالیسی سے بھارت کو کیا فائدہ یا کیا نقصان ہوا، یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن جب بھارتی منصوبہ سازوں کو اندازہ ہوا کہ اب دنیا تبدیل ہو رہی ہے، تو BJP یا کسی دوسری جماعت نے نہیں بلکہ خود کانگریسی قیادت نے یہ فیصلہ کیا کہ اب Nehru Doctrine سے نکلنے کی ضرورت ہے۔
لہٰذا نرسمہاراؤ کے دور میں وزیر خزانہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے پالیسی سازی کے پورے اسٹرکچر کو تبدیل کر دیا۔ خود کمیونسٹ پارٹی، جس کی مغربی بنگال اور کیرالہ میں حکومت تھی، اس نے بھی بیرونی سرمایہ کاری کو اپنی ریاستوں میں خوش آمدید کہا۔ نتیجتاً وہ بھارت جہاں بیرونی سرمایہ کاری معیوب تصور کی جاتی تھی، غیرملکی سرمایہ کاری کا Hub بن گیا۔
پاکستان میں پالیسی سازی میں اس نوعیت کی مشاورت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد حکمران جماعت مسلم لیگ دھڑے بندیوں کا شکار ہو گئی تھی۔ بانی پاکستان کے انتقال کے بعد ایسی کوئی طاقتور شخصیت نہیں تھی، جو پالیسی سازی کے عمل کی نگرانی کرتی۔ بیوروکریسی نے جو پالیسیاں مرتب کیں انھیں بغیر کسی بحث و تمحیص قبول کر لیا گیا۔ ابتدائی 11 برس تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1958ء میں جب فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا، تو پالیسی سازی پر اس کی بالادستی قائم ہو گئی۔ بنگلہ دیش کی آزادی تک فوج بیوروکریسی کی مدد سے تمام پالیسیاں دیتی رہی۔ بھٹو مرحوم کے پانچ سالہ دور میں پالیسی سازی سویلین ہاتھوں میں ضرور آئی، لیکن بھٹو مرحوم نے بھی اسے مکمل طور پر سیاسیانے (Politicise) کی کوشش نہیں کی۔
ان کے بعد جنرل ضیا کے دور میں کچھ خطے کے حالات اور کچھ ان کی اپنی افتاد طبع، پالیسی سازی پر مکمل طور پر فوج کی بالادستی قائم ہو گئی۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ کیونکہ 1988ء سے 1999ء کے دوران قائم ہونے والی سیاسی حکومتیں نہ تو سیاسی عزم و بصیرت کا مظاہرہ کر سکیں، جو پالیسی سازی کے لیے ضروری ہوتی ہے اور نہ ہی وہ بطور حکمران خود کو Assert کر سکیں۔ یہاں تک کہ پرویز مشرف کا دور آ گیا۔ پرویز مشرف کے دور میں قومی پالیسیاں بالخصوص خارجہ پالیسی پر قومی مفادات سے زیادہ تزویراتی ترجیحات کا رنگ حاوی رہا، جو آج تک برقرار ہے۔
خطے کی تبدیل ہوتی صورتحال اور تیزی سے بدلتا عالمی منظرنامہ اس بات کا متقاضی ہے کہ پاکستان کی تمام قومی پالیسیوں بالخصوص خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی جائے اور کلیدی نوعیت کی تبدیلیاں لائی جائیں۔
ایک ایسے رکن قومی اسمبلی یا سینیٹ کو وزیر خارجہ مقرر کیا جائے، جو عالمی سیاست کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وزارت خارجہ کی تشکیل نو کی جائے۔ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں عسکری قیادت کی مشاورت کو ضرور شامل رکھا جائے، مگر پالیسی خارجہ امور کے ماہرین ہی سے تیار کرائی جائے اور اس پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں کھل کر بحث کو یقینی بنایا جائے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے آج کا دور Techno-Politics کا ہے، اس میں روایتی سیاسی طرز عمل کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس لیے پالیسی سازی کے مروجہ طریقہ کار کو مکمل طور پر تبدیل کیا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئی ہے۔ اس کے علاوہ بقا کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آ رہا۔