جائیداد کی خریداری پر نیا ٹیکس

جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والی پارٹیاں جائیداد کی قیمت کم ظاہر کر کے انتہائی کم ٹیکس ادا کرتی ہیں


Adnan Ashraf Advocate July 13, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: حکومت نے جائیداد میں سٹہ بازی اور کالا دھن کو روکنے اور ریئل اسٹیٹ کو دستاویزی بنانے کے لیے غیرمنقولہ جائیدادوں کی خرید و فروخت کے قوانین میں مختلف ترامیم کے ذریعے بلیک اکانومی کو قانونی حیثیت میں لانے کی کوششوں کا آغاز کیا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے حالیہ بجٹ میں مالیاتی بل کے ذریعے ایک ترمیم کے تحت قیمتوں کے تعین کے لیے پہلے سے طے شدہ جائیدادوں کے ریٹ ختم کر دیے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ جائیداد کی اصل قیمت کے عدم تعین کے باعث اصل واجب الادا ٹیکس کا بہت ہی کم حصہ قومی خزانے میں جمع ہو پاتا ہے۔

جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والی پارٹیاں جائیداد کی قیمت کم ظاہر کر کے انتہائی کم ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ اربوں روپے کی جائیدادوں کی خرید و فروخت لاکھوں روپے میں دکھا کر ہزاروں روپے کا ٹیکس ادا کیا جاتا ہے، جس سے کالا دھن فروغ پاتا ہے اور ملک کی معیشت کا اصل حجم کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا ہے۔ نئے طریقہ کار کے تحت سرمایہ کاروں کو اسٹیٹ بینک کے تخمینہ کاروں کے ذریعے اپنی جائیداد کی مالیت کا تخمینہ لگانے کا پابند کیا گیا ہے، جو بعد ازاں ایف بی آر کے محکمہ ان لینڈ ریونیو کے حوالے کی جائے گی۔

اس سلسلے میں انکم ٹیکس آرڈیننس مجریہ 2001ء کے سیکشن نمبر 68 میں ترمیم کر کے غیر منقولہ جائیداد کی ویلیوایشن کا نیا نظام یکم جولائی سے نافذالعمل ہو گیا۔ اس کا اطلاق غیر منقولہ املاک کے ماضی میں ہونے والے لین دین پر بھی ہو گا۔ نان فائلر نے گزشتہ 10 سال میں اور فائلر نے گزشتہ 5 سال کی جائیداد کی خرید و فروخت پر بھی ہو گا۔ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار کو دستاویزی بنانے کے حکومتی اقدامات کے متعلق اسحق ڈار کا کہنا ہے کہ جائیداد کی ڈی ویلیوایشن حقیقی بنیادوں پر نہیں ہوتی، جائیداد کی اصل مارکیٹ ویلیو اس سے بیس گنا زیادہ ہوتی ہے۔ ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے اسٹیک ہولڈرز حکومت کے ساتھ بیٹھ کر حقیقی قیمتوں کے تعین پر تیار ہو گئے ہیں۔

جائیدادوں کی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار سے متعلق بتایا گیا کہ متعلقہ کمشنر ان لینڈ ریونیو کے دائرہ اختیار میں جو بھی غیر منقولہ جائیداد کے لین دین ہوں گے یا کیے گئے ہوں گے ان کو یہ کمشنر اسٹیٹ بینک کے مقررہ تخمینہ کاروں کے پینل کو بھجوائیں گے، متعلقہ پینل کم و بیش ایک ماہ کے اندر اس جائیداد کی مارکیٹ ویلیو کا تعین کر کے واپس متعلقہ ان لینڈ کمشنر کو بھجوائے گا۔ اس طریقہ کار سے غیر منقولہ جائیداد میں جو اربوں ڈالرز کا کالا دھن لوگوں نے 2006ء سے لگا رکھا ہے اس پر 35 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا اور اس کے مساوی جرمانہ الگ ہو گا اور عدالت سے 2 سال تک قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ صحیح صورتحال تو قانون کی اصل تفصیلات کے سامنے آنے اور اس کے عملی اطلاق کے بعد سامنے آئے گی۔

29 جون کو یہ تہلکہ خیز خبر آنے کے ساتھ ہی پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار میں تیزی کا رجحان دیکھنے میں آیا، حالانکہ دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں میں برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی وجہ سے سخت مندی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ماہرین اور اسٹاک مارکیٹ بروکرز کا کہنا ہے کہ غیر منقولہ جائیداد سے دولت نکال کر لوگ اس سے شیئر خریدیں گے، انڈسٹریز اور ٹریڈنگ میں لگائیں گے جس سے ملک کی جی ڈی پی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو گا اور کالا دھن قانونی حیثیت میں آ جائے گا، اس میکانزم سے ایف بی آر کو کھربوں روپے کے اضافی ٹیکس ملیں گے اور ملک میں حقیقی معنوں میں مساویانہ ٹیکس نظام رائج ہو جائے گا جو ابھی تک نہیں تھا اور ٹیکس چور ٹیکس ادا کیے بغیر سرمایہ غیر منقولہ املاک میں لگاتے چلے آ رہے تھے، جس کی وجہ سے صنعتیں بند اور روزگار کے مواقع تیزی سے کم ہوتے جا رہے تھے اور کالا دھن کا حجم بھی بڑھ رہا تھا۔ اس حکومتی اقدام سے ملک میں روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہوں گے، کارخانے تیزی سے لگیں گے اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔

اس وقت ملک کی جی ڈی پی 30 ارب جب کہ غیر دستاویزی معیشت کا حجم 30 ارب سے بھی زیادہ بتایا جاتا ہے، حکومتی مالیاتی ٹیم کا اندازہ ہے کہ وہ اس عمل سے غیر دستاویزی معیشت کو بھی ٹیکس نیٹ میں لاسکے گی جو کہ ٹیکسوں کی عدم ادائیگی کے باعث کالے دھن میں شمار ہوتی ہے۔ اس ترمیم سے غیر پیداواری سرمایہ کاری سے سرمایہ صنعتوں میں منتقل ہو گا جو جی ڈی پی میں اضافہ اور روزگار کے مواقع پیدا کرے گا۔ حکومت تاریخ کے سب سے زیادہ 3140 ارب روپے کے محصولات وصول کرنے اور آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کا دعویٰ بھی کر رہی ہے، وہ اس میں کس حد تک کامیاب رہتی ہے، یہ قانون کے عملی اطلاق کے بعد سامنے آ جائے گا۔

اور اس سلسلے میں جو ابہام اور تذبذب پایا جاتا ہے واضح ہو جائے گا۔ صدر کراچی چیمبر آف کامرس نے انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 68 میں فنانس ایکٹ کے ذریعے کی گئی ترمیم کو فوری طور پر منسوخ کر کے سابقہ نظام کو بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ جائیدادوں کی مالیت کا اندازہ لگانے کے عمل میں کرپشن کی مزید نئی راہیں کھل جائیں گی۔ صدر انکم ٹیکس بار نے بھی ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے کمشنر ان لینڈ کو اختیارات دینے سے کرپشن بڑھے گا، جب کہ اسٹیٹ بینک نے وضاحت کی ہے کہ اسے بھیجے گئے ٹیکس کی مارکیٹ ویلیو کے تعین کے لیے مستعد اور تجربہ کار تخمینہ کاروں (Evaluers) کا پینل بنایا جائے گا جس میں دو سے زائد تخمینہ کاروں کو شامل کیا جائے گا اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ اسٹیٹ بینک کا پینل پورے میکانزم اور پروسیس کو شفاف اور ناقابل چیلنج طریقے سے مکمل کرے۔

جائیداد کے کاروبار میں شریک سٹہ بازوں اور ٹیکس چوروں نے قومی خزانے کو ہی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ یہ عام شہریوں کا بھی استحصال کر رہے ہیں۔ جائیداد کے کاروبار میں ملوث مافیا کی وجہ سے بے گھروں اور کرایہ داروں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کو کوئی ایسی پالیسی وضع کرنی چاہیے جس سے جائیداد کی خریداری عام شہری کی دسترس میں آجائے مثلاً یہ کہ پہلی جائیداد خریدنے پر شہری ہر قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں، اس کے بعد مزید جائیدادوں کی خریداری میں ان ٹیکسوں کی شرح بالترتیب بھاری ترین کردی جائے تاکہ اس شعبے سے قیمتوں کو آسمان پر لے جانے اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والی مافیا کا زور توڑا جاسکے۔

اس سلسلے میں جائیداد کے امور سے متعلق مختلف محکموں مثلاً KDA, SBCA، کنٹونمنٹ بورڈ اور ریونیو ڈپارٹمنٹ میں کڑی نگرانی اور احتسابی نظام وضع ہونا چاہیے، خاص طور پر رجسٹرار آفس جہاں گھپلے بازی اور رشوت ستانی کا بازار گرم رہتا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ سرکار طلبا کے تعلیمی سرٹیفکیٹ کی تصدیق تو کم ازکم 17 گریڈ کے افسر سے مانگتی ہے لیکن اربوں روپے مالیت کی جائیداد کی رجسٹریشن کے معاملات گریڈ 11 کے سب رجسٹرار کے حوالے کیے ہوئے ہیں، جن کی تعلیم و تربیت اور تعیناتی کا معیار صرف سیاسی اثر و رسوخ ہے، جس کی وجہ سے یہ تمام سیاہ و سفید کے مالک اور عدم جوابدہ بنے ہوئے ہیں۔ جب تک یہ تمام خرابیاں دور نہیں کی جاتیں کوئی حقیقی تبدیلی آنا ناممکن ہے۔ حکومت اپنی توجہ محض اپنی آمدن بڑھانے کے ساتھ ساتھ شہریوں کے وسیع تر مفادات کا بھی تحفظ کرے جو اس کی کلیدی ذمے داری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔