ایک اچھا قدم شرط ہے

ایک بھائی، شوہر، بیٹا اور باپ یہ بات یاد رکھیں کہ جو کچھ وہ دوسروں کیلئے سوچیں گے ایک دن وہی کچھ انکے ساتھ بھی ہوگا۔


جب اپنی بہن کو لے کر نکلا تو کچھ لڑکوں نے عجیب نظروں سے ہمیں گھورا۔ یہ بات مجھے بہت بُری لگی اور تب احساس ہوا کہ جب ہم یہ کام کرتے تھے تو دوسروں کی ماوں بہنوں کو بھی کتنی تکلیف ہوتی ہوگی۔

GILGIT: ''میں نے تو فیصلہ کیا ہے کہ میں کسی لڑکی کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھوں گا۔'' اس کے ارادوں میں پختگی اور آنکھوں میں ایک چمک نمایاں تھیں۔

''کیوں ایسا کیا ہوگیا جو آج اچانک یہ باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔'' میں نے تعجب بھرے لہجے سے پوچھا۔

''دراصل بات یہ ہے کہ ہم اکثر خواتین کو ہی ہر بُرائی کی جڑ کہتے ہیں مگر ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ اُس بُرائی کی وجہ بھی تو ہم ہی ہوتے ہیں۔ اگر لڑکیوں کو پردے کا حکم دیا گیا تو وہیں لڑکوں کو بھی نظریں نیچی رکھنے کا کہا گیا۔ ویسے بھی میرا ضمیر اب یہ گوارہ نہیں کرتا کہ میں کسی کو بُری نگاہ سے دیکھوں۔ آج جب میں اپنے گھر سے اپنی بہن کو لے کر نکلا تو راستے میں کچھ لڑکوں نے عجیب و غریب نگاہ سے ہمیں گھورا۔ یہ بات مجھے بہت بُری لگی اور تب مجھے احساس ہوا کہ یہی بات ان سب ماوں بہنوں کے بیٹوں اور بھائیوں کو بُری لگتی ہوگی جن کو ہم دیکھتے ہیں۔ اوروں کی بہنوں کو گھورنا بھی تو اتنا ہی تکلیف کا سبب بنتا ہوگا ان کے لیے جتنا آج میری بہن اور میرے لیے بنا ہے۔'' کاشف کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ایک ہی سانس میں بول گیا۔

کاشف کی باتوں میں دم تھا۔ آوارگی کی انتہاوں کو چھونے والے کاشف کو صرف ایک احساس نے حقیقت کی دنیا میں لاکھڑا کردیا تھا۔ ایک اچھائی کو اٹھنے والے اس قدم کو جس قدر سراہا جائے کم ہے۔ اسی لیے شاید یہ بات کہی جاتی ہے کہ آج جو کچھ ہم بوئیں گے کل کو وہیں کچھ ہمیں کاٹنا بھی پڑے گا۔ ایک اچھے معاشرے میں بسنے والے افراد کی سوچ اور افکار ایسے ہی ہونے چاہیے۔

گزشتہ کئی برسوں سے ہم جس معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں اس میں جانے انجانے میں ایسی کئی بُرائیاں نمودار ہوچکی ہیں کہ جنہیں کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دوسروں پر تنقید اور خود کو پاک دامن سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا ہم واقعی کسی اچھے معاشرے کا فرد ہونے کے اہل ہیں یا نہیں؟

کسی بھی اچھے یا بُرے معاشرے کو تشکیل دینے میں خود اس معاشرے کا اپنا کردار ادا ہوتا ہے۔ یوں تو معاشرے میں تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ خوشحالی میں مرد و زن دونوں کا ہی کردار نمایاں ہوتا ہے، لیکن معاشرے میں پھیلتی بُرائیوں اور اُن کے سدِباب کے لیے مردوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیوںکہ جہاں ایک طرف وہ بیٹا ہوتا اور وہیں دوسری طرف وہ باپ بھی ہوتا ہے، ساتھ ساتھ وہ شوہر بھی ہے اور گھر کا سربراہ اور ذمہ دار بھی۔ گھر سے لے کر سوسائٹی اور پھر قومی سطح تک تمام جگہوں پر اس کے احکامات ہی سے بناو بگاڑ کا تعلق ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت کی بانسبت قوی بنایا ہے۔ جس کی وجہ سے اس میں برداشت کا مادہ بھی اس قدر زیادہ رکھا ہے۔ یہیں وہ برداشت ہوتی ہے جو اس کے جذبات و احساسات میں بھی رکھی گئی ہے اور اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر حکمران مقرر کیا ہے اور نبی مکرم ﷺ نے ایک بہتر شخص اسے قرار دیا ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک سے پیش آتا ہو۔ لڑکپن میں اپنی نظر کا خیال رکھنا، اپنے اردگرد کے معاشرے کو اپنی سوچ اور اپنے کردار سے محفوظ رکھنا ایک سلجھے اور با کردار شخص کی خصوصیات ہوتی ہیں۔ پھر جب لڑکپن جوانی کی عمر کو پہنچے تو اس کی ہر ممکن حفاظت بھی نہ صرف اس مرد کی ترجیحی ذمہ داری میں شامل ہوتا ہے بلکہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے ماتحت بھائیوں اور دوستوں کو بھی راہ راست پر رکھنا ذمہ داریوں میں شامل ہوجاتا ہے۔ جوانی کی عمر ایک ایسی عمر ہوتی ہے جہاں پر ہونے والی چھوٹی سی غلطی کا خمیازہ صدیوں پر محیط ہوجاتا ہے۔ ایک لمحے کی کوتاہی صدیوں کی کوتاہی بن جاتی ہے۔ لہٰذا ایسی عمر میں نوجوانوں کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

بطور شوہر مرد کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے جہاں پر ہر شوہر ایک ایسی نازک ڈور سے باندھ دیا جاتا ہے جس سے دو خاندان جڑے ہوتے ہیں۔ انتہائی حساس ترین تین لفظوں (مجھے قبول ہے) کے ساتھ بندھے اس رشتے کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق بسر کرنا بہت مشکل اور کٹھن ترین مرحلہ ہوتا ہے۔ مگر ایسا نہیں کہ یہ تمام ادوار ناممکنات میں سے ہیں۔ شوہر کے بعد ایک ذمہ دارانہ دور شروع ہوتا ہے جسے باپ اور سرپرست اعلیٰ کا درجہ دیا جاتا ہے۔ باپ وہ سائبان ہوتا ہے کہ جس کے سائے تلے معصوم کلیاں پروان چڑھتی ہیں۔ بطور باپ اگر کوئی مرد اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی برتتا ہے تو اس کا نقصان نہ صرف ایک فرد، بلکہ کئی خاندان اور آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے بلکہ نسلیں در نسلیں اس چھوٹی سی ذمہ داری سے روگردانی کا خمیازہ بھگتتی ہیں۔

خواتین کی ذمہ داریاں اپنی جگہ اہم اور مہم ہیں تاہم مردوں کی ذمہ داریاں معاشرے کی اچھائی اور تعمیر میں مرکزی کردار رکھتی ہیں۔ مردوں کے لیے کوئی بھی غلطی چھوٹی نہیں سمجھنی چاہیے۔ عموما تاثر ظاہر کیا جاتا ہے کہ ایک مرد کی غلطی کو کوئی نہیں دیکھتا جبکہ اس کے لگے ہوئے داغ اور دھبے دوسری طرف پورے خاندان کو اجاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ تاثر ٹھیک اور درست ہے مگر ایسا ہرگز نہیں کہ غلطی کرنے والا بچ کر نکل لے۔ یہ دنیا مکافات عمل ہے۔ یہاں پر ہونے والی ہر غلطی کی سزا غلطی کرنے والے کو کسی نہ کسی صورت میں ملتی ضرور ہے۔ غلطی کرنے والوں کو بس اس دن کا انتظار کرنا چاہیے کہ اس کے حصے کی لکھی ہوئی سزا کب اور کس وقت اسے ملے گی۔

لڑکے سے لے کر مکمل آدمی تک ان تمام ادوار میں ایک بڑی ذمہ داری ان کے سربراہوں اور والدین کی ہے۔ جن کے زیر سایہ وہ پروان چڑھتے ہیں۔ امارت کے نشے میں دھت کچھ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچوں سے اگر چیک اینڈ بیلنس کا سلسلہ شروع کیا گیا تو ان کے بچوں کی صلاحیتیں متاثر ہونگیں۔ لہٰذا وہ ان سے کب، کیا، کیوں، کیسے اور کس لیے جیسے سوالات نہیں کرتے۔ پھر اس کے بعد کچھ ایسے واقعات رونما ہوجاتے ہیں جس کا بوجھ نہ صرف ان کے وہ بچے جنہیں وہ ذرا برابر بھی دکھ نہیں دینا چاہ رہے ہوتے وہ اٹھاتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ اس غلط قدم کا بوجھ خود ان والدین کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ ایسے نوجوانوں کو اپنی تمام تر ذمہ داریوں کو صحیح معنوں میں ادا کرنا چاہیے۔ ایک بھائی، ایک شوہر، ایک بیٹا اور ایک باپ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ جو کچھ وہ دوسروں کے لیے سوچیں اور کریں گے ایک نہ ایک دن وہی کچھ ان کے ساتھ بھی ہوگا۔ اس لیے دوسروں کی عزت اور آبرو کی حفاظت، ان کے ساتھ حسن سلوک اور اخلاقی برتاو نہ صرف ان کے لیے ہوتا ہے بلکہ آپ خود اپنے لیے کرتے ہیں۔

نوجوان اپنی جوانیوں کو ضائع کرنے سے پرہیز کریں کیوںکہ جوانی کا یہ وقت پھر کبھی نہیں ملے گا اس لیے اس میں اٹھنے والے ہر قدم کو سوچ سمجھ کر اور صحیح سمت کی طرف رکھیں ورنہ یاد رکھیے کہ ہر قدم جو اٹھ جاتا ہے وہ اٹھ جاتا ہے اس کا ازالہ کرنے کے لیے ایک اور زندگی نہیں ملے گی۔ بس ایک اچھے قدم کو خود بھی اٹھائیں اور اسی اچھے قدم کو اٹھانے کے لیے دوسروں کے ہم راہی بنا جائیں۔

[poll id="1162"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں