یہ پتھر نہیں خدا کے تحفے ہیں
بیچ راستے میں پڑا وہ گزرتے لوگوں کی ایک ذرا سی توجہ کا منتظر تھا
بیچ راستے میں پڑا وہ گزرتے لوگوں کی ایک ذرا سی توجہ کا منتظر تھا، مجھے وہ کوئی بیس تیس میٹر کے فاصلے سے ہی نظر آگیا۔ مجھ سے تقریباً اتنا ہی آگے تیز تیز چلتی چار عبایا پوش خواتین کا گروپ اس کے سر پہ ہی پہنچ گیا، پچھلے کئی ملتے جلتے تجربات کی بنیاد پر مجھے ذرا برابر بھی امید نہیں تھی کہ یہ خواتین اس کے بارے میں کچھ کریںگی اور ایسا ہی ہوا کہ وہ اسے ایسے نظر انداز کرتی آگے بڑھ گئیں کہ جیسے وہ وہاں تھا ہی نہیں۔ جب تک میں اس تک پہنچتا مختلف عمروں اور حلیوں کے دو چار مرد حضرات بھی اس کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ چکے تھے۔
میں اس تک پہنچا، جھکا، اسے اٹھایا، دونوں اطراف کے واکنگ ٹریکس کے بیچ میں ڈیڑھ دو فٹ اونچائی پر بنی گرین بیلٹ کی کیاری میں اسے اندر کی طرف رکھ کے دبا دیا۔ اچھا خاصا نوکیلا پتھر تھا جو پارک کے اس واکنگ ٹریک پر آتے جاتے لوگوں میں سے کسی کے لیے بھی اچھی خاصی چوٹ کا باعث بن سکتا تھا، ان ہی لوگوں میں سے کسی کے لیے جو اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کے بھی روادار نہیں تھے۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور اس شکر کے چار حصے تھے۔ پہلا یہ کہ اس نے مجھے یہ پتھر دکھایا، دوسرا اس نے مجھے اس پتھر کو لوگوں کے راستے سے ہٹانے کا شعور دیا، تیسرا یہ کہ شعور کے ساتھ مجھے یہ طاقت بھی عطا فرمائی کہ اسے ہٹا سکوں اور چوتھا یہ کہ کسی اور نے یہ پتھر نہیں ہٹایا۔
مگر یہ کوئی ایسی بڑی بات تو نہیں کہ آدمی جس کے لیے اتنا طومار باندھے۔ یہ اور اس طرح کی دوسری بہت سی باتیں تو ہمیں بچپن میں گھر میں ہی سکھادی گئی تھیں، لوگوں کے راستے سے رکاوٹ ہٹا دو، اونچا نہ بولو، صفائی کا خیال کرو، تمیز سے بات کرو، لوگوں کی بات نہ کاٹو، چھینک اور جمائی کے وقت منہ پر ہاتھ رکھو، جو چیز جہاں سے اٹھاؤ واپس وہیں رکھو، اپنا کام خود کرو، جھوٹ نہ بولو، بے ایمانی نہ کرو، جو کہو وہ کرو، دوسروں کے لیے باعث تکلیف نہ بنو۔ اور یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں، مگر وقت گزرنے کے ساتھ پتا چلا کہ یہ سب باتیں کچھ اتنی چھوٹی باتیں بھی نہیں۔
ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا کہ ہم میں سے کتنے لوگ عبدالستار ایدھی کی طرح ایدھی فاؤنڈیشن، عمران خان کی طرح شوکت خانم اسپتال، ڈاکٹر ادیب رضوی کی طرح SIUT بنا اور چلاسکتے ہیں؟ ہم میں سے کتنے لوگ ایڈورڈ جینر کی طرح چیچک کی ویکسین، تھامس گرین مورٹن کی طرح مریضوں کو آپریشن کے وقت بے ہوش و سن کرنے کے لیے اینستھیزیا تیار کرسکتے ہیں؟ ہم میں سے کتنے جوہانزگیوٹنبرگ کی طرح پرنٹنگ پریس، الیگزینڈر گراہم بیل کی طرح ٹیلی فون، رائٹ برادرز کی طرح ہوائی جہاز ایجاد کرسکتے ہیں؟
ہم میں سے کتنے لوگ جائز اور حلال طریقوں سے بل گیٹس کی طرح کھربوں کما کر کھربوں انسانیت کی فلاح کے لیے دے سکتے ہیں؟ شاید بہت کم، بلکہ بہت کم سے بھی بہت کم۔ مذہب اور عبادت خدا اور بندے کا معاملہ ہے، مگر ایک بات جو لگتا ہے کہ تمام مذاہب ہی میں نمایاں ہے وہ ہے کہ خدا کو خدا کی مخلوق کے لیے بھلائی کرنے والے بہت بھلے لگتے ہیں۔ اور تمام جہانوں کے لیے رحمت خدا کے آخری نبیؐ کی تعلیمات کے مطابق ایمان کے بعد افضل ترین نیکی خلق خدا کو آرام دینا ہے۔
ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کو وہ صلاحیتیں، سہولتیں، آسانیاں، حالات و اسباب، خاندان، دوست، ساتھی، سپورٹرز، زندگی میں نہیں مل پاتے کہ ہم سیکڑوں، ہزاروں، لاکھوں اور آنے والے لاکھوں کروڑوں لوگوں کے لیے کچھ بہت ہی اچھا، بہت ہی بڑا کرجائیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ہم کبھی ان خوش نصیب لوگوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے جو ایسا کر گزرے؟ جی نہیں ایسی بات نہیں، کیوں کہ ہمارا خدا بہت ہی رحیم و کریم انصاف والا ہے اور اس نے تمام صلاحیتیوں، سہولتوں، آسانیوں، حالات، خاندان، دوست، احباب سے بڑھ کر سب سے بڑھ کر اپنی ایک نعمت سب کے لیے پیدا کی ہے، جو چاہے اپنا کر کامیاب ہوجائے اور وہ ہے سوچ، ہماری نیت۔ وہ ہماری نیت دیکھتا ہے تبھی تو اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ وہ ہمارے کچھ کیے بغیر ہمارے لیے تقریباً روز ہی ایسے نجانے کتنے مواقع پیدا کرتا ہے کہ جن سے نہایت آسانی سے فائدہ اٹھاکر ہم اس کے قریب سے قریب تر ہوتے جائیں۔
یہ راستے میں پڑا بدشکل سا پتھر، یہ چپس کا کھڑکھڑاتا خالی لفافہ، پانی ڈھونڈھتی ہانپتی چڑیائیں، راستے کا حق مانگتا برابر والی گاڑی والا، چیختی چلاتی ایمبولینس، مرجھاتا بے زبان پودا، درختوں سے محروم جلتی کڑھتی زمین، یہ ضایع ہوتا پانی، آپ کے گھر، دکان، کاروبار کے آگے پیچھے کی سرکاری زمین، جس پر آپ کی نظر ہے، آپ کا کاروبار، ہوٹل، بیکری، شادی ہال، ڈبل روٹی کی فیکٹری، پکوان ہاؤس، گوشت، پھل، سبزیوں کا کام، دواؤں کا کاروبار، آپ کے فریج میں رکھا زیادہ کھانا، شادیوں پر خرچ ہونے والے لاکھوں ایکسٹرا روپے، پندرہ سو کا برگر، ڈھائی ہزار کا پیزا، 60 ہزار کا موبائل فون، 5 لاکھ کا سوٹ، 10 لاکھ کی گھڑی، ایک کروڑ کی گاڑی، 10 کروڑ کا گھر، ایک ارب کے ایک درجن بینک اکاؤنٹس، آف شور کمپنیاں، آپ کے گرد موجود غریب مگر خوددار ضرورت مند، آپ کا ملازم، ایمپلائز، آپ کا ایمپلائر، آپ سے کمزور لوگ، آپ کی خدمت میں پیش کی جانے والی سمری، رپورٹ فائل، آرڈر، مقدمہ، منصوبہ، آپ کے احکامات پر پروٹوکول، قومی خزانہ، بجٹ فنڈز، گرانٹس، زمین پرمٹ پلاٹ، غیر ملکی تحائف، آپ کی کرسی، تخت، منبر، جماعت، پارٹی، ادارہ، آپ کی مسجد، عبادت گاہ، خانقاہ، دربار، درگاہ، آپ کے ماتحت، پیروکار، اندھے عقیدت مند، دوست، احباب، آپ کی طاقت، طاقت ور جسم، چالاک دماغ، اونچی آواز، نہ تھکنے والی زبان اور نجانے کیا کیا، سب نشانیاں ہیں کہ خدا وند تعالیٰ آپ کو پسند کرتا ہے، آپ خوش نصیب ہیں۔
اب یہ آپ پر ہے بھوکے پیاسے پودوں، پرندوں کو دانہ پانی ڈال دیں، انسانوں کے رزق میں رکاوٹ نہیں سہولت بنیں، جو اپنے نہیں ان مال و زمین پر قبضہ نہ جتائیں، دوائیں زندگی ہیں، زندگیوں سے اپنی لالچ میں نہ کھیلیں، کم از کم کھانے پینے کے کاروبار میں ہی صفائی کا خیال کرلیں، ناجائز منافع سے اپنا پیٹ نہ بھریں، اسے ایک دن ویسے ہی پھٹ جانا ہے، حرام سے کمایا اور کوڑے میں پھینکا گیا کھانا، ہزاروں کے برگر اور پیزا، لاکھوں کے کپڑے، اربوں کی جائیدادیں اور اکاؤنٹس آپ کے ساتھ قبر میں نہیں جائیںگے۔
قبر میں کمیشن طے کرنے اور نوٹ گننے کی سہولت میسر نہیں، اعمال ضرور گنے جائیں گے، اپنے ملازموں، ایمپلائز، اور ایمپلائرز سے نیک نیتی سے چلیں، سمریوں، رپورٹوں، مقدموں، منصوبوں، قومی خزانوں، بجٹوں، فنڈز، گرانٹس کو امانت سمجھیں، خیانت سے باز رہیں۔ زمین پرمٹ پلاٹ، غیر ملکی تحائف اور نیکلس نہ چرائیں۔ کرسی، تخت، گدی اور منبر سے خیر و فلاح پھیلائیں نہ کہ شر و ابتلا۔ جماعت، پارٹی، ادارے سے قوم کی ترقی و خوشحالی کی جدوجہد کریں نہ کہ میثاق کرپشن اور NRO کی۔ قوم سے ظلم و زیادتی، لوٹ مارنہ کریں اور اپنے اور اپنی سات نسلوں کے لیے حرام کے انبار بے شمار نہ سمیٹیں۔ مسجد، عبادت گاہ، خانقاہ، دربار سے توحید و نیکیوں کی روشنی پھیلائیں۔ اپنے دوست احباب، اثر و رسوخ، اپنی طاقت، چالاکی اور سبک گفتاری سے دوسروں کو اذیت نہیں راحت پہنچائیں۔
یہ سارے کرنے اور کرنے سے بچنے والے کام آپ کی زندگی کے راستے میں پڑے چھوٹے بڑے پتھر ہیں، اور یہ پتھر پتھر نہیں آپ کے لیے خدا کا تحفہ ہیں، نشانی ہیں کہ خدا آپ کی خوش نصیبی میں اضافہ چاہتا ہے۔ ان پتھروں کو لوگوں کے راستے سے ہٹاکر آپ خدا کے آپ پر اعتماد اور خدا کی آپ کے لیے پسندیدگی پر پورا اتر جائیے، یا ان پتھروں کی حقیقت و وقعت کو نظر انداز کردیجیے، بلکہ اپنی طرف سے مزید پتھر خدا کی مخلوق کے راستے میں ڈال دیجیے اور خد اکے دیے ہوئے تحفوں کو، خوش نصیبی کو ٹھکرا کر اپنی بدنصیبی ثابت کردیجیے۔