کراچیاک شہرِبے اماں آخری حصہ
کراچی میں امن وامان کی خرابی کا دوسرا بڑا سبب ٹرانسپورٹ کا نظام ہے،جس پر ٹرانسپورٹ مافیا قابض ہے۔
ایک ایسے شہر میں جس کے متوسط طبقے میں تعلیم کی اوسط شرح 84فیصد تک پہنچ چکی ہو اور جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا سب سے زیادہ استعمال ہورہا ہو، اسے اٹھارویں صدی کے فرسودہ نظام کے تابع رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مگر کراچی میںآج بھی وہی تھانہ کلچر قائم ہے،جو ڈیڑھ سو برس قبل مستعمل تھا۔سرکاری محکموں کی کارکردگی اور ان میںکام کرنے کے ماحول کا نجی شعبے میں قائم اداروں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے ساتھ تقابل کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ایک ایسے شہر میں جہاں شہریوں کا ایک ایک منٹ قیمتی ہو، وہاں لوگوں کو چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے سرکاری دفاتر میں کئی کئی روز برباد کرنا پڑتے ہیں، رشوت اس کے علاوہ دینا پڑتی ہے۔یہ صورتحال چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں تو کسی حد تک چل جاتی ہے،مگر ایک اربن سینٹر میں مختلف نوعیت کے نفسیاتی مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔
کراچی میں امن وامان کی خرابی کا دوسرا بڑا سبب ٹرانسپورٹ کا نظام ہے،جس پر ٹرانسپورٹ مافیا قابض ہے۔ ٹرانسپورٹ مافیا شہر میں ٹرانسپورٹ نظام میں بہتری کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ1973 میں بھٹو دور حکومت میں ٹرانسپورٹ کے روٹس کو ازسر نو متعین کیا گیا، اس کے بعد سے آج تک ان روٹس کی تشکیل نو کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔بلکہ انھی روٹس میں آج تک X,Y,Zکا اضافہ کیا جارہا ہے۔
ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتنے بڑے شہر کے کسی حصے میں نہ تو کسی مقام پر ٹیکسی اور رکشا کے لیے کوئی باضابطہ اسٹینڈ موجودہے اور نہ ہی بسوں کا مناسب ٹرمینس ہے۔بسیں، ٹیکسیاں اور رکشائیں شہرکی مصروف شاہراہوں کے اطراف انتہائی بے ترتیبی کے ساتھ جابجا کھڑی ملیں گی۔ٹرانسپورٹ مافیا اور ٹریفک پولیس کی ملی بھگت سے عوام کو ایک انتہائی خستہ حال اور غیر ذمے دار پبلک ٹرانسپورٹ کا سامنا ہے،جس میں مسافروں کے ساتھ بدتمیزی روزکا معمول ہے۔یہ صورتحال بھی شہریوں میں غم وغصے کا سبب ہے ۔ماس ٹرانزٹ منصوبہ کئی بار تیار ہوکر سرد خانے کی نذر ہوچکاہے۔سرکلر اور لوکل ٹرین سروس بند ہوچکی ہے۔دنیا کے بڑے شہروں میں کام پر جانے اور واپس آنے کے لیے شہری عموماً پبلک ٹرانسپورٹ کا انتخاب کرتے ہیں ،مگر کراچی کے شہری ذاتی ٹرانسپورٹ استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
1970 کے عشرے میں صنعتوں کو قومیائے جانے کے بعد شہر میں معاشی نموکی سرگرمیاں خاصی حد تک ماند پڑگئی تھیں،لیکن ایک تجارتی مرکز ہونے کی وجہ سے پورے ملک کے مقابلے میں معاشی صورتحال خاصی بہتر ہونے کی وجہ سے ملک کے طول وعرض سے روزگار کی طلب میں آنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ لیکن دو واقعات نے کراچی کی آبادیاتی(Demographic) صورتحال کو خاصا متاثر کیا۔اول جنرل ضیاء کے دور میں افغان مہاجرین کی کراچی میں آبادکاری اور دوسرے موجودہ دور میں سوات اور وزیرستان میں ہونے والے آپریشنوں کے نتیجے میں ان علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے کراچی کی طرف نقل مکانی کی۔ یہ نئی صورتحال کراچی میں ایوب خان کے دور میں شروع ہونے والی لسانی آویزش کا تسلسل بن گئی ہے۔ خیبر پختونخواہ میں آپریشن کے نتیجے میں قبائلی علاقوں سے شدت پسند عناصر کی بڑی تعداد کراچی منتقل ہو رہی ہے،جو اس شہر میں جرائم کی شرح میں اضافے کا سبب ہیں۔ دیہی معاشرت سے سفارش پر پولیس میں بھرتی ہوکر آنے والے اہلکاروں میں میٹروپولیٹن نظام چلانے کی اہلیت نہیں ہے،اس لیے وہ جرائم پر قابو پانے میں ناکام ہے۔
1980 کے عشرے تک شہر میں موجود کچی بستیاں طبقاتی بنیادوں پر قائم تھیں،جن میں ہرقومیت اور لسانی گروہ کے غریب لوگ شامل ہوا کرتے تھے۔مگر 1980 کی دہائی کے آخری برسوں کے دوران جب شہر میں انتظامی ابتری اپنے عروج کو پہنچی،تو یہ بستیاں لسانی بنیادوں پر ترتیب پانے لگیں۔ امن وامان کی صورتحال کے خراب ہونے کی وجہ سے جرائم کی شرح میں اضافہ شروع ہوا،تو یہ بستیاں جرائم پیشہ افراد کی محفوظ پناہ گاہیں بن گئیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد انتہائی عیاری کے ساتھ اپنی بستی کے لوگوں کی لسانی بنیادوں پر ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔چونکہ 1959ء کے بعد شہر کے لیے وسیع البنیاد ماسٹر پلان تیار نہیںکیاگیا،جوماسٹر پلان بنا اس پر عمل نہیں ہوا،اس لیے یہ شہر کچی آبادیوں کے ایک بدنما جنگل میں تبدیل ہوگیا ہے،جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ان بستیوں میں نہ صحت کے مراکز ہیں اور نہ ہی بچوں کی تعلیم کا کوئی مناسب انتظام ہے۔یہ بستیاں جرائم پیشہ افراد کی محفوظ پناہ گاہیں بن چکی ہیں،جو اپنی مخصوص لسانی شناخت کی بنیاد پر ان بستیوں میں ہمدردیاں حاصل کرکے پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
اس وقت صورتحال اس قدر ابتر ہوچکی ہے کہ مختلف بستیاں صرف لسانی بنیادوں پر قائم نہیں ہیں بلکہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی تقسیم کا عمل جاری ہے۔ 10برس قبل تک تمام فرقوں کے لوگ باہم ساتھ رہاکرتے تھے،اس وقت صورتحال اس قدر ناگفتہ بہ ہوچکی ہے کہ مختلف فرقوں کے لوگ مخصوص بستیوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ حیدری مارکیٹ میں دو مرتبہ بم پھٹ چکے ہیں۔ یہ صورتحال مزید مسائل کا سبب بن رہی ہے۔
کراچی میں اس وقت مختلف مافیائوں کی غیر قانونی سرگرمیوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے طاقت کے زور پر شہر پر قبضے کے رجحان نے بھی اس شہر کو بے اماں کیا ہے۔لیاری اس ساری اندوہ ناک صورتحال میں راندۂ درگاہ بنی ہوئی ہے۔پھرمافیائوں کے کارندے سیاسی جماعتوں کی صفوں میں گھس کرشہر میں مسائل کو دوچند کرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ پولیس میٹروپولیٹن سسٹم سے عدم آگہی کی وجہ سے شہرمیں خرابی بسیار کی اور وجہ بنی ہوئی ہے۔ جو مافیائیوں کی پشت پناہی کرتی ہے، کیونکہ اوپر سے نیچے تک اسے روزانہ،ہفتہ وار اور ماہانہ بنیادوں پر بھتہ ملتا ہے۔ مختلف ترقیاتی محکمے بھی بدانتظامی کا حصہ ہیں،کیونکہ ان کے اہلکاروں اور افسران کی جدید خطوط پر نہ تربیت ہوئی ہے اور نہ ہی ان کے احتساب کا کوئی میکنزم ہے۔کراچی شہر کے اندر اور اس کے اطراف میں پھیلی سیکڑوں ایکڑ سرکاری زمینیں بھی وجہ تنازعہ بنی ہوئی ہیں۔
ہر صوبائی حکومت ان زمینوں کو سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے اور ان کی فروخت سے کمیشن کمانا چاہتی ہے۔ایک طرف بلڈر اور لینڈ مافیا ان زمینوں پر قبضے کے لیے سیاسی جماعتوں کو استعمال کررہی ہیں،تو دوسری طرف مذہبی شدت پسند عناصر کے لیے بھی یہ شہر محفوظ پناہ گاہ ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 80فیصد بینک ڈکیتیوں میں خاص کمیونٹی کے علاقے کے لوگ ملوث ہوتے ہیں۔لوٹی گئی رقم مذہبی شدت پسندی کے لیے استعمال کی جاتی ہے،جس کا اعتراف اس علاقے کے رکن قومی اسمبلی بھی ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں کرچکے ہیں۔
کراچی کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس شہر میں حکومتی پالیسیوں، امن وامان کی مخدوش صورتحال اورتوانائی کے بحران کے باعث روزگار کے ذرایع سکڑ رہے ہیں، جب کہ شہر پر آبادی کا دبائومسلسل بڑھ رہا ہے۔اس طرح نئے تنازعات کا جنم لینا فطری عمل ہے۔لہٰذامسلم لیگ(ن) سمیت بعض جماعتیں سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر کراچی میںایک بار پھرفوجی آپریشن کا مطالبہ کررہی ہیں۔اگر ایسا کیا گیا تو اس بار شہر میں ایسی آگ لگے گی جسے بجھانا پھر کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ اس لیے جو عناصر کراچی کی صورتحال کو عصبیت کی عینک لگا کردیکھ رہے ہیں، وہ اسے مزید تباہی کے دہانے پہنچانے کے درپے ہیں۔
اس صورتحال سے نمٹنے کا واحد حل یہ ہے کہ شہر کو ایک خود مختار میٹروپولیٹن سسٹم کے تحت چلانے کی کوشش کی جائے، جس میں پولیس سمیت تمام ضروری انتظامی ادارے میٹروپولیٹن حکومت کے تابع ہوں۔پولیس مقامی ہو اور اربن معاشرت کی پیچیدگیوں کے بارے میںمکمل آگہی رکھتی ہو اور اس سے نمٹنے کی صلاحیت بھی۔پولیس کو مکمل اختیارات حاصل ہوں،تاکہ وہ فوری طورپر Proactiveایکشن کے ذریعے جرائم پر قابو پانے کی کوشش کرسکے۔اس مقصد کے لیے یورپی ممالک کے علاوہ ممبئی اور کولکتہ کے ماڈل کا بھی مطالعہ کیا جائے ۔اس کے علاوہ صنعت کاری اور کاروبار کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے تاکہ روزگارکے نئے ذرایع پیدا ہوں۔اس طرح جرائم کی شرح کم کرنے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔