’’میگنیٹو ہائیڈرو ٹروپزم‘‘ ایک اور سائنسی فراڈ

یقیناً یہ ایک غیرمعمولی دعویٰ ہے جسے، بقول آنجہانی کارل ساگان ’’غیرمعمولی ثبوتوں کی ضرورت ہے۔‘‘


علیم احمد July 13, 2016
حاملہ خرگوشنی کو طیارے میں سوار کیا، چار ہزار فٹ سے بھی زیادہ بلندی پر بھیج دیا اور کچھ تجربات کئے؛ یہ کونسی سائنس ہے؟ (فوٹو: فائل)

جب کوئی سائنسدان اپنی ''انقلابی تحقیق'' کسی تحقیقی مجلے (ریسرچ جرنل) میں شائع کروانے کے بجائے میڈیا کے سامنے پیش کرنے لگے تو محتاط رہنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ سائنسی فراڈ بھی ہوسکتا ہے۔
پندرہ سال کا قصہ

میں نے ڈاکٹر اورنگزیب الحافی اور ان کے ''میگنیٹو ہائیڈرو ٹروپزم'' (Magneto-Hydro-Tropism) سے متعلق پہلی خبر آج سے کوئی چودہ پندرہ سال پہلے روزنامہ ڈان میں پڑھی تھی۔ میں ان دنوں ڈان اخبار کے ہفت روزہ سائنسی سپلیمنٹ ''سائی ٹیک ورلڈ'' (Sci-Tech World) کے لئے قلمکاری کیا کرتا تھا اور اس روز اتفاقاً برادرم خالد رحمان (ایڈیٹر سائنس) کے پاس کسی کام سے گیا ہوا تھا۔ نیوز روم سے کسی نے انہیں اس خبر کی طرف متوجہ کیا اور کہا کہ اس بارے میں کوئی تفصیلی سائنس فیچر چھپنا چاہئے۔ لیکن تقریباً ایک گھنٹے کی انٹرنیٹ سرچ سے اندازہ ہوگیا کہ ان ''ڈاکٹر صاحب'' نے یا تو اخبار کے صحافی کو بے وقوف بنایا ہے یا پھر معاملہ کچھ اور ہے۔ خیر! ایڈیٹر صاحب نے معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بارے میں فیچر شائع کرنے سے معذرت کرلی۔

بعد ازاں وقفے وقفے سے ڈاکٹر حافی کے بارے میں مختلف ویب سائٹس پر اور اخبارات میں خبریں شائع ہوتی رہیں جن میں بار بار ایک ہی بات کا اعادہ کیا جاتا رہا، اور وہ یہ کہ
ڈاکٹر موصوف پاکستان کے ایک عظیم سپوت ہیں جنہوں نے بنیادی اور اطلاقی (applied) سائنس کے میدان میں انتہائی غیرمعمولی دریافتیں کی ہیں اور یہ کہ انہیں قومی و بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا جاچکا ہے۔

اسی پر بس نہیں، بلکہ ڈاکٹر حافی نے ایک ذاتی ویب سائٹ بھی بنوا ڈالی جس میں انہیں ''سر'' کا خطاب دیا گیا اور ان کے ''تحقیقی کارناموں'' کو ''نوبل بریک تھرو'' لکھا گیا۔

تلاش بسیار اور تحقیق کے باوجود ڈاکٹر حافی سے متعلق کوئی ایک خبر، کوئی ایک اطلاع بھی صداقت کے درجے پر فائز نہ ہوسکی اور تو اور، تحقیقی وابستگی اور اعزازات کے ذیل میں ڈاکٹر موصوف کی جانب سے جن اداروں اور جامعات وغیرہ کے حوالے مہیا کئے گئے، یا تو ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا، یا پھر ان سے ڈاکٹر الحافی کا کوئی تعلق ثابت نہیں ہوسکا۔

ان سب سے بڑھ کر، ڈاکٹر الحافی اور ان کی ''انقلابی سائنسی دریافتوں اور ایجادات'' کے بارے میں کسی معتبر سائنسی تحقیقی مجلے میں کوئی ایک تحقیقی مقالہ بھی دستیاب نہیں ہوسکا۔ غرض کہ پروفیسر ڈاکٹر اورنگزیب الحافی اور ان کی ''انقلابی دریافتوں'' کا سارا بھرم صرف ان کی اپنی جاری کردہ پریس ریلیزوں، میڈیا میں آنے والی خبروں اور خود ان کے اپنے دعووں کی بنیاد پر قائم ہے جو انہوں نے کئی جگہوں پر کئے ہیں۔ سنجیدہ سائنسی تحقیقی مطبوعات اور تحقیقی مجلے (ریسرچ جرنلز) اس کی بالکل بھی تصدیق نہیں کرتے۔

اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ مجھے پروفیسر اورنگزیب الحافی اور ان کے ''میگنیٹو ہائیڈرو ٹروپزم'' میں کوئی سائنسی فراڈ کیوں دکھائی دے رہا ہے؟

شاید مجھے یہ پرانا قصہ ایک بار پھر چھیڑنے کی ضرورت نہ پڑتی، لیکن کیا کیجئے کہ اس ''انقلابی دریافت'' کی باسی کڑی میں گزشتہ ہفتے سے کچھ ایسا اُبال آیا ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔
ایک ناقابلِ فہم پریس ریلیز

واقعہ یہ ہے کہ عیدالفطر سے صرف ایک دن پہلے مؤرخہ 5 جولائی 2016ء کے روز، مختلف مقامی ویب سائٹس اور نیوز چینلوں پر یہ خبر چلنا شروع ہوئی کہ ایک پاکستانی ''سائنسدان'' پروفیسر قاضی اورنگزیب الحافی نے ''میگنیٹو ہائیڈرو ٹروپزم'' کا اوّلین عملی مظاہرہ کیا ہے۔ موصوف ''پروفیسر صاحب'' نے اپنی اس ''کاوش'' اور ''انقلابی تحقیق'' سے ذرائع ابلاغ کو آگاہ کرنے کے لئے انگریزی میں ایک عدد خبری اشاعیہ (پریس ریلیز) بھی جاری فرمادیا۔ ہرچند کہ مذکورہ پریس ریلیز کا مقصد ذرائع ابلاغ اور عامۃ الناس کو اس ''تحقیق'' کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کرنا تھا لیکن بھاری بھرکم اصطلاحات، گنجلک زبان اور پیچیدہ اندازِ بیان کے دیدہٴ دانستہ استعمال سے اس کا متن کم و بیش ناقابلِ فہم بنادیا گیا تھا۔

یہ پریس ریلیز کم و بیش یکساں متن کے ساتھ، انگریزی ہی میں پنجاب یونیورسٹی اور ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان سے لے کر متعدد قومی اور بین الاقوامی ویب سائٹس پر شائع ہوئی ہے (اور اب تک مختلف ویب سائٹس پر شائع ہورہی ہے)۔ سرِدست یہ کہیں پر بھی اردو میں موجود نہیں۔ پریس ریلیز کے متن سے پتا چلتا ہے کہ اس تجربے میں ایک حاملہ خرگوشنی کو (چھوٹے طیارے میں بٹھاکر) چار ہزار فٹ سے زیادہ کی بلندی پر پہنچایا گیا اور 1.2 ٹیسلا پر پلازما اور دوسرے آزمائشی آلات (object-testers) کی مدد سے اس پر ''میگنیٹو ہائیڈرو ٹروپزم'' کے اوّلین تجربات کئے گئے۔
تحقیقی ابلاغ کے تقاضے

ہر سائنسی صحافی یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ کوئی بھی سائنسداں جب کوئی نئی دریافت، ایجاد یا تحقیق کرتا ہے تو اس پر لازم ہوتا ہے کہ پہلے وہ اپنی تحقیق (اور تحقیقی نتائج وغیرہ) کو ایک مقالے کی شکل دے کر اسی شعبے کے کسی باضابطہ تحقیقی مجلے یعنی ''پیئر ریویوڈ ریسرچ جرنل'' کو ارسال کرے۔ اگر وہ مقالہ، سائنسی و تحقیقی نقد و نظر (peer review) سے گزرنے کے بعد اشاعت کے لئے قبول کرلیا جائے تو مقالے کے مصنف (یا مرکزی مصنف) کو ایک خط کے ذریعے اس بارے میں بتایا جاتا ہے اور اکثر اوقات یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی اس تحقیق کے بارے میں کس دن، کس تاریخ اور کس وقت کے بعد میڈیا میں بات کرسکتا ہے۔ یہ تمام باتیں تحقیقی ابلاغ کے بنیادی تقاضوں میں شامل ہیں۔

لیکن پروفیسر حافی نے اس کا بالکل اُلٹ کیا۔ انہوں نے پریس ریلیز کے ذریعے میڈیا کو اپنی ''انقلابی تحقیق'' سے آگاہ کیا لیکن اپنا تحقیقی مقالہ کسی معتبر مقامی ریسرچ جرنل تک کو ارسال نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ ذرائع ابلاغ کے نمائندگان یہ اہلیت نہیں رکھتے کہ اس تحقیق کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کریں۔ ڈاکٹر حافی کی اس حرکت کا واحد مطلب یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یا تو وہ تحقیقی ابلاغ سے واقفیت ہی نہیں رکھتے، یا پھر انہوں نے جان بوجھ کر میڈیا کو اس بارے میں اطلاع دی ہے تاکہ ناقابلِ فہم انگریزی اور جذبہ حب الوطنی کا غلط فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اب یا تو وہ حکومت سے کوئی لمبی چوڑی ''ریسرچ گرانٹ'' وصول کرنا چاہتے ہیں، یا پھر ان کی خواہش ہے کہ حکومتِ پاکستان اُن کا نام نوبل انعام کے لئے بھیجے۔ واللہ اعلم بالصواب!
مبصرین کا عالمی پینل

پریس ریلیز مزید یہ بھی کہتی ہے کہ اس موقع پر مبصرین کے پینل میں ناسا، کیمبرج یونیورسٹی اور امریکہ کی ''نیشنل پوسٹ سائنٹفک اتھارٹی'' کے علاوہ متنوع فیہ علمی اداروں (اکیڈیمیا) سے بین شعبہ جاتی (inter-disciplinary) ماہرین بشمول پروفیسر ایمیریٹس ڈاکٹر ذکی (کومسیٹس)، ڈاکٹر اعظم شیخ (سائنس انٹرنیشنل)، ڈاکٹر شاہین خان (ایچ ای سی) اور مختلف اداروں سے تحقیق کار شریک تھے۔

یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر ناسا اور کیمبرج یونیورسٹی کا کوئی بھی ماہر واقعتاً یہاں موجود ہوتا تو ان دونوں اداروں کی ویب سائٹ پر اس کا کوئی نہ کوئی اعلان ضرور موجود ہوتا۔ لیکن ایسی کوئی پریس ریلیز، کوئی خبر ان میں سے کسی ادارے کی ویب سائٹ پر دستیاب نہیں ہوسکی۔ علاوہ ازیں، امریکہ میں ''نیشنل پوسٹ سائنٹفک اتھارٹی'' کا بھی کوئی وجود دریافت نہیں کیا جاسکا۔ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے جیسے بلند پایہ پاکستانی سائنسی ماہرین اور محققین اس موقعے پر موجود تھے۔ حیرت ہے کہ تحقیقی ابلاغ کے متعلق وہ تمام باتیں جو اوپر بیان کی گئیں، کیا ان کے علم میں نہیں تھیں؟ اس سے شک کے بادل اور گہرے ہورہے ہیں۔


غیرمعمولی دعویٰ، غیرمعمولی ثبوتوں کی ضرورت

آگے چل کر یہ پریس ریلیز ''میگنیٹو ہائیڈرو ٹروپزم'' (ایم ایچ ٹی) کو اس عہد کی ''عظیم ترین دریافت'' قرار دیتے ہوئے اس کا سہرا پروفیسر قاضی اورنگزیب الحافی کے سر باندھتی ہے اور بتاتی ہے کہ وہ پاکستان کے ''کثیر شعبہ جاتی'' (multidisciplinary) سائنسداں ہیں جو آج کل پنجاب یونیورسٹی سمیت، ایشیاء کی کئی مشہور جامعات میں پوسٹ ڈاکٹرل (پی ایچ ڈی کے بعد) تحقیقی کاموں میں مرکزی محقق (پرنسپل انویسٹی گیٹر) کے طور پر مصروف ہیں۔ یقیناً یہ ایک غیرمعمولی دعویٰ ہے جسے، بقول آنجہانی کارل ساگان ''غیرمعمولی ثبوتوں کی ضرورت ہے۔''

پریس ریلیز میں ''ایم ایچ ٹی'' کا سائنسی پس منظر واضح کرتے ہوئے اسے ''ہر جگہ موجود'' (omnipresent) اور ''ہر صلاحیت کا حامل'' (omnipotent) مظہر قرار دیا گیا ہے جس کا تعلق مقناطیسی میدان کی ہائیڈروجن عنصر پر اثر پذیری سے ہے۔ یہ مظہر (یعنی ایم ایچ ٹی) جزوی طور پر موج نما ''بے وزن'' (weightless) ذرّے ''میگنیٹرون'' (Magnetron) پر منحصر ہے جو کسی ''ویکٹر وجود'' (vector-entity) کی مانند برتاؤ کرتا ہے یعنی اپنے اسکیلر (scalar) خطوط سے ویکٹر کے اثرات پیدا کرتا ہے۔

کچھ سمجھ میں آیا؟ نہیں؟ کوئی بات نہیں، مجھے بھی کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔

البتہ، پریس ریلیز کا یہ حصہ ڈاکٹر حافی کی پول کھول رہا ہے۔ موج نما ''بے وزن'' ذرّہ، میگنیٹرون، ویکٹر وجود اور اسکیلر خطوط سے ویکٹر اثرات پیدا ہونا، یہ سب باتیں پہلی نظر میں سائنسی ضرور دکھائی دیتی ہیں لیکن درحقیقت ان کا سائنس سے کوئی واسطہ نہیں۔ مثلاً ''میگنیٹرون'' کے نام سے تجرباتی آلات ضرور ہیں لیکن فزکس میں اس نام کا کوئی ذرہ نہیں پایا جاتا۔ علاوہ ازیں، فزکس ہی میں ہم کسی ذرے کو ''بے کمیت'' (massless) ضرور کہتے ہیں لیکن اسے ''بے وزن'' نہیں کہتے۔ گویا ڈاکٹر حافی نے یہاں پر پیچیدہ انگلش کے ساتھ ساتھ میڈیا کی سائنس سے عدم واقفیت کو بھی مقصد براری کے لئے استعمال کیا ہے۔
فاتحانہ سائنسی کامیابی؟

والٹن ایئرپورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر حافی نے ایم ایچ ٹی کی دریافت کو بنیادی اور اطلاقی، دونوں طرح کی سائنسز میں وسیع البنیاد، کثیر جہتی اور دور رس اثرات کا حامل قرار دیا۔ ڈاکٹر حافی نے مزید کہا کہ یہ (ایم ایچ ٹی) ہائی انرجی فزکس کی نئی دنیا میں نظری بنیادوں کا مرکزی فریم ورک فراہم کرتی ہے۔ ان کے مطابق، اس ''فاتحانہ سائنسی کامیابی'' کی بدولت، پڑوسی ملک کے سائنسدانوں کے دعووں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مقناطیسی حرکیات (magneto-kinetics) میں پاکستان کو اہم ترین عالمی مرکز کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔

تحریر کا مدعا عنقا ہونے پر معذرت، لیکن انگریزی پریس ریلیز کی زبان اس سے بھی زیادہ گنجلک ہے۔



ڈاکٹر حافی صاحب! ذرا یہ تو بتادیجئے کہ آپ ہائی انرجی فزکس میں کونسی نئی دنیا پیدا کرنا چاہ رہے ہیں؟ ذرا یہ بھی فرمادیجئے گا کہ طیارے میں خرگوش کو سوار کراکے ہزاروں فٹ کی بلندی پر پہنچانے کا ہائی انرجی فزکس کی نئی دنیا سے کیا تعلق ہے؟
البرٹ آئن اسٹائن اور کوانٹم فزکس کا فریم ورک

اپنی اس دریافت کو انہوں نے طبیعیات، کیمیا، خلائی سائنس، طب، حیاتیات، برقیات، ماحولیات اور سائنس کی بہت سی دوسری متعلقہ شاخوں کے لئے ''نئے افق'' کے مساوی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ البرٹ آئن اسٹائن نے کوانٹم فزکس کے تصورات کا فریم ورک بنایا تھا اور اب پاکستانی سائنسدانوں کی ٹیم، ایم ایچ ٹی کے تصور کا فریم ورک وضع کررہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ''فوٹو ٹروپزم'' (photo-tropism) یا ''فوٹو ٹروپی سٹی'' (photo-tropicity) کہلانے والا مظہر سائنسی لٹریچر میں کوئی نیا نہیں اور مشہور و معروف رہا ہے، لیکن ایم ایچ ٹی کا مظہر، جدید سائنسی کاوشوں کے تناظر میں، یکسر ''غیر مستعمل'' (virgin) ہے۔

کیا کہا! آئن اسٹائن نے کوانٹم فزکس کے تصورات کا فریم ورک بنایا تھا؟ ڈاکٹر حافی صاحب، نہایت ادب سے گزارش کروں گا کہ سائنسی تاریخ کے بارے میں اپنی معلومات درست کرلیجئے۔ آئن اسٹائن نے ''فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ'' ضرور دریافت کیا تھا جو کوانٹم فزکس میں توانائی کی غیر مسلسل (discrete) ماہیئت پر دلالت کرتا ہے اور اس پر آئن اسٹائن کو نوبل انعام برائے طبیعیات بھی دیا گیا تھا۔ لیکن آئن اسٹائن کی ساری زندگی کوانٹم فزکس کی مخالفت کرتے ہوئے گزری کیونکہ وہ سائنس میں جبریت (determinism) کا قائل تھا جبکہ کوانٹم فزکس کی ساری عمارت احتمال (probability) کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ آئن اسٹائن کا مشہور جملہ ''خدا کائنات کے ساتھ پانسے نہیں کھیلتا'' بھی اسی بحث کے بارے میں ہے۔

اب یہ ''ایم ایچ ٹی کے تصور کا فریم ورک'' کیا بلا ہے؟ پریس ریلیز میں اس کے متعلق کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ البتہ، ''فوٹو ٹروپزم'' کا تذکرہ ضرور ہے۔ روشنی کے ردِعمل میں پودے اور دوسرے جاندار اپنا رُخ (یا اپنی سمت) تبدیل کرلیتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جسے سائنس کی زبان میں ''فوٹو ٹروپزم'' کہا جاتا ہے۔ اب اس کا ایم ایچ ٹی (میگنیٹو ہائیڈرو ٹروپزم) سے کیا تعلق اور مماثلت ہے؟ پریس ریلیز اس بارے میں ایم ایچ ٹی کو ''غیر مستعمل'' (virgin) قرار دیتے ہوئے خاموش ہوجاتی ہے۔
حرفِ آخر

میں ایک محب وطن پاکستانی ہوں اور اپنی مادرِ وطن کے لئے میری محبت غیر مشروط ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں وطنِ عزیز میں سائنس کے نام پر ہونے والے فراڈ کو درست قرار دے دوں۔ ڈاکٹر حافی کے دعوے کی سچائی جانچنے کے لئے ضروری ہے کہ معتبر سائنسی ماہرین کا ایک پینل بنایا جائے جو میگنیٹو ہائیڈرو ٹروپزم کا تفصیلی جائزہ لے اور اس کے غلط یا صحیح ہونے سے متعلق کوئی مستند اور حتمی سائنسی رائے پیش کرے۔ ورنہ وہی سب کچھ ہوگا جیسا 2012ء میں ہوچکا ہے، جب میڈیا نے پانی سے گاڑی چلانے کا دعوی کرنے والے آغا وقار کو کاندھوں پر بٹھایا، پھر خبروں اور ٹاک شوز میں اس پر طرح طرح کی بحثیں کیں، اور آخر میں اسے ڈاکو قرار دے کر بات ختم کردی۔ اِس لیے ضروری ہے کہ یہ قصہ منطقی نتیجے تک پہنچایا جائے تاکہ آنے والے برسوں میں بے بنیاد سائنسی دعووں اور سائنسی فراڈ کا راستہ بند کیا جاسکے اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر وہی ہوگا جو ہوتا آرہا ہے۔ یعنی ہر چند سال بعد کوئی نہ کوئی ''نامور سائنسداں'' اٹھتا رہے گا، لوگوں کو بے وقوف بنانے کے بعد پاکستان کےلئے عالمی جگ ہنسائی جمع کرتا رہے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں