قصہ ایک انٹرویو کا
ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد عبدالصمدخان اچکزئی تو تقسیم ہند کے ہی خلاف تھے
محمودخان اچکزئی نے افغان اخبار افغانستان ٹائمزکو ایک عدد انٹرویوکیا دیا پورا پاکستان ان کے پیچھے پڑگیا مگر اس سے اتنا ضرور ہوا کہ قوم کے جذبہ حب الوطنی کا اندازہ ہوگیا کہ وہ عروج پر ہے اور یہ بھی پتہ چل گیا کہ اب قوم ملک کے غداروں پرگہری نظر ہی نہیں رکھتی ہے بلکہ انھیں اب بخشنے والی نہیں ہے۔ محمود خان اچکزئی کے انٹرویوکو نشانہ بنا کر ان کے خلاف نہ جانے کیا کیا باتیں کہی جا رہی ہیں ان میں کچھ تو بجا ہیں لیکن کچھ بے جا بھی ہیں کچھ لوگ تو انھیں خاندانی پاکستانی دشمن قرار دے رہے ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد عبدالصمدخان اچکزئی تو تقسیم ہند کے ہی خلاف تھے انھیں کانگریس نوازی پر بلوچی گاندھی کا خطاب بھی دیا گیا تھا، وہ باچا خان کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف تحریک چلاتے رہے تھے۔ چلو یہ درست ہے مگر جب پاکستان بن گیا تو مولانا مفتی محمود جیسے کٹرکانگریسی بھی تو خود کے پاکستانی ہونے پر فخر کرتے تھے اور اسی طرح عبدالصمدخان اچکزئی بھی خود کو پاکستانی کہلواتے تھے بھارتی نہیں تو پھر محمود خان اچکزئی کوکیونکر افغانی سمجھا جا رہا ہے اور انھیں افغانستان میں جاکر آباد ہونے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ بھئی! وہ پاکستانی ہیں انھوں نے آئین پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے وہ پاکستان کے ایک سرکردہ سیاسی رہنما ہیں، ان کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی حکومتی اتحادی ہے۔ ان کے بھائی بلوچستان کے گورنر اورکئی رشتے داراعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔
اب جہاں تک انٹرویوکا تعلق ہے وہ ایک بزرگ سیاستدان کا انٹرویو ہے۔ سیاستدانوں کی باتیں بیان اور انٹرویو حکمت سے لبریزہوتے ہیں بعض دفعہ عام لوگ ان کی پر حکمت باتوں کو سمجھ ہی نہیں پاتے اور غلط فہمی کا شکار ہو کر انھیں نہ جانے کیا کیا کہنے لگتے ہیں۔ بس بالکل ایسا ہی اچکزئی صاحب کے انٹرویو کے ساتھ ہوا ہے۔ دراصل ہمیں ان کے انٹرویوکو ایک بار پھر سے غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے انھوں نے اپنے انٹرویوکے ذریعے افغان مہاجرین کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی بھرپورکوشش کی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ مہاجرین چالیس برسوں سے پاک سرزمین پرآباد ہیں مگر وہ اس طویل عرصے تک ان سے لاتعلق رہے اوراب اچانک ان کے لیے ان کی محبت جاگ اٹھی ہے۔ انھوں نے ان کا مخلص ہمدرد بن کر انھیں اپنے صوبے بلوچستان سے نکل کر خیبر پختونخوا میں جا بسنے کی ترغیب دی ہے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ انھوں نے پاکستان کے تمام صوبوں میں آباد افغان مہاجرین کو خیبر پختونخوا میں اکٹھا ہونے کا مشورہ دیا ہے۔آخر ان کی اس ترغیب اور مشورے کے پیچھے کیا حکمت پنہاں ہے لگتا ہے وہ اپنے صوبے بلوچستان میں افغان مہاجرین کی طویل اقامت سے بیزار ہو چکے ہیں ساتھ ہی ان کی تخریب کاری سے بھی چنانچہ وہ اپنے صوبے کو جہاں ان کے بھائی گورنر ہیں کو امن کا گہوارا بنانے کے لیے ان کی وہاں سے منتقلی کے خواہاں ہیں۔ اگر افغان مہاجرین نے اچکزئی صاحب کے مشورے پر واقعی عملدرآمد کر ڈالا اور وہ پاکستان کے تمام صوبوں سے نکل کر خیبر پختونخوا میں آ بسے تو اس سے بے چارے کے پی کے میں ایک بھونچال سا آ جائے گا اس سے کے پی کے معاشی اور سماجی حالات بد سے بدترہو سکتے ہیں، وہاں امن و امان کا مسئلہ بھی دوبارہ سنگین صورت اختیارکر سکتا ہے جس سے عمران خان کی حکومت پر کاری ضرب لگے گی۔
عمران خان اس وقت ہر طرف اتراتے ہوئے یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ انھوں نے اپنے صوبے کے حالات کو یکسر بدل دیا ہے اور وہاں کی بدحالی اور بدامنی کو دورکر کے خوشحالی اور امن و سکون کا ماحول پیدا کر دیا ہے مگر تمام افغان مہاجرین کی وہاں یک مشت آمد سے حالات ایسے بگڑیں گے کہ وہاں ایک زلزلے کا سا سماں ہوگا۔ عمران خان جو اس وقت جگہ جگہ جلسے کر رہے ہیں اور میاں نواز شریف کو ہر طرف سے للکار رہے ہیں سمٹ کر اپنے صوبے میں بیٹھ جائیں گے اور ان کی نواز حکومت کے خلاف ساری احتجاجی سیاست دھری کی دھری رہ جائے گی تو اس کا سارا کا سارا فائدہ اچکزئی صاحب کے دوست میاں صاحب کو پہنچے گا جو اس وقت عمران خان کی احتجاجی سیاست سے بری طرح تنگ اور پریشان ہیں۔ دراصل یہ ہے سیاست کی وہ چال جو اچکزئی صاحب اپنے دوست کو مشکل سے نکالنے کے لیے چل رہے ہیں۔
یہ انٹرویو تو بس ایک بہانہ ہے مگر لوگ اسے سمجھ نہ سکے اور ان کے خلاف ٹوئیٹر پر اپنے جذبات کا بے دریغ اظہار کرنے لگے۔ ادھر میڈیا بھی اچکزئی صاحب کے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گیا۔ اچکزئی صاحب کی اس حکمت کو اگر کوئی پاکستانی سمجھ سکا تو وہ ہمارے سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ ہیں جنھوں نے اچکزئی کے انٹرویو کا کھلے دل سے خیرمقدم کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اچکزئی کے انٹرویو پر اعتراض کرنے سے پہلے اسے غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اچکزئی نے یہ ضرور کہا ہے کہ خیبرپختونخوا تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ رہا ہے مگر یہ نہیں کہا کہ خیبرپختونخوا افغانستان کا حصہ ہے۔
انھوں نے پشتونوں کا ریفرنڈم کرانے کے لیے ضرور مشورہ دیا ہے مگر ڈیورنڈ لائن کو ختم کرنے کے لیے نہیں کہا۔ جہاں تک کے پی کے کے تاریخی پس منظر کا تعلق ہے تو 1893ء میں جب برطانوی حکومت اور افغان صوبائی حکومت کے درمیان حد سکندری یعنی ڈیورنڈ لائن کھینچنے کا معاہدہ ہوا اس وقت نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ افغانستان انگریزوں کے زیر تسلط تھے۔مزید برآں اس معاہدے کے ذریعے افغان حکومت کو یہ تلقین کی گئی تھی کہ اس کے قبائل ڈیورنڈ لائن کے پار حملہ آور نہیں ہوں گے۔ اگرچہ اس وقت تک وہاں کے بادشاہ نے برطانوی اطاعت قبول کر لی تھی مگر قبائلی لوگ انگریزوں سے نفرت کی وجہ سے فاٹا سے لے کر پشاور تک کے علاقوں پر حملہ کرکے قتل و غارت گری کرتے رہتے تھے چنانچہ ڈیورنڈ لائن کوئی سرحدی حد بندی ہی نہیں بلکہ حد سکندری کی مانند تھی جس کا مقصد افغان علاقے سے قبائلی حملہ آوروں کی یلغار کو رکوانا تھا۔
اچکزئی صاحب نے اپنے انٹرویو میں امن و امان قائم ہونے کے بعد افغانستان اور کے پی کے میں آباد تمام پشتونوں کا ریفرنڈم کرانے کی بھی بات کی ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا افغانستان کے ساتھ۔ مرزا اسلم بیگ کہتے ہیں اس ریفرنڈم کا نتیجہ سو فیصد پاکستان کے حق میں آئے گا اور اس طرح پاکستان کی سرحدیں دریائے سندھ سے لے کر دریائے آہو تک پھیل جائیں گی۔ سب ہی جانتے ہیں پشتونوں کا افغانستان میں برا حال ہے ان کے حقوق کی حکمرانی نے کوئی خیال نہیں کیا حالانکہ افغانستان کے اقتدار پر کرزئی جیسے پشتون چھائے رہے ہیں جنھوں نے خود اپنے حالات تو سدھار لیے ہیں مگر مظلوم پشتونوں پر کبھی نظر کرم نہیں ڈالی۔
حقیقتاً پشتونوں کو افغانستان میں سوائے جنگ و جدل غربت اور کسمپرسی کے کچھ نہیں ملا۔ اگر پشتونوں کو افغانستان میں حقوق حاصل ہوتے انھیں وہاں زندگی گزارنے کے لوازمات میسر ہوتے تو وہ خود ہی واپس افغانستان چلے جاتے مگر وہ تو پاکستان کو کسی صورت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں وہ تو پاکستان کو ہی اپنا وطن سمجھتے ہیں چنانچہ جس ریفرنڈم کی بات اچکزئی صاحب نے کی ہے افغان حکومت اس کے لیے کبھی بھی تیار نہیں ہو گی کیونکہ اس طرح تو پورا افغانستان ہی پاکستان میں تبدیل ہو جائے گا اس طرح دیکھا جائے تو ان کا پورا انٹرویو حکمت سے بھرا ہوا ہے جس کے سارے نکتے پاکستان اور میاں نواز شریف کے حق میں جاتے ہیں۔ چنانچہ جہاں تک میں سمجھا ہوں کہ بات بس وہی ہے کہ ان کی افغان مہاجرین کے لیے اچانک محبت کا جاگنا اور ان کے حق میں انٹرویو دینا دراصل اپنے دوست نواز شریف کی مشکلات کوآسان کرنا اورعمران خان کی مصیبتوں کو بڑھانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔