ایک ایدھی اور چند مسخرے
بے حسی کا ایسا مظاہرہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ بابائے انسانیت عبدالستار ایدھی کا جنازہ ہے
بے حسی کا ایسا مظاہرہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ بابائے انسانیت عبدالستار ایدھی کا جنازہ ہے، پہلی صف ہے جس میں وی وی آئی پیز کی بھرمار ہے۔ اس صف میں کھڑے ہیں دو ایسے وی وی آئی پیز جن میں سے ایک ہے اس سلطنت خداداد کا صدر اور دوسرا اس ملک کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کا چیئرمین۔ نمازہ جنازہ کے آغاز سے قبل صف بندی ہو رہی ہے اور یہ دونوں اہم شخصیات کان میں سرگوشیوں کے بعد مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتی نظر آتی ہیں۔ جب پوری قوم سوگوار تھی، اقوام عالم میں پسے ہوئے طبقات ایک مسیحا کے دنیا سے جانے کے دکھ میں مبتلا تھے، تب ان دونوں حضرات کی اس قدر خوشی میری سمجھ میں تو نہیں آسکی۔ ہمارے صدر تو ویسے ہی حکمران جماعت کے ممنون ہیں کہ اس نے انھیں اتنے بڑے ''نمائشی'' عہدے پر فائز کر دیا۔
پانامہ لیکس پر ان کا ضمیر جاگا، انھوں نے ایک ہی دن میں دو جگہ خطاب کیا اور قوم کو محسوس ہوا ان کا ضمیر جاگ گیا ہے۔ ضمیر جیسے ہی جاگا ایک پیغام جناب صدر تک پہنچا اور پھر وہی خواب خرگوش۔ بے حسی کے دوسرے کردار چیئرمین سینیٹ جناب رضا ربانی ہیں۔ موصوف جمہوریت کے بہت بڑے چیمپئن ہیں۔ آئین میں 18ویں ترمیم کے مرکزی کردار بھی ربانی صاحب ہی ہیں۔
ان کے شب وروز جمہوریت کے فروغ، اس کی مضبوطی اور اس کی حفاظت میں گذرتے ہیں۔ موقع کوئی بھی ہو ان کا خطاب جمہوریت سے شروع ہوتا ہے اور جمہوریت پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ حضرت جمہوریت کے اتنے بڑے فین ہیں کہ جب دہشتگردوں کو سزائیں دینے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کے بل کی پارلیمنٹ سے منظوری کا وقت آیا تو باقاعدہ رو پڑے۔ اس لمحے ان کی یہ حالت دیکھ کر جمہوریت کے مخالفین کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے تھے۔ انھوں نے اپنے ساتھ ہزاروں، لاکھوں جمہوریت پسندوں کو بھی جمہوریت کے آنسو رلادیے تھے ۔ ان دوکرداروں کے قریب ہی راحیل شریف نامی ایک آرمی چیف بھی کھڑا تھا۔ ٹی وی اسکرینوں کے ذریعے پوری قوم نے دیکھا جنرل راحیل عبدالستار ایدھی کے صاحبزادے فیصل ایدھی کو حوصلہ دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ آرمی چیف کی یہی ادائیں ان کی ریٹنگ میں اضافہ کرتی ہیں۔
جمہوریت کا ایک اور اہم ترین کردار ان لمحات میں 48 روزہ قیام کے بعد لندن کی ٹھنڈی ٹھار فضاؤںسے ایک بار پھر عوام کی ''خدمت'' کے لیے وطن عزیز کی طرف محو پرواز تھا۔ ایئرپورٹ پر ان کے بھائی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وفاقی وزراء اور چنیدہ میڈیا پرسنزکی ایک معقول تعداد استقبال کے لیے موجود تھی۔ پی آئی اے کے خصوصی بوئنگ 777 نے جو خصوصی طور پر پاکستان سے خالی سیٹوں کے ساتھ لندن بھجوایا گیا تھا، شام 7 بجے کے قریب لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کیا تو میاں محمد نواز شریف جو اس ملک کے وزیراعظم ہیں، باہر تشریف لائے۔ استقبال کے بعد انھوں مختصر گفتگو میں قوم کی ''خدمت'' جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ ہیلی کاپٹر میں بیٹھے اور جاتی امراء کے محل میں چلے گئے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ وہ ایک ہفتہ تک اسی محل میں قیام کریں گے کیونکہ ڈاکٹروں نے انھیں مزید آرام کا مشورہ دیا ہے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ انھیں اپنی وطن واپسی میں ایک دن کی تاخیر کر دینی چاہیے تھی یا اسی دن واپسی ضروری تھی تو طیارے کا رخ کراچی موڑنے کا حکم دیتے۔ قائد اعظم انٹر نیشنل ایئرپورٹ پر اترتے اور وہاں سے سیدھے عبدالستار ایدھی جو دنیا کا امیر ترین غریب تھا کے چھوٹے سے گھر میں جاتے اور تعزیت کرتے۔ ناقدین بھی سوچے سمجھے بغیر بات کر دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایک پرواز کروڑوں روپے میں پڑ گئی ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ نواز شریف اس ملک کے وزیراعظم ہیں۔ کروڑوں کیا وہ اس قوم کے اربوں روپے بھی خرچ کر دیں تو بھی کم ہو گا۔
آخر انھوں نے اس قوم کی خدمت کا فریضہ بھی نبھانا ہے۔اپنی بیماری میں بھی وہ یہ کام کرتے رہے، کوئی اور ایسا کرکے دکھائے تب مانیں۔ جمہوریت کو بچانے کے لیے ان کی خدمات الگ سے ہیں جن کا صلہ یہ قوم انھیں دے ہی نہیں سکتی۔ اس کے باوجود وہ خدمت کرتے چلے جارہے ہیں۔ وزیراعظم کے لندن میں قیام کے دوران ان کے ناقدین نے صرف یہ دیکھا کہ وہ دنیا کے مہنگے ترین اسٹور ہیرڈز میں اہل خانہ کے ہمراہ شاپنگ کرتے اور چائے کافی وغیرہ کا لطف اٹھاتے رہے۔ دل کی تکلیف کے دوران وہ جس علاج سے گذرے یہ انھیں نظر نہیں آتا۔ پیپلزپارٹی کا ایک لیڈر تو اتنا ظالم ہے کہ اس نے یہ ماننے سے ہی انکار کر دیا کہ وزیراعظم کا بائی پاس ہوا ہے جب کہ کہا جاتا ہے کہ ان کے چار بائی پاس ہوئے ہیں۔
سادگی اور خدمت کا پیکر عبدالستار ایدھی کیا کام کرتا تھا۔ وہ کام جو ریاست کی ذمے داری ہے۔ ریاست کے حکمران یہ ذمے داری نبھانے کے پابند ہوتے ہیں۔ بابائے انسانیت کی خواہش تھی کہ حکمران اپنے فرائض ادا کریں۔ ملیشیا کا سوٹ اور10×10 فٹ کے کمرے میں ایئرکنڈیشنر کے بغیر ساری عمر قوم کی خدمت کرنے والا عبدالستار ایدھی اگر اپنے جنازے میں رولنگ ایلیٹ کے ان دو نمایندوں کو مسکراتا ہوا دیکھ سکتا تو وہ کیا کہتا؟ مسخرے۔ گفتار کے ان نمازیوں کی اکثریت نے لوٹ مار کے سوا اور کیا ہی کیا ہے۔
ایدھی کی زندگی کا تو ہر لمحہ انسانیت کی خدمت میں صرف ہوگیا۔ اس نے اپنا آرام اور چین اس قوم کے ناداروں، یتیموں کے نام کر دیا۔ وہ ساری زندگی گمنام لاشوں کو کفنانے دفنانے کا کام کرتا رہا۔ خود اس دنیا سے رخصت ہوا تو زیب تن لباس میں، اس کی آنکھوں کی روشنی بھی اسی دنیا میں رہ گئی۔ اس نے اپنی آنکھیں بھی عطیہ کر دیں۔ اور ایدھی مرا کہاں ہے، مردہ تو ہمارے حکمران ہیں جنھیں چھینک بھی آئے تو چیک اپ کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں۔ زندہ ایدھی نے تو بیرون ملک علاج کی آفر بھی حقارت سے ٹھکرا دی تھی۔ وہ کہتا تھا جس ملک کے غریب لوگ علاج کے بغیر مر جاتے ہیں وہاں باہر علاج کیوں؟ سفر آخرت تک وہ اپنا علاج سرکاری اسپتال سے کراتا رہا۔ یہ تو نجی اسپتالوں سے بھی علاج نہیں کراتے۔ لوگ پوچھتے ہیں اس ملک میں خونی انقلاب کیوں نہیں آتا۔ میرے خیال میں اس کے ذمے دار بھی ایدھی جیسے لوگ ہیں۔ وہ بے کس اور مجبور عوام کا سہارا بن کر انھیں انتہائی اقدام کی طرف جانے سے روکتے ہیں۔
حکمرانوں کے کرنے والے کام ایدھی کرتا رہا اور یہ مسخرے... اب ان کے بارے میں کیا کہوں۔ ایدھی مر کے بعد زندہ ہے اور یہ زندہ ہوتے ہوئے بھی مردوں سے برے ہیں۔ ان جیسے کئی اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔ ایدھی ایک ہی تھا۔ مخسرے تو سیکڑوں ہیں۔