عبدالستار ایدھی کو خراجِ تحسین
ایدھی صاحب جنہوں نے رنگ، نسل، زبان، مذہب، فرقے کی تفریق کے بغیر نوعِ انسانی کی خدمت کی
ایدھی صاحب بھی ''خالقِ حقیقی''سے جا ملے۔ اس ظالم و مظلوم، جابر و مجبور، استحصالی و استحصال زدہ اور انسان دشمن معاشرے میں انسان دوستی کا سب سے اہم استعارہ تھے۔ وہ ساری زندگی اپنی انفرادی حیثیت میں ان لوگوں کی تکالیف،پریشانیوں،مجبوریوں سے نبرد آزما ہونے میں لگے رہے۔ ان کے کردار نے انسانیت کوعظمت بخشی۔ اسدخان کے یہ الفاظ ان کی شخصیت کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔
''نہ تو ایدھی صاحب نہ کسی کا خلا پُر کیا، نہ کوئی ان کا کرے گا۔ وہ ایک چلتے پھرتے عام انسان تھے جو ایک عام انسان کے لیے جیے، جس نے ہر اصلاح پسندی، ہرمفاد پرستی، ہر تشخص پرستی، ہر عزت مآبی، کے ہمہ قسم کے غیرانسانی تقدس اوراحترام کو ردکیا۔ مرتا وہی ہے جو زندہ ہوتا اور زندہ رہتا ہے۔ دکھ ان کا ہوتا ہے جو نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں۔ مجھے تو خوشی ہے کہ ایدھی زندہ بھی رہے اور موت بھی دیکھی۔''
ایدھی صاحب جنہوں نے رنگ، نسل، زبان، مذہب، فرقے کی تفریق کے بغیر نوعِ انسانی کی خدمت کی ، ان کے عمل کے کسی منفی پہلو کو سامنے نہیں لایا جا سکتا۔ ہر وہ فلسفہ، ہر وہ فکر، ہر وہ نظریہ جو ''انسان دوست'' ہونے کا واویلا کرتا ہے، اسے ''انسانیت'' کے حوالے سے ایدھی کی زندگی سے مہمیز مل سکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایدھی کی شخصیت فرد اور ریاست کے تعلق کے حوالے سے کون سے اہم پہلو سامنے لاتی ہے؟ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ایدھی کا ہر عمل پاکستانی ریاست کے ان تضادات کو نمایاں کرتا ہے، جو ریاست نے پیدا تو کر دیے مگر خود ان کی تحلیل میں یکسر ناکام ہوئی۔ جب وہ رنگ، نسل، مذہب، قوم کا فرق کیے بغیرکسی لاوارث انسان کی لاش کسی سڑک، گلی یا میدان سے اٹھاتے تو ہمیں یہ سبق ملتا کہ ریاستی نظام نے ایسے لاوارث لوگ پیدا کیے ہیں۔ جب وہ غریبوں، ناداروں مفلسوں کوکھانا کھلاتے تو ریاست کے حوالے سے یہ نکتہ ذہن میں جنم لیتا کہ ریاست ان غریبوں، ناداروں مفلسوں کی خالق ہے، مگر ان کی تکالیف دورکرنے میں ناکام ہے۔
ایدھی کا کردارآنے والی نسلوں کے لیے صرف ان کی شخصیت کی عظمت کی ہی داستان نہیں ہے، بلکہ ریاست کے ان گھناؤنے جرائم کی تاریخ بھی رقم کر گیا ہے، ایدھی کی اپنی شخصیت ریاست کے وسط میں موجود گہرے تضاد کی عکاس ہے۔ دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ زیادہ تر سیاستدان اس جملے پر بات کو ختم کر رہے ہیں کہ انھیں امید ہے کہ ایدھی کا مشن زندہ رہے گا، بلکہ وہ لوگوں کو یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ انھیں ایدھی کی انسانیت سے محبت سے کچھ سیکھنا چاہیے۔ وہ یہ سمجھنے میں بھی ناکام ہیں کہ ایدھی کی شخصیت سیاسی عمل کی نفی کا استعارہ بھی ہے، اگر ایدھی سے کسی کوکچھ سیکھنا ہے تو وہ ریاست پر براجمان ان طبقات کو جو مظلوم، مقہور، مفلس ونادار لوگوں کی تخلیق کا باعث بن رہے ہیں۔
ایدھی صاحب کی اصل طاقت، ان کا اصل پیغام محض انسانیت کی خدمت نہیں ہے، جو لوگ محض اسی پیغام پر اکتفا کر رہے ہیں وہ ایدھی کی شخصیت کو اس کی کلیت میں نہیں دیکھ رہے، نہ ہی ان کوایدھی کی شخصیت میں اپنا ہی چہرہ دکھائی دے رہا ہے۔ ریاست کی ناکامی ایدھی کی شخصیت کے وسط میں موجود ہے۔ ریاست کو ایدھی کے اندر دیکھیں، لیکن اس ریاست کو جس کی نفی ایدھی کے عمل نے کی! ایدھی نے ریاست کی دو سطحوں پر نفی کی ہے: پہلی نفی یہ کہ ریاست نے جو مفلس، غریب، معذور پیدا کیے ، ایدھی نے اپنی انفرادی حیثیت میں محض جذبہ انسانیت کے تحت ان کی بے لوث خدمت کی۔ ریاست کی دوسری نفی یہ کہ ایدھی نے اپنی انفرادی حیثیت میں ریاست بن کر دکھی انسانیت کو گلے لگایا۔ریاستی کردار کو بحال کرنے کے لیے اگر ریاست ایدھی سے کچھ سیکھنا ہے تو وہ ایدھی صاحب کے کردارکی تقلید ہے، سیاستدان یہ مشورہ عوام کو نہ دیں، بلکہ خود ایدھی کی تقلیدکریں۔
یہ درست ہے کہ سرمایہ دار طبقہ ایدھی کواپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے، محض یہ درس دے کرکہ محض ریاست ہی فرد کے مسائل کی خالق نہیں ہے بلکہ انسان اپنی انفرادی حیثیت میں نوع انسانی کی خدمت کر سکتا ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایدھی مقتدر طبقات کے ساتھی تھے یا اس سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت دینے کا باعث بن رہے تھے۔ ہمیں ایدھی سے مقتدر طبقات کا اثبات نہیں کرانا، ان کی نفی کرانی ہے۔ تاکہ ایدھی کی بحیثیت انسان عظمت لوگوں کے دلوں میں احترام آدمیت کے جذبے کو بھی قائم رکھے، ریاست کی کھلی عوام دشمن پالیسیوں کو بھی عیاں کیا جا سکے۔ مقتدر طبقات کی جانب سے انسانوں پر مسلط وہ تمام بیماریاںجن کا علاج ایدھی نے جذبہ انسانیت کے تحت کیا، ایدھی کو مقتدر طبقات سے ممیزکرتی ہیں۔
''انقلاب'' کے انتظار میں انسانیت کو رخصت نہیں کیا جا سکتا، اگر انقلاب نہیں آ رہا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ حادثے میں زخمی، انتہائی اذیت میں پڑے شخص پراس کا غصہ نکال دیا جائے، یا پھر اکڑ کر کسی گلتی سڑتی لاش کے پاس سے گزرا جائے اور اس لاش کواٹھانے والے کسی شخص کو'انقلابی' کا دشمن سمجھ لیا جائے، جو بھی ''انقلابی فلسفہ'' ایسی کسی ''انقلابی قدر''کا درس دیتا ہے، وہ اپنی سرشت میں 'انقلابی' تو ہوسکتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ انسان دشمن فلسفہ ہوگا۔ایدھی کو پہلے سے تیار شدہ کسی چوکھٹے سے گزارنا درست نہیں، پہلے سے تیار بیشتر چوکھٹے محدود اور تنگ نظری کے حامل ہوتے ہیں، ان میں سے کوئی شے خیال یا حقیقت اتنی ہی گزرتی ہے جتنی ان میں گنجائش ہوتی ہے۔
اس پھیلتے ہوئے سماج میں اپنی محدود فکر میں پھیلاؤکی گنجائش رکھنی ضروری ہے۔ ایدھی جیسی شخصیات انسانیت کے توسیع کے تصور پر قائم ہوتی ہیں، جن کا پیغام کسی 'انقلاب' کے انتظار میں بیٹھے رہ کر انسان دشمنی پر بغلیں بجانا نہیں ہوتا، بلکہ مقتدر طبقات کے ہاتھوں ہر لمحہ اذیت میں مبتلا انسانوں کو اذیت میں دیکھ کر،ان کی اذیت کو محسوس کرتے ہوئے، اس کے ازالے کی کوشش کرنا ہوتا ہے۔جو طریقہ ان کو بہتر لگتا ہے اورجو قابلِ عمل ہوتا ہے، وہ اسی کواختیار کرتے ہیں، ایدھی کی شخصیت بہت عظیم ہے۔
اتنی عظیم کہ ان کا جتنا بھی احترام کیا جائے،کم ہے۔ تاہم یہاں پر یہ متنازع مگر اہم ترین سوال پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں اب کسی اور ایدھی کی تلاش ہے جو انسانوں کے مصائب کا مداوا کرسکے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ ہرگز نہیں! کیونکہ ایک اور ایدھی کی ضرورت نظام کے بحران کو مزید عیاں کردے گی، جب کہ ضرورت اس امرکی ہے کہ ایدھی کے وہ تمام اوصاف جو ان کی عظمت کا باعث بنے وہ ریاست پہلے خود میں پیدا کرے اور بعد ازاں اپنی مثال قائم کرکے شہریوں کو اس کی تقلید کا سبق پڑھائے۔ ریاست کو انپے اندر ایک ایدھی کو زندہ کرنا ہو گا اور ''انقلابیوں'' کو اپنے اندر اس ایدھی کو پیدا کرنا ہو گا جس نے خود انسانیت کا سبق حقیقی انقلابی مفکروں سے سیکھا۔