بھٹو سے بلاول بھٹو زرداری تک

بiنظیر بھٹو کو دو مرتبہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا،لیکن محلاتی سازشوں کے باعث دونوں مرتبہ اقتدار سے محروم کردیا گیا .


MJ Gohar November 28, 2012
[email protected]

PESHAWAR: پاکستان کی سیاست میں بھٹو خاندان کی خدمات اور قربانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کہ قومی سیاست کی تاریخ بھٹو خاندان کے تذکرے کے بغیر مکمل ہی نہیں ہو سکتی۔ بھٹو پاکستان کی سیاست کا ایک ایسا تابندہ نام ہے جسے قومی اور عالمی سطح پر بے حد عزت، احترام اور مقبولیت حاصل ہوئی۔

بھٹو شہید نے ایوبی آمریت سے نجات اور مفلوک الحال عوام کی تقدیر سنوارنے کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی کے نام سے ایک انقلابی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جس کا منشور تھا اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، بھٹو ایک طلسماتی شخصیت اور زرخیز ذہن کے مالک تھے، اسی لیے ان کا نام اور پیغام تیزی سے ملک کے کونے کونے میں پھیلتا اور پسماندہ طبقات، محنت کشوں، مزدوروں، کسانوں، طالب علموں اور عام آدمی کے دل میں اُترتا چلا گیا۔

مظلوم طبقے بھٹو کی جرأت مند قیادت میں متحد ہوتے گئے، جب کہ سامراج کے گماشتے سرمایہ دار، جاگیردار اور نوکر شاہی بھٹو کے نعرۂ مستانہ سے خوفزدہ ہونے لگے۔ بھٹو شہید نے جب سانحۂ بنگال کے بعد پاکستان کی قیادت سنبھالی تو پوری قوم سقوطِ ڈھاکہ کے غم سے نڈھال تھی اور ملک کا انتظامی و معاشی ڈھانچہ آمریت کی غلط پالیسیوں کے باعث تباہ ہو چکا تھا۔ بھٹو نے اپنی ذہانت و سخت محنت سے ایک نیا پاکستان تخلیق کیا اور عالمی سطح پر وطن کو ایک با وقار، خوددار اور ذمے دار ایٹمی ملک کے طور پر پہچان کرانے میں کامیاب ہو گئے۔

بھٹو شہید کو اپنی لاڈلی بیٹی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی صلاحیتوں، دانائی اور سیاسی بصیرت پر غیر معمولی اعتماد و بھروسہ تھا وہ کہا کرتے تھے کہ ''میں رہوں یا نہ رہوں، لیکن مجھے یقین ہے کہ میری بیٹی میرے مشن کو بہرحال پورا کرے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے بے حد صفات سے نوازا ہے، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں بلکہ بے حد تیز فہم، روشن دماغ اور ذی عقل بھی ہے اور سیاست کو سمجھنے کی مجھ سے زیادہ صلاحیت و قابلیت رکھتی ہے۔''

ایک موقعے پر بھٹو شہید نے کہا تھا کہ ''بے نظیر پاک و ہند کی تاریخ میں بے نظیر ہی بن جائے گی'' اور پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے والد کے مشن کی تکمیل میں ان کی توقعات پر کس طرح پورا اُتری اور پاک و ہند کی تاریخ میں اپنا نام امر کر گئی۔ دراصل بھٹو شہید نے اپنی بیٹی کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کا ادراک کر لیا تھا وہ بیرونی دوروں میں بے نظیر بھٹو کو ہمراہ لے جایا کرتے تھے، عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں بے نظیر بھٹو ان کے ساتھ ہوتیں، اسی طرح بے نظیر بھٹو کا نہ صرف عالمی رہنماؤں سے تعارف ہوتا رہا بلکہ ان کی سیاسی تربیت بھی ہوتی رہی اور آہستہ آہستہ وہ قومی و عالمی سیاست کے اسرار و رموز کو سمجھنے لگیں، پھر وقت نے کروٹ بدلی۔

بھٹو صاحب ضیاء آمریت کے انتقام کا نشانہ بن گئے اور محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے شہید والد کے مشن کی تکمیل کے لیے میدان سیاست میں قدم رکھا اور اپنی بے پناہ صلاحیتوں، دانشمندی، سیاسی بصیرت اور شبانہ روز محنت کے طفیل بہت جلد دنیا میں اپنا نام اور مقام پیدا کیا اور پاکستان کی پہچان بن گئیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کو دو مرتبہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا، لیکن محلاتی سازشوں کے باعث انھیں دونوں مرتبہ اقتدار سے محروم کردیا گیا، چار و ناچار انھیں جلا وطنی کا عذاب جھیلنا پڑا جب کہ ان کے شوہر آصف علی زرداری کو جیل کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ بالآخر 2007ء میں وطن واپسی کے بعد 27؍ دسمبر کو انھیں شہید کر دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو شہید کے اکلوتے صاحب زادے بلاول بھٹو زرداری اپنی کم سنی اور پے در پے پیش آنے والے حوادث کے باعث وہ سیاسی تربیت تو حاصل نہ کر سکے جو ان کی والدہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد شہید بھٹو سے حاصل کی تھی۔

تاہم بھٹو خاندان کا فرد ہونے کے ناتے وہ سیاسی اسرار و رموز سے آگاہ ضرور ہیں اور اپنے والد صدر آصف علی زرداری سے سیاسی تربیت حاصل کر رہے ہیں جو بلاول بھٹو کو بیرون وطن دوروں میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور عالمی رہنماؤں سے ان کو متعارف کرا رہے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی حالیہ ڈی ایٹ 8 ممالک کی کانفرنس کے موقعے پر بھی صدر آصف علی زرداری نے بلاول بھٹو زرداری کا مہمان رہنماؤں سے تعارف کروایا۔

بلاول بھٹو نہایت توجہ، انہماک اور ذمے داری کے ساتھ پاکستانی و عالمی سیاست کی پیچیدگیوں اور باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی شہادت کے بعد غیر متوقع طور پر انھیں پی پی پی کی چیئر مین شپ کا بھاری منصب سنبھالنا پڑا جب کہ ان کے والد صدر آصف علی زرداری پارٹی کے کو چیئر مین کی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ بلاول بھٹو کو مستقبل کے لیڈر کے طور پر تیار کر رہے ہیں۔

اگرچہ بلاول بھٹو زرداری کم عمری کے باعث اسمبلی کی رکنیت کے اہل نہ ہونے کے باعث انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے تاہم انھوں نے آیندہ الیکشن میں پارٹی کی انتخابی مہم میں سرگرم کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بلاول بھٹو نے 2004ء میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ''میں سیاست میں داخل ہو سکتا ہوں اور کسی اور ایسے شعبے میں بھی جو لوگوں کے لیے فائدہ مند ہو'' بلاول بھٹو نے ایک ویب سائٹ پر جاری ہونے والے اپنے ایک اور انٹرویو میں کہا تھا کہ ''میں فی الوقت کچھ نہیں جانتا، میں پاکستان کے لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں، سو تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کروں گا۔''

لیکن قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا، قبل اس کے کہ بلاول بھٹو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے مستقبل کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کرتے قدرت کے فیصلے اور حالات کے جبر نے انھیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی اچانک المناک شہادت کے بعد کم عمری ہی میں انھیں پی پی پی کی چیئر مین شپ کا منصب سنبھالنا پڑا۔ اپنے والد صدر آصف علی زرداری کے ہمراہ اپنی زندگی کی پہلی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے شہید بی بی کا یہ تاریخی جملہ کہا کہ ''جمہوریت ہی سب سے بہترین انتقام ہے۔''

اور اب بلاول بھٹو زرداری بھٹو خاندان کی سیاسی روایت کو آگے بڑھانے، جمہوریت کی آبیاری اور ملک کو درپیش چیلنجز اور بحرانوں کے گرداب سے نکالنے کے لیے ایک کہنہ مشق سیاستداں کی طرح عملی سیاست میں داخل ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کا اظہار انھوں نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ''پاکستان لیڈر آف ٹومارو'' کانفرنس سے خطاب میں کیا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کو انتہا پسندی و دہشت گردی کی لعنت کا سامنا ہے، انھوں نے تمام سیاسی قوتوں پر زور دیا کہ وہ ملک کے محفوظ مستقبل کے لیے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں تعاون کے لیے متحد ہو جائیں تا کہ جناح کے پاکستان کو طالبان کے خطرے سے بچایا جا سکے، کیا بلاول بھٹو زرداری اپنے عزائم و ارادوں میں کامیاب ہو سکیں گے؟ اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں