جھوٹ کے بغیر سیاست کا خواب

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ جولیڈر جھوٹ بولے وہ قیادت کا اہل نہیں ہوسکتا


Muhammad Saeed Arain July 12, 2016

لاہور: تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ جولیڈر جھوٹ بولے وہ قیادت کا اہل نہیں ہوسکتا ،جب کہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی نے انکشاف کیا ہے کہ آصف علی زرداری مک مکاؤ والے لیڈر نہیں ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی شاید سچ کہا ہے کہ حکومت کو موبائل فونز پر ٹیکس پورا نہیں مل رہا۔ یہ تاثرات ملک کی تین بڑی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے اہم رہنماؤں کے ہیں۔ وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پیپلز پارٹی اور کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں اور تینوں پارٹیوں میں خود کو سچا اور دوسروں کو جھوٹا قرار دینے کا مقابلہ بھی زورشور سے چل رہا ہے اور قوم سر پکڑے بیٹھی ہے کہ کس کو جھوٹا سمجھیں اورکس کو سچا قرار دے۔

یہ تینوں خالص سیاسی جماعتیں ہیں جب کہ ایک اور سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک بھی ہے جس کا مذہبی و دینی نام منہاج القرآن ہے جس کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری ہیں جو زیادہ تر ملک سے باہر رہتے ہیں اور دل کی بھڑاس نکالنے پاکستان آتے ہیں جن کے دھرنے بڑے منظم اور مشہور ہیں اور وہ اسلام آباد میں اپنے دو دھرنوں میں اپنے جذباتی خطاب میں جتنا سچ بولتے رہے ہیں اور اپنی ناکامیوں پر قوم کو مبارکبادیں بھی دیتے رہے ہیں۔

وہ صرف ایک بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ ملک کی سیاست سے بیزار ہوکر مستعفی ہوکرکینیڈا جا بسے تھے اور ملک کی گندی اور جھوٹ کی سیاست سے بیزار ہوکر خود کو دین تک محدود کر بیٹھے تھے مگر پھر چند سال بعد انھوں نے ملک کی سیاست میں لوٹ کر آنا کیوں ضروری سمجھا جب کہ وہ اس سیاست سے متنفر ہوکر ہی قومی اسمبلی کی رکنیت چھوڑ گئے تھے۔ایک اور دینی و سیاسی جماعت کے سادہ نظر آنے والے امیر سینیٹر سراج الحق نے بھی کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں شور شرابے کے سوا کوئی اورکام نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے دل کی بات بھی بتا دی کہ میرا بس چلے تو میں ملک کے کرپٹ لوگوں پر ٹرین چڑھا دوں۔ ایک اور مذہبی و سیاسی ملک گیر رہنما مولانا فضل الرحمن ہیں جنھیں عمران خان مولانا نہیں مانتے بلکہ انھیں کسی اور نام سے یاد کرتے ہیں اور دونوں کے درمیان ایک دوسرے پر الزام تراشی اور جھوٹا قرار دینے کا مقابلہ بھی جاری ہے۔

یہ پانچوں سیاسی و دینی پارٹیاں ملک گیر اور ان کے رہنما قومی قائدین میں شمار ہوتے ہیں جب کہ صوبوں تک محدود دیگر سیاسی و مذہبی پارٹیاں بھی ہیں اور متحدہ کے علاوہ تھوڑی تعداد میں پارلیمنٹ میں بھی موجود ہیں۔ آج کل خود کو قومی سطح کا لیڈر سمجھنے والے اپنی پارٹی کے واحد رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد ہیں جو اپنی پارٹی کی وجہ سے نہیں بلکہ نواز شریف دشمنی کے باعث پی ٹی آئی کی مدد سے منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے ڈالر کی قیمت کم ہونے پر قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا مگر ڈالر نیچے آکر اوپر چلا گیا مگر مستعفی نہیں ہوئے اور اب اپنی بے شمار پیشن گوئیاں غلط ثابت ہونے پر انھوں نے کہا ہے کہ موجودہ بجٹ نواز شریف حکومت کا آخری بجٹ ہے اور ان کا یہ کہنا بھی پورا نہ ہوا تو آیندہ کا بجٹ تو نواز حکومت کا واقعی آخری بجٹ ہوگا کیونکہ ان کی مدت پوری ہوجائے گی۔

سابق حکومت کے ڈپٹی وزیر اعظم چوہدری پرویز الٰہی بھی ہیں جن کی موجودہ حکومت کے خاتمے کی کوئی خبر سچی ثابت نہیں ہوئی البتہ انھوں نے اپنی پارٹی مسلم لیگ (ق) سے آصف علی زرداری کا وہ الزام ضرور غلط قرار دلادیا کہ (ق) لیگ، قاتل لیگ واقعی نہیں ہے جسے آصف علی زرداری نے اقتدار ملنے سے قبل قاتل لیگ قرار دیا تھا مگر متحدہ سے تنگ آکر نہ صرف (ق) لیگ کو بعد میں اپنی حکومت کی مدت پوری کرانے کے لیے شریک اقتدار کرلیا تھا اور (ق) لیگ کو کلین چٹ مل گئی تھی۔

اقتدار برقرار رکھنے کے لیے کلین چٹ تو عمران خان نے شیرپاؤ کی پارٹی کو بھی دے دی ہے جس کو کرپشن کے الزام میں کے پی کے حکومت سے نکالا تھا مگر جماعت اسلامی کے خوف سے عمران خان اسی شخص کو سینیٹر اور وزیر دوبارہ بنانے پر مجبور ہوگئے۔ عمران خان ماضی میں مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی پرکرپشن سمیت مختلف الزامات لگایا کرتے تھے مگر عمران خان کی رضامندی سے اب پی ٹی آئی متحدہ اپوزیشن میں پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ کے ساتھ موجود رہ کر انصاف کا مظاہرہ کرچکی ہے اور ایک ماہ قبل عمران خان نے سندھ میں کرپشن کے خلاف جو ریلی نکلوائی تھی اور انھوں نے سکھر آکر خود ریلی میں شامل ہوکر پیپلز پارٹی کی کرپشن کو بے نقاب کرنا تھا مگر پاناما لیکس میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل جانے کے باعث وہ پی پی کی سابقہ اور موجودہ کرپشن بھول گئے۔

وزیر اعظم نواز شریف کا بھی دعویٰ ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے اور سچ کی سیاست کے قائل ہیں اور انھوں نے ماضی میں جھوٹ بولا ہے نہ جھوٹے وعدے کیے ہیں اور جو کہا ہے وہ کرکے بھی دکھایا ہے اور ان کی سیاست سچ کی سیاست ہے۔ اقتدار ملنے سے قبل لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی انھوں نے تاریخ دی تھی نہ جھوٹا وعدہ کیا تھا اگر یہ مان لیا جائے تو میاں نواز شریف نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ وہ مشرف دور میں کوئی معاہدہ کرکے جلاوطن نہیں ہوئے تھے مگر بعد میں ان کا کیا ہوا معاہدہ نہ صرف منظر عام پر آیا بلکہ انھوں نے اپنی اس بات سے بھی انحراف کیا کہ وہ مشرف کے ساتھیوں کو اپنے ساتھ نہیں ملائیں گے۔ اقتدار میں آکر میاں صاحب نے مشرف دور کے وزیروں تک کو اپنی کابینہ میں شامل کر رکھا ہے اور جس شخص پر ان کی حکومت میں آئین شکنی کے مقدمات بنے تھے وہ شخص وزیر اعظم کی حکومت میں ملک سے باہر چلا گیا۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے میاں صاحب کو بڑا بھائی مان کر کچھ وعدے اور معاہدے کیے تھے مگر بعد میں انحراف کرکے انھوں نے کہا کہ وعدے اور معاہدے قرآن پاک نہیں ہوتے کہ ان پر عمل بھی کیا جائے۔آصف علی زرداری کی صدارت میں ان کے مقررکردہ دونوں وزرائے اعظم اور وزیروں پرکرپشن اور ملک لوٹنے کے الزامات لگے، مگر آج وہی آصف علی زرداری اپنے دورکی کرپشن کو بھلا کر نواز شریف کی مبینہ کرپشن کے پیچھے پڑے ہیں اور عمران خان کی ہاں میں ہاں بڑے فخر سے ملا رہے ہیں جب کہ ان کی حکومت کے مذہبی امور اور دینی رہنما حامد سعید کاظمی کو کرپشن ثابت ہونے پر سزا بھی ہوگئی ہے۔ ملک میں ایسی کون سی سیاسی پارٹی یا اس کی حکومت ہے جس پر کرپشن کے الزامات نہ ہوں اور ایسا کون سا لیڈر ہے جس نے جھوٹے وعدے نہ کیے ہوں کرپشن اور جھوٹ بولنے میں سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں، ان میں دین کی باتیں کرنے والے سیاسی و مذہبی رہنما بھی ہیں اور سیاست کو عبادت سمجھ کر جھوٹ بولنے اور پھر جھوٹ پر ڈھٹائی سے ڈٹے رہنے والے خالص سیاسی رہنما بھی مگر پھر بھی ان کے دعوے ہیں کہ وہ کرپٹ ہیں نہ جھوٹے وعدے کرنے والے ہیں اور ادھر یہ قوم ہے جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی انھیں ووٹ دینے پر مجبور ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں