ضرورت مندوں کا ہیرو ایدھی کو عالمی سطح پرخراج عقیدت ان سے وابستہ کچھ یادیں اورباتیں

وہ کہتے تھے کہ کبھی بھی کسی کی موت کا صدمہ دل پر نہ لیں، یہ یاد رکھیں کہ خدا کے نزدیک سب برابر ہیں۔


Rizwan Tahir Mubeen July 17, 2016
وہ کہتے تھے کہ کبھی بھی کسی کی موت کا صدمہ دل پر نہ لیں، یہ یاد رکھیں کہ خدا کے نزدیک سب برابر ہیں۔فوٹو : فائل

خلق خدا کی بلا تفریق خدمت کرنے والا درویش، عبدالستار ایدھی، جب 2008ء میں امریکا پہنچا، تو اپنے حلیے کے سبب ایئرپورٹ ہی پر مشکوک قرار پایا۔۔۔ اور دنیا کی سب سے بڑی نجی ایمبولینس سروس رکھنے والے انسانیت کے اس خدمت گزار کو آٹھ گھنٹے تک سخت پوچھ گچھ کے عمل سے گزرنا پڑا۔ تفتیش کاروں کو ایدھی کی وضع قطع اور انسانیت کی بے لوث خدمت کے سبمندھ نے ضرور کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہوگا اور انہیں فقط حلیے کے سبب اپنی اس زیادتی پر پشیمانی ضرور ہوئی ہوگی کہ وہ جس حلیے کو دوسروں کی جانیں لینے والا سمجھ رہے ہیں، وہ دوسروں کی جانیں بچانے والا ایک بہت عظیم انسان ہے۔

عبدالستار ایدھی نے شاید جس قدر انسانوں کی خدمت کی، اتنی ہی پریشانیاں اور مشکلات بھی جھیلیں۔۔۔ لوگوں کا درد شروع سے ہی ان کے دل میں بس گیا تھا۔۔۔ ابتداً میمن برادری کے فلاحی کاموں میں جت گئے، لیکن جلد ہی صرف برادری کے لیے خدمت کو انہوں نے محدود جانا اور خدمت کے کام کو کسی بھی رنگ ونسل اور مذہبی عقیدے سے کچھ اس طرح ماورا کیا کہ مخالفین اور دشمنوں نے ہی ان کے آہنی عزم کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔۔۔ مسائل اور رکاوٹوں کا سلسلہ شروع ہوا تو وسائل کی کمی سے لے کر ان کی جان ومال کے تحفظ کے مسائل تک جا پہنچا۔۔۔ پیشہ وَر لٹیروں اور بدمعاشوں نے تنگ کیا، تو اوپر والوں نے بھی خوب ڈرایا۔۔۔ کچھ نے ان کی نیک نامی کو اپنے فائدوں کے لیے استعمال کرنا چاہا، لیکن انہیں کام یابی نہ ہوئی، یہاں تک کہ کچھ عرصے کے لیے ملک چھوڑنا پڑا، پھر حکام کی یقین دہانیوں پر وطن واپس ہوئے، مگر کبھی کوئی محافظ ساتھ نہ ہوا۔

اِدھر دھمکیوں کا سلسلہ ایسا تھا کہ ان کی پیرانہ سالی کے باوجود بھی نہ تھما۔۔۔ اکتوبر 2014ء میں انہیں ایک ڈکیتی کا بھی سامنا کرنا پڑا اور آٹھ مسلح ڈاکو عبدالستار ایدھی کو عملے سمیت یرغمال بنا کر پانچ کلو سونا اور بھاری نقدی لوٹ کر لے گئے۔ اس واقعے نے ایدھی کو شدید غم زدہ کر دیا، انہوں نے کہا کہ ''میرا دل ٹوٹ چکا ہے، اتنا کچھ کرنے کے بعد میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میرے ساتھ میرے اپنے گھر میں ایسا ہوگا۔''

جس سماج کے وہ بے سہارا انسانوں کو سائباں دیتے اور لاوارث لاشوں کو کفنا رہے تھے، اسی سماج میں آخر تک ان کے بہی خواہ ان کی جان کے تحفظ کے لیے فکر مند رہے، کہ یہاں خدمت گزاروں کو اچھے صلے ذرا کم ہی ملا کرتے ہیں۔۔۔ دشنام طرازیاں تو ایک طرف بہت سوں کو بے دردی سے موت کی وادی میں دھکیل دیا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود وہ ماضی کے اس عروس البلاد شہر کے کٹھن سے کٹھن زمانے میں بھی سرگرم رہے۔ ایسا لگتا تھا کہ امن دشمنوں نے جوں ہی اس شہر میں ڈیرے جمائے، قدرت نے ایدھی کی صورت میں اس شہر کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھنے کا انتظام کر دیا۔ بدترین سیاسی و لسانی کشیدگی ہو، علاقے میں جنگی کیفیت طاری ہو، ایدھی کی ایمبولینسیں لوگوں کی امداد کے لیے جا پہنچتیں۔

شہر کی بدترین بے امنی میں بھی وہ انسانیت اور فقط انسانیت کے دیپ جلائے، ہر انسان کے لیے تڑپتے رہے، یہی وجہ ہے کہ الزام لگانے والے بھی ان پر کسی رنگ و نسل یا کسی عقیدے کے لوگوں سے تفریق کا الزام نہیں لگا سکے۔ تب ہی تو ان کی موت پر نیویارک ٹائمز نے انہیں مدر ٹریسا سے تشبیہ دیتے ہوئے پاکستان کا 'فادر ٹریسا' قرار دیا، لیکن مدر ٹریسا کے ہاں تو خدمت کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کی تبلیغ کا سلسلہ بھی تھا، جب کہ عبدالستار ایدھی کی خدمت، دراصل خدمت برائے خدمت تھی۔ اس اعتبار سے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انہیں مدر ٹریسا پر واضح برتری حاصل ہے۔

عبدالستار ایدھی کے سانحۂ ارتحال پر 'دی گارجین' نے انہیں رحمت کا فرشتہ قرار دیا، تو 'واشنگٹن پوسٹ' نے انہیں ضرورت مند افراد کے ہیرو کا خطاب دیا۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز (Reuters) نے بھی انہیں مدر ٹریسا سے تشبیہ دی اور لکھا کہ لوگ انہیں زندہ ولی قرار دیتے تھے۔

ایدھی کی موت کے بعد ریاستی سطح پر تو سوگ منایا ہی گیا، ساتھ ہی دنیا بھر میں انسانیت کا درد رکھنے والے ہر فرد نے قلبی رنج اور افسوس کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے انہیں یوں خراج عقیدت پیش کیا ''ایدھی سماجی انصاف، ایثار وہم دردی کی زندہ مثال تھے۔ اپنی انسانیت سے انہوں نے ہزاروں زندگیوں میں مثبت تبدیلی پیدا کی۔''

بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے ان ایدھی کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں ایک عظیم انسان قرار دیا۔ بھارتی ریاست راجستھان کے وزیراعلیٰ روسندھرا راجے نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ ''عبدالستار ایدھی صاحب کے انتقال پر مجھے گہرا صدمہ پہنچا ہے، وہ ایک ایسے آدمی تھے، جنہوں نے اپنی زندگی کو انسانیت کے لیے وقف کر دیا تھا، لاکھوں لوگوں کو ان سے ترغیب حاصل کرنی چاہیے۔''

لندن کے میئر صادق خان نے کہا کہ ایدھی کی زندگی ہم سب کے لیے قابل تقلید ہے۔ ڈنمارک کے محکمہ خارجہ کے ڈائریکٹر Jesper M. Sorensen نے 'ٹوئٹر' پر اپنے پیغام میں انہیں ایک قابل تقلید مثال قرار دیا اور اپنے ایدھی ہوم کے دورے کو ایک انوکھا تجربہ قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے غریبوں کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔

بولی وڈ کی مایہ ناز اداکارہ شبانہ اعظمی نے کہا کہ عبدالستار ایدھی ایک غیرمعمولی انسان تھے، جن کے کارناموں نے کئی زندگیوں کو تبدیل کر دیا اور وہ واقعی تمام انسانوں میں حقیقی ہیرو تھے۔ ایدھی کے لیے اداکار انوپم کھیر کا خراج عقیدت کچھ ان الفاظ میں تھا کہ وہ عالمی سطح پر ایثار و قربانی کی اہم مثال تھے، انسانیت انہیں ہمیشہ یاد کرے گی۔

فلم ساز مہیش بھٹ کا اپنی 'ٹوئٹ' میں کہنا تھا کہ ایدھی صاحب کی غیرمعمولی زندگی نئی نسلوں کے لیے ہمیشہ ہی مشعل راہ بنی رہے گی۔ گلوکار عدنان سمیع نے عبدالستار ایدھی کو ولی صفت فقیر اور بے سہارا اور یتیموں کے باپ کے نام سے یاد کیا۔

ایدھی نے گذشتہ برس اکتوبر میں جب حادثاتی طور پر سرحد پار کرنے والی گویائی سے محروم بھارتی بچی گیتا کو 13 سال بعد واپس بھیجا، تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ الفاظ میں ایدھی خاندان کا شکریہ ادا نہیں کیا جا سکتا۔ ساتھ ہی انہوں نے ایدھی فاؤنڈیشن کو ایک کروڑ روپے امداد کی پیش کش بھی کی، لیکن ایدھی نے یہ پیسے وصول کرنے سے معذرت کرلی اور کہا کہ وہ اصول کی بنیاد پر کسی بھی حکومت کی امداد کو وصول کرنے سے قاصر ہیں۔ فیصل ایدھی کے بقول اس سے پہلے بھی جاپانی حکومت نے ہمیں 100 ایمبولینسیں بھیجی تھیں، لیکن وہ ہم نے قبول نہیں کی تھیں اور وہ حکومت پنجاب کے استعمال میں آگئی تھیں۔

جون 2013ء میں عبدالستار ایدھی کے دونوں گردے خراب ہو گئے تھے، جس کے بعد انہیں ہر ہفتے ڈائیلاسز سے گزرنا پڑتا تھا، علالت کے باوجود انہوں نے ہر ممکن امدادی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ کراچی کے باسیوں نے انہیں دسیوں بار ایمبولینس اور پہیا کرسی پر اپنے امور انجام دیتے ہوئے دیکھا۔۔۔ پھر جب وہ صاحب فراش ہوئے تو ہر فرد کے لب پر ان کی صحت یابی کی دعا تھی۔۔۔ لیکن اجل کو کچھ اور ہی منظور تھا، 8 جولائی کی شب لوگوں کی زندگیاں آسان بنانے والا یہ مسیحا راہیٔ ملک عدم ہوگیا۔

٭ ''میری ایمبولینس آپ سے زیادہ مسلمان ہے''

عبدالستار ایدھی کہنے کو رسمی تعلیم سے زیادہ نہیں گزرے، لیکن ان کی تربیت اور جدوجہد نے انہیں بڑائی کے اُس مرتبے پر فائز کر دیا کہ جس پر بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی خواہش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کی باتوں سے دانش کے موتی سمیٹتے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا مذہب انسانیت ہے، جو دنیا کے ہر مذہب کی بنیاد ہے۔

وہ یہ اعتراف کرتے ہوئے جھجھکتے نہیں تھے کہ ان کے پاس کوئی رسمی تعلیم نہیں، لیکن انہیں شاید آج کل کی تعلیم سے شکایت بھی تھی کہ ایسی تعلیم کس کام کی، جو انسان کو انسان نہ بنا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انسانیت کی فلاح کو اپنا اسکول قرار دیتے تھے۔

وہ کہتے تھے کہ کبھی بھی کسی کی موت کا صدمہ دل پر نہ لیں، یہ یاد رکھیں کہ خدا کے نزدیک سب برابر ہیں۔ اس کے نزدیک دنیا کے کسی امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں۔ کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ وہ اپنی ایمبولینسوں میں عیسائیوں اور ہندوؤں کو کیوں لے کر جاتے ہیں، تو وہ انہیں جواب دیتے کہ میں انہیں اس لیے لے کر جاتا ہوں کیوں کہ میری ایمبولینس آپ سے زیادہ مسلمان ہے۔ ایدھی کا ماننا تھا کہ خالی خولی الفاظ اور تعریفوں سے خدا کو متاثر نہیں کیا جا سکتا، اپنے رب کے حضور عملی کام پیش کرنے ہوتے ہیں۔ وہ نصیحت کرتے کہ ''اپنے خوابوں کو تکمیل تک پہنچانے سے پہلے اپنے اندر اس کے لیے اضطراب پیدا کریں۔ نفس کی برائی پر قابو پانا ہی سب سے بڑا انقلاب ہے۔ مقدس کتابوں کو اپنی روح کے سامنے کھولنا چاہیے۔ اپنے دل کی آنکھ کھولیے اور دیکھیے کہ خدا کیا کہہ رہا ہے۔ ہمیں اپنی نمود سے زیادہ سچائی اور عاجزی کو پروان چڑھانے پر توجہ دینا چاہیے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں