اپوزیشن کی تحریک اور اندیشہ سودوزیاں
ملک کے اندر جب بھی کوئی جمہوری حکومت کام کر رہی ہو تو حزبِ اختلاف کا کام بہت آسان ہو جایا کرتا ہے
ملک کے اندر جب بھی کوئی جمہوری حکومت کام کر رہی ہو تو حزبِ اختلاف کا کام بہت آسان ہو جایا کرتا ہے۔ وہ اپنا سارا کام چھوڑ کرصرف اور صرف حکومت کے اچھے اور بُرے دونوں طرح کے کاموں پر ہر وقت کیڑے تلاش کرتے رہتے ہیں، لیکن یہی لوگ ایک غیرجمہوری حکومت کے دنوں میں نجانے کہاں چھپ جاتے ہیں کسی کو نہیں پتہ۔ گن پوائنٹ پر برسرِاقتدارآنے والوں کے سامنے اِن کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں اور اُن میں سے بیشترخود ساختہ جلا وطنی اختیارکر کے یورپین ممالک میں جا بیٹھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ابتدا کے کئی سال ہمارے فوجی حکمراں بڑے آرام وسکون سے گزار لیتے ہیں۔ اُنہیں کسی مزاحمت اور مضبوط اپوزیشن کا قطعاً کوئی سامنا نہیں ہوتا۔ وہ بلاخوف و خطراپنی پالیسیوں اور اپنے نظریات کو قوم پر مسلط کرتے رہتے ہیں۔ آٹھ دس سال بعد اُن کی اپنی غلطیوں کے سبب اور ایک ہی نظام کے تسلسل سے عوام کی روایتی بیزاری کو دیکھتے ہوئے ہماری کچھ اپوزیشن جماعتیں جمہوریت کی علمبردار بن کر میدانِ عمل میں اُترآتی ہیں اور اپنے نامہ اعمال میں جمہوریت کے لیے جدوجہد اور قربانیوں کے نئے کارنامے درج کروا کے چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کر لیتی ہیں۔ یہی سیاسی پارٹیاں ایک جمہوری دور میں پہلے دن سے حکمرانوں کو ٹف ٹائم دینے اور اُنہیں قبل از وقت محروم اقتدار کرنے کے ارادوں اور عزائم لیے معرکہ آرائی پر اُترآتی ہیں۔
2013 ء کے انتخابات کے بعد ابھی صرف ایک سال ہی گزرا تھا اور حکومتِ وقت کی جانب سے اِس دوران کوئی ایسی بڑی کوتاہی یا غلطی بھی سرزد نہیں ہوئی تھی کہ مبینہ دھاندلی کو ایشو بنا کر لانگ مارچ اور ایک بڑے دھرنے کا سوانگ بڑی ذہانت اور ہشیاری سے رچایا گیا۔ جو بالآخرچار ماہ کی بے چینی اور اضطرابی کیفیت کے بعد کسی خفیہ شٹ اَپ کال پراختتام پذیر ہوا۔ ملک اِس کے بعد ایک بار پھر اپنے ادھورے رہ جانے والے منصوبوں کی تکمیل کے لیے جونہی آگے بڑھنے لگتا ہماری اپوزیشن اُس کی راہ میں کوئی نہ کوئی ایشو اُٹھا کر روڑے اٹکانے کی اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوتی رہی۔
ہم سب یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ 2013ء میں جب موجودہ حکومت بر سراِقتدارآئی تو اُسے امن و امان سمیت معاشی و اقتصادی بحرانوں کا زبردست چیلنج درپیش تھا، جس پر اُس نے اپنے تدبر سے بڑی حد تک قابو پا لیا۔ ملک کے اندر ہر روز بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے نتیجے میں ہزاروں لوگ مارے جا رہے تھے۔ کراچی میں آئے دن کے احتجاج اور ہڑتالوں سے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق ہو رہا تھا۔ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کی وارداتوں نے لوگوں کا جینا حرام کر کے رکھ دیا تھا۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر تیزی سے سر اُٹھا رہے تھے۔
دنیا ہمیں ایک ناکام ریاست کا نام دینے جا رہی تھی۔ معاشی و اقتصادی طور پر ہم دیوالیہ ہونے کی حدوں کو چھو رہے تھے۔ زرمبادلہ کے ذخائرکم ہوتے ہوتے صرف چند ماہ کے استعمال کے لیے باقی رہ گئے تھے۔ پی آئی اے اور ریلوے تباہی اور بربادی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ ملک کے اندر بجلی، گیس اور پیٹرول کا بحران بڑھتا جا رہا تھا۔ گاڑیوں میں سی این جی بھروانے والوں کی گیس اسٹیشنوں پر لمبی لمبی قطاریں معمول بن چکی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اب ایسی کوئی بحرانی صورتحال نہیں ہے۔
دہشتگردی کے عفریت کو ہماری بہادر افواج کے تعاون سے بوتل میں بندکر دیا گیا ہے۔ کراچی میں سماجی اور کاروباری رونقیں بحال ہو چکی ہیں۔ بلوچ قوم کو قومی دھارے میں واپس لایا جا چکا ہے۔ اب وہاں ہمارا قومی پرچم جلایا نہیں جا رہا ہے۔ بلوچ قوم کے لوگوں کے اندر اب احساسِ محرومی اور استحصال کا تاثر ماند پڑتا جا رہا ہے۔ وہ بھی ملک کی ترقی کے ثمرات سے لطف اندوز اور بہرہ مندہونے لگے ہیں۔
اس کے علاوہ قومی ایئرلائن اور ریلوے کی نظام کو بھی بہتر بنایا جا رہا ہے۔ قطر سے ایل این جی درآمد کر کے گیس کے بحران پر بھی کسی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر ملک کی تاریخ میں پہلی بار 23 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ اسٹاک ایکس چینج دنیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی کمپنیوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کر رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ملکی ترقی و خوشحالی کے بڑے بڑے منصوبوں کی داغ بیل بھی ڈالی جا چکی ہے۔ دوست ملک چین کے تعاون اور مدد سے شروع کیا جانے والا اقتصادی راہداری کامنصوبہ ہمارے روشن مسقبل کے لیے ایک نوید بن کر آیا ہے۔ یہ اگر مقررہ ٹائم فریم میں کامیابی اور تکمیل کے مراحل سے ہمکنار ہو گیا تو پھر اِس قوم کو کوئی بھی طاقت ایشین ٹائیگر بننے سے روک نہیں پائے گی۔
یہی وہ خوف اور اندیشہ ہے جو ہمارے دشمنوں کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے۔ وہ اِسے ہر حال میں سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ادھر ہمارے کچھ نادان اور ناسمجھ سیاستدان اُن کی اِن سازشوں کو مہمیزکرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ وہ اگلے چند مہینوں میں ملک کا سارا نظام تلپٹ کر دینے کی فکر میں سرگرداں ہیں۔ اُنہیں حکومت مخالف کوئی بڑا اسکینڈل یا ایشو نہ ملا تووہ پانامہ لیکس کو بہانہ بنا کر وہ جلاؤ گھیراؤ، انتشار اور فساد پھیلانے کے ارادوں سے مسلح ہو کر ملک کی ترقی کا پہیہ جام کر دینے پر بضد ہیں۔ لیکن اُنہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ اگر اُن کے اِن حرکتوں کے سبب اور ملک کے اندر بے چینی اور افراتفری کی وجہ سے چائنا نے سی پیک منصوبے کو رول بیک کر دیا تو پھر اِس کا خمیازہ کون بھگتے گا۔
وہ، موجودہ حکمران یا یہ غریب اور لاچار قوم ۔ چائنا اِسی شرط اور ضمانت پر اِس منصوبے پر 46 ارب ڈالر لگانے پر رضامند ہوا تھا کہ اِس روٹ پر یہاں اب کوئی خلفشار اور فساد برپا نہیں ہو گا۔ کوئی بدامنی یا ملک دشمن کارروائی نہیں ہو گی اور ہمارے متعلقہ ذمے دار حلقوں نے اُسے اِس چیز کی گارنٹی بھی دے رکھی ہے۔ سیاست کرنے کے لیے تو ساری زندگی پڑی ہے۔ کسی کا محاسبہ یا احتساب کرنا ہے تو وہ اگلا الیکشن جیت کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ کسی کی کرپشن یا منی لانڈرنگ کا پتہ لگانا ہے تو دو سال بعد بھی کیا جا سکتا ہے۔ جمہوریت اور ملک کو قربان کر کے نہیں۔ سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کر کے نہیں۔ ترقی و خوشحالی کے عوض نہیں۔
21 جولائی کو آزاد کشمیر میں الیکشن ہونے جا رہا ہے۔ ہماری اپوزیشن نے شاید اِسی وجہ سے اپنی مجوزہ تحریک کو فی الحال موخرکیا ہوا ہے۔ ورنہ اُس نے عید کے فوراً بعد ہی سے سیاسی اتھل پتھل کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔ ابھی اُس کی ساری توجہ کشمیر کے انتخابات پر لگی ہوئی ہے۔ حالات و واقعات عندیہ دے رہے ہیں کہ وہاں بھی ہماری اپوزیشن کو شدید ہزیمت کا سامنا ہونے جا رہا ہے۔ الیکشن کے نتائج اُن کے حق میں آتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپنی موجودہ حکومت کے دوران وہاں کوئی خاطرخواہ کارکردگی دکھا نہیں پائی ہے۔
اِس لیے وہاں کے لوگ اُس سے متنفر ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان اور اُن کی پارٹی کا امیج بھی اُن کے لااُبالی اور غیر ذمے دارانہ پن کی وجہ سے اچھا خاصا خراب ہو چکا ہے۔ دونوں جماعتوں کے سربراہوں نے اب تک وہاں کئی جلسے کر کے بھی دیکھ لیے ہیں لیکن اُن کی کامیابی کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں۔ یہ ساری باتیں اپوزیشن کو متنبہ کرتی ہیں کہ اُنہیں اب اپنی ساری توجہ مثبت اور تعمیری سیاست کی جانب مرکوز رکھنی چاہیے۔
2013ء کے الیکشن میں 80 لاکھ ووٹ لینے والی تحریکِ انصاف کو اب شاید 2018ء کے انتخابات میں اتنے بھی ووٹ نہ پڑیں۔ یہی خوف اور اندیشہ اُنہیں مضطرب کیے ہوئے ہے اور وہ ابتلا میں ہنگامہ آرائی کی سیاست کو اپنا محور بنائے ہوئے ہے۔