وقت کم ہے

میں اکثرسوچتا ہوں کہ غیرت کیا ہے؟ اور ہمارے معاشرے میں ہم اس لفظ کوکس طرح استعمال کر رہے ہیں



FAISALABAD: میں اکثرسوچتا ہوں کہ غیرت کیا ہے؟ اور ہمارے معاشرے میں ہم اس لفظ کوکس طرح استعمال کر رہے ہیں۔ جہاں تک میں نے پڑھا اپنے محدود علم کے مطابق اگر ایک شخص اللہ کے حضور سوال کرے اس کا سوال بھی ایسا ہوکہ اس کے پورے کرنے میں معاشرتی اعتبار سے کوئی مشکل نہ ہو یا اس سوال کے پورے کرنے سے کسی کی حق تلفی نہ ہوتی ہو،کسی کا نقصان نہ ہوتا ہو تو اللہ کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ سائل کا سوال رد کردیا جائے۔

اللہ کی غیرت... کیا ہے اللہ کی غیرت؟اللہ کی غیرت مجھ کم علم کے مطابق یہ ہے کہ وہ حاکم مطلق ہے یعنی واحد حاکم ہے کہ جو اس سوال کو پورا کرسکتا ہے، حاکم مطلق غنی بھی ہے، منصف بھی ہے۔ عادل بھی ہے اور تمام تر اوصاف جو حاکم مطلق کے ہوتے ہیں ان کا مالک ہے تو اگر اس سے سوال کیا گیا ہے اور اختیار رکھتے ہوئے یہ علم بھی رکھتے ہوئے کہ سوال جائز ہے، کسی کو کوئی نقصان اس سوال سے نہیں،کسی کی حق تلفی نہیں کہ وہ سب کا رب ہے تو سب کا خیال رکھتا ہے تو سارے جواز مکمل ہوں۔

ہر چیز مکمل ہو ہماری زبان میں سوال کرنے والے کے سوال کے تمام ڈاکیومنٹ درست ہوں اور پھر بھی اللہ اسے پورا نہ کرے جب کہ وہ جانتا ہے کہ اس سوال سے سائل کو نقصان بھی نہیں ہے کہ پورا کردیا جائے تو اگر رب اس سوال کو پورا نہ کرے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مطلق نہیں ہے، قادر نہیں ہے، مالک نہیں ہے اور یہ سارے نہیں اس کی ذات والاصفات کے بالکل برعکس ہیں تو یہاں سوال غیرت کا پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ سب کچھ ہے تو سوال کو پورا کرکے سائل کو شکر کا موقع کیوں نہ دے۔ یہ ہے اللہ کی غیرت۔ ہم نے ایک بہت سادہ توضیع کی ہے، تفسیر کرنے والوں کے اختیار کو ہرگز نہیں چیلنج کیا کیونکہ یہ ایک بہت مشکل راہ ہے مگر اللہ میرا بھی ہے اور مجھے اس کو بیان کرنے کا اپنا انداز اختیار کرنے کا حق بھی اسی اللہ نے دیا ہے۔تو یہاں سے ہم نے ایک اصول اپنے لیے وضع کرلینا چاہیے کہ غیرت کا جہاں سوال آئے تو وہاں آپ کو کون کون سے اختیارات کا مالک ہونا چاہیے اور آپ کا طرز عمل کیا ہونا چاہیے۔ ہم رات دن غیرت کے نام پر کیا کچھ دیکھتے رہتے ہیں۔

آخر غیرت کو ہم نے صرف ایک صنف کو باندی اور قیدی بنانے کے لیے کیوں اختیارکرلیا ہے، جو لوگ اس کا پرچارکرتے ہیں خود ان کے کردارکیا ہیں۔ بوکو حرام اور ایسے دوسرے گروہ غیرت کے نام پرکیا کررہے ہیں۔ اپنی ہی قوم کی بے گناہ لڑکیوں کو کنیزیں بناکر وہ تمام کام کررہے ہیں جو اسلام سے پہلے معاشرے میں رائج تھے اور جسے ختم کرنے کے لیے اسلام کا ظہور ہوا ۔حضور اکرمؐ ساری دنیا میں ہادی بن کر آئے اور اپنے طرز عمل سے انھوں نے کرکے دکھایا کہ معاشرے کے اس حصے کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہیے اس کی عزت اور احترام کو کس طرح ملحوظ خاطر رکھا جائے۔معاشرت میں کیا مقام آبادی کے حصے کا ہے،کیا اہمیت ہے قوانین کی اسلامی معاشرے میں حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا، حدود بانٹی گئیں کہ یہ کام اس کا ہے یہ اس کا ہے یہ حق اس کا ہے اور وہ حق اس کا ہے۔

جب حقوق وفرائض کا تعین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما دیا تو اب اسے تبدیل کرکے من مانے اصول کیوں بنائے جا رہے ہیں، عورت کو سزا اور جزا کی جنس کیوں بنایا جا رہا ہے۔ جب دین اسلام ایک مرد کے جرم کی سزا عورت کو نہیں دیتا اور ایک عورت کے جرم کی سزا مرد کو نہیں دیتا تو یہ کون لوگ ہیں جنھوں نے عورت کو اس طرح تقسیم کا ذریعہ بنا کر لوگوں کی عزت نفس کو پامال کرنے کا گناہ عظیم کیا ہے اورکررہے ہیں اورکرتے چلے جارہے ہیں۔ صرف خبریں آتی ہیں کہ ان فیصلوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔کیا کارروائی کی گئی،کس کو سزا دی گئی کہ اس نے ایک جیتے جاگتے انسان کی تقدیر کا فیصلہ کیوں کیا ،اس کو کیا حق حاصل تھا جب کہ ملک میں قانون موجود ہے؟

مگر کوئی خبر اس خبر کے بعد نہیں آتی کیونکہ جرم کرنے والے ہاتھ بہت طاقتور ہیں انھوں نے دینی سماجی ہر اعتبار سے غریب لوگوں پر غلبہ کیا ہوا ہے کوئی فاروقؓ ان کی مدد کو نہیں آرہا۔ یہ کس کی ذمے داری ہے حکومت کی وہ ان لوگوں کو سزادے اور سزا کی خبر کو عام کرے تاکہ آیندہ اس جرم کا ارتکاب نہ ہوسکے۔

ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ آپ اور ہم سب جانتے ہیں کہ سزا دینے والے خود ان معاشروں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں یہ سب رائج ہے۔ بھارت میں اچھوت تو پاکستان میں کمی کیا فرق ہے؟

یہ ایک مسلم ملک ہے جس کا رات دن ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اور اسلامی قوانین عالم عرب میں نافذ ہیں جہاں نہ تاخیر ہوتی ہے فیصلے میں اور نہ سزا پر عمل درآمد روکا جاتا ہے کسی بھی قیمت پر۔ وہاں بھی کچھ نہ کچھ خیالات میں فرق ہوسکتا ہے مگر قانون رائج ہے۔ مکے اور مدینے میں اگر لوگ دکان کھلی چھوڑ کر نماز پڑھ سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ اس لیے کہ وہاں قانون ہے اور بلاتفریق سخت عملدرآمد کا طریقہ کار۔یہاں قوانین بنائے جاتے ہیں تو ان میں چور راستے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔

بقول شخصے قانون بنایا ہی اس لیے جاتا ہے کہ توڑا جاسکے اور اس طرح یہ ثابت کیا جاسکے کہ ہم قانون بناتے ہیں یہ ہمارے گھر کی لونڈی ہے جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کریں۔ ایک فیصلہ ہوتا ہے اس پر اپیل پھر فیصلہ اور پھر دوسری عدالت اور اپیل۔ آخرکار لوگ تھک ہارکر دستبردار ہوجائیں اس لیے کہ یہ انگریزکا بنایا ہوا قانون ہے جس کا مقصد یہی تھا کہ اس علاقے کے لوگوں کو انصاف نہ مل سکے اور وہ من مانی کرسکیں۔ ان کے جانے کے بعد یہ ہمارا ورثہ بن گیا حالانکہ ہمیں اسے باہر نکال کراپنا قانون بنانا چاہیے تھا تعزیرات پاکستان کو خالصتاً اسلامی کیا جاتا تو یہ سارے تماشے نہ ہوتے اورعورتوں کی جگ ہنسائی نہ ہوتی۔

عجیب بات ہے کہ خواتین کے بارے میں فیصلے مرد کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اپنے گھر میں بھی خواتین ہیں وہ بھی کسی کے باپ بھائی بیٹے ہیں۔ وہ اپنی خواتین کو اعلیٰ ترین اور غریبوں کی عزت کو کم ترین سوچ کر فیصلے کرتے ہیں۔

جرائم کی تفصیل لکھوں تو صفحات کے صفحات بھر جائیں گے سزا بھی اگر ملتی ہے تو صرف غریب کو ملتی ہے نہ اس کے پاس طاقت ہے نہ دولت اور ہمارا معاشرہ ان دو چیزوں پر استوار ہے جو قابل شرم ہے۔ بدبو آتی ہے اس معاشرے سے جہاں رات دن نام نہاد قوانین کے تحت خواتین کو بے عزت کیا جاتا ہے ۔ قانون نے اتنے چور راستے پیدا کیے ہوئے ہیں کہ لوگوں کے ہاتھ جرم کرتے ہوئے نہیں کانپتے، دل نہیں دھڑکنا بھول جاتا۔ اور نام ہے غیرت جو دراصل بڑوں کا غرورکمزوروں کی مجبوری ہے پھول جیسی بچیوں کو تاراج کردیا جاتا ہے غریبوں کی بہو بیٹیوں کی عزت سربازار نیلام ہوتی رہتی ہے مصر کے بازار لگائے جاتے ہیں اور معصوموں کو ونی یا کاری کردیا جاتا ہے۔

مسلمانوں خدا سے ڈرو! یہ سب عارضی ہے زمین کے نیچے نہ تمہاری طاقت ہے نہ اقتدار وہاں صرف ایک کا حکم چلتا ہے جو احد ہے، واحد ہے ، عادل ہے اور منصف ہے، قہار ہے، جبار ہے ، تو سمجھ لو کہ قہارکیوں ہے اور کس کے لیے ہے۔ ظالموں کے لیے قہار اور مظلوموں کے لیے رحیم وکریم۔

توبہ کرلو! بہت ہوگیا، صراط مستقیم سامنے ہے اس پرآجاؤ ملک اور قوم کو رسوا نہ کرو، قتل وغارت گری سے پرہیز کرلو۔وقت کی رفتار تیز ہے اور آپ کے پاس وقت کم ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں