سماجی خدمات کا خالق

سماجی خدمات پوری دنیا میں انجام دینے والے سماجی کارکن خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم موجود ہیں


Muhammad Saeed Arain July 14, 2016

ISLAMABAD: سماجی خدمات پوری دنیا میں انجام دینے والے سماجی کارکن خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم موجود ہیں اور اپنے اپنے طریقے، وسائل اور مشن کے مطابق سماجی خدمات کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں، جب کہ پاکستانی سماجی رہنما عبدالستار ایدھی دنیا بھر میں واحد سماجی رہنما تھے، وہ تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود نوع انسانیت کی خدمت کے لیے وہ سماجی خدمات انجام دے گئے جو ایک سماجی ادارے کے تحت ناممکن تھے اور یہ عبدالستار ایدھی ہی تھے جنھوں نے انسانوں کا ہی نہیں بلکہ جانوروں اور پرندوں کے دکھ درد اور مشکلات کو محسوس کیا اور ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت بلاامتیاز ہر جاندار کی خدمت کا بیڑا اٹھایا اور وہ سب کچھ کر دکھایا جس پر انھیں تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا مگر انھوں نے جس کام کا عزم کیا اس پرخلوص اور محنت سے عمل کیا اور ناممکن کو ممکن بناکر دکھادیا۔

ملک تو کیا بیرون ملک بھی بڑے بڑے سماجی ادارے موجود ہیں جو تعلیم، صحت، لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی، قیدیوں کی مدد، بیماروں کے مکمل علاج، راستوں کی سہولت فراہم کرنے، اہلیت رکھنے والے غریبوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے میں مالی مدد کے علاوہ غریبوں کو راشن اور کپڑوں کی فراہمی، اسپتالوں اور جیلوں میں لاوارثوں کی مدد کے لیے انھیں ہر ممکن وسائل فراہم کر رہے ہیں۔

عبدالستار ایدھی سماجی خدمات میں منفرد مقام کے حامل تھے اور سماجی کاموں کے خالق تھے جس پر انھیں مذہبی، سیاسی اور سماجی حلقوں کی کڑی تنقید بھی برداشت کرنا پڑی۔ وہ جو بہتر سمجھتے اس کا برملا اظہار کردیتے اور جو نیا سماجی کام شروع کرنا چاہتے اور عملی طور پر کرکے دکھا دیتے اور بعد میں ان کے مخالفین ایدھی صاحب کے منصوبے کو کامیاب دیکھ کر خاموشی اختیار کرلیتے تھے۔ ایدھی نے اپنے مخالفین کو اپنے سماجی کاموں کی راہ میں رکاوٹ نہیں سمجھا، کسی کی تنقید کا جواب نہیں دیا۔ مختلف سماجی اداروں نے بھی انھیں مالی نقصان پہنچایا مگر ایدھی صاحب نے اپنے کام سے کام رکھا۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے عطیات کی وصولی میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔

ایدھی کو ملنے والی کھالیں چھینی گئیں۔ انھیں دھمکیاں ملیں، مگر وہ اپنے مشن پر ڈٹے رہے۔ ایدھی صاحب نے دیگر اداروں کی طرح جھوٹے دعوے نہیں کیے کہ انھیں پہلے سے زیادہ کھالیں ملی ہیں۔ ان کی کھالیں چھینی گئیں تو انھوں نے برملا کہا کہ انھیں کھالیں کم ملیں۔ انھوں نے کسی پر الزام نہیں لگایا اور دستیاب وسائل میں اپنا کام جاری رکھا اور سماجی خدمات کے لیے نئے نئے ادارے قائم کیے اور انھیں کامیاب بنایا۔ ایدھی صاحب پر لوگ اندھا اعتماد کرتے تھے اور ایدھی سینٹروں پر آکر عطیات دینے والوں کی بنی ہوئی قطاریں اس بات کا واضح ثبوت تھیں جس کا اعتراف ان کے مخالفین نے بھی کیا۔

ایدھی صاحب کے سماجی اداروں پر اندھے اعتماد کی واضح مثال دیتے ہوئے ایک چشم دید گواہ نے راقم کو بتایا کہ ان کے سامنے نئی چھ عدد ہائی ایس مکمل ایمبولینسیں کسی مخیر شخص نے ایدھی سینٹر بھجوائیں اور گاڑیوں کے مکمل کاغذات بھی پیش کیے اور معلوم کرنے پر یہ گاڑیاں بھیجنے والے کا نام بتانے سے معذرت کی اور کسی رسید کے لیے بغیر یہ گاڑیاں چھوڑ کر چلے گئے۔

حکومتوں پر تو عوام کی چیخ و پکار کا بھی اثر نہیں ہوتا جب کہ ایدھی صاحب کسی المناک واقعے کی خبر سن کر ہی امداد کے لیے نکل پڑتے تھے۔ میرے آبائی شہر شکارپور کے ایک گاؤں چھتو اڈھو میں تقریباً 38 سال قبل آگ لگنے سے گوٹھ جل گیا اور اٹھارہ افراد ہلاک ہوگئے تھے، جس کی اطلاع ملتے ہی ایدھی صاحب نے ایک گاڑی میں امدادی سامان بھروایا اور ڈرائیور کو لے کر رات کو کراچی سے چل پڑے اور اگلے روز ڈپٹی کمشنر شکارپور کے دفتر کے باہر پہنچ کر درخت کے سائے میں زمین پر بیٹھ گئے اور ڈپٹی کمشنر ایاز حسین انصاری کو پیغام بھجوایا کہ کوئی شخص ان کے ساتھ متاثرہ گاؤں بھیج دیا جائے، ڈپٹی کمشنر خود باہر آئے اور ایدھی صاحب سے درخواست کی کہ آپ سفر کے تھکے ہوئے ہیں کچھ آرام کر لیں مگر ایدھی صاحب نے معذرت کی کہ مجھے یہ سامان ضرورت مندوں کو دے کر واپس کراچی جانا ہے، مجھے جلدی متاثرین کے پاس بھجوا دیں۔

انھوں نے ڈپٹی کمشنر کی چائے پینے کی درخواست قبول نہیں کی اور کہا کہ اتنی دیر میں تو میں متاثرین کے پاس پہنچ جاؤں گا۔ ڈپٹی کمشنر خود ایدھی صاحب کے ساتھ متاثرہ گاؤں آئے جہاں ایدھی صاحب نے متاثرین میں سامان تقسیم کیا، جانی نقصان پر تعزیت کی اور فارغ ہوکر آرام کیے بغیر واپس کراچی لوٹ گئے تھے۔ جو شخص اپنی شادی کی رات اپنی نئی دلہن کو چھوڑ کر کسی حادثے کے مقام پر پہنچ جائے اور متاثرین کی مدد میں لہولہان کپڑوں میں رات گئے گھر واپس آئے اس جیسا مخلص شخص عبدالستار ایدھی تھا جس کی خدمات کی دنیا میں مثال نہیں ملتی اور نہ ہی موجودہ دور میں مل سکے گی۔

ایدھی سینٹروں کے باہر جھولے نصب کیے گئے تھے جہاں تحریر تھا کہ لوگ نوزائیدہ بچوں کو قتل نہ کریں اور کچھ بتائے بغیر نصب جھولے میں ڈال جائیں۔ ان جھولوں میں نوزائیدہ بچے ڈالے جانے پر بعض حلقوں نے سخت اعتراضات کیے اور ایدھی صاحب کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے ناجائز بچوں کی پیدائش کے ذمے داروں کی حوصلہ افزائی قرار دیا جب کہ اس سلسلے میں ایدھی صاحب کا موقف تھا کہ ایسے نوزائیدہ بچوں کو مار کر کچرے کے ڈھیروں اور کچرا کنڈیوں میں پھینک دیا جاتا ہے جن کی معصوم لاشوں کو کتے اور بلیاں کھا جاتے ہیں جو کسی بھی طرح مناسب نہیں کیونکہ ایسے بچے بے قصور ہوتے ہیں انھیں پیدا کرنے والوں کے گناہ کی سزا انھیں نہیں ملنی چاہیے۔

ایدھی صاحب نے اپنے ادارے کے متعلقہ شعبوں میں نوزائیدہ اور لاوارث بچوں کی پرورش کی اور بعد میں بے اولاد والدین کی درخواست پر کاغذی کارروائی مکمل کروا کر مذکورہ بچے بے اولاد لوگوں کو دے کر ان کے اولاد نہ ہونے کے ارمان کو پورا کیا اور یہ سلسلہ اب تک کامیابی سے جاری ہے۔ایدھی فاؤنڈیشن کے متعلقہ اداروں میں کسی امتیاز کے بغیر بدنصیب بزرگوں، لاوارث خواتین اور بچوں ہی کو پناہ نہیں ملی بلکہ بیمار جانوروں اور زخمی پرندوں کے علاج کا بھی بندوبست تھا۔

ایدھی صاحب کے سماجی کاموں کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں لوگ اپنوں سے بیزار ہو کر انھیں ایدھی صاحب کے حوالے کر جاتے تھے اور جن کی لاشوں کو ورثا لاوارث قرار دے کر ایدھی سینٹروں میں چھوڑ جاتے تھے ان بدبودار لاشوں کو عبدالستار ایدھی ہی سنبھالا کرتے تھے۔ایدھی صاحب نے سات عشروں سے زیادہ نوع انسانیت کی خدمت کی۔ سب کچھ ہوتے ہوئے انتہائی سادگی سے درویشی کی زندگی بسر کی اور اپنے آخری دنوں میں گردوں کی صفائی کی اذیت سالوں برداشت کی اور فارغ ہوکر بستر پر جانے کی بجائے ایدھی ہوم آکر کاموں کی خود نگرانی جاری رکھی اور سماجی خدمات کا یہ خالق آخر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں