فعال خارجہ پالیسی کی ضرورت
بدقسمتی یہ ہے کہ 1980ء کی دہائی میں امریکا نے ہمارے جوہری پروگرام کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا
بھارت نے سرد جنگ کے 40 سالہ دور میں غیر وابستہ تحریک (نام) کے ساتھ اپنی گہری وابستگی جاری رکھی جو کہ واضح طور پر امریکا دشمنی کی غماز تھی اور بھارت کا روس کی طرف جھکاؤ بہت نمایاں تھا جس کے تمام تر ثبوت اور شواہد باقاعدہ طور پر موجود ہیں۔ پاکستان کی امریکا کے ساتھ وابستگی تھی اور بھارت ''نام'' کے پلیٹ فارم سے پوری تیسری دنیا میں ہمارا تمسخر اڑاتا تھا اور ہمیں امریکا کی چمچہ گیری کا طعنہ دیتا تھا۔ تاہم آج بھارت دونوں فریقوں سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے جب کہ پاکستان امریکا کے ساتھ اپنی وفاداری کی وجہ سے ہر دو طرف سے نقصان اٹھا رہا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ 1980ء کی دہائی میں امریکا نے ہمارے جوہری پروگرام کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا کیونکہ اسے سوویت یونین کے خلاف جنگ میں ہماری مدد درکار تھی۔ لیکن 1989ء میں جب سوویت یونین انہدام کا شکار ہو گیا تو 1990ء میں امریکا نے پاکستان پر پریسلر ترمیم کے تحت پابندیاں عائد کر دیں۔ البتہ 2001ء میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کو پھر پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس کو ''نان ننیٹو اتحادی'' کا درجہ دیدیا گیا۔ حال ہی میں پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں منعقد ہونے والی نیٹو سربراہ کانفرنس میں افغانستان کو باقاعدہ طور پر شرکت کی دعوت دی گئی تھی جب کہ ہم افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے پاکستان پر عائد کیے جانے والے الزامات کی بازگشت ہی باہر بیٹھے سن سکتے تھے۔
افغان فوجیں اب تک طالبان پر قابو پانے میں جن دو وجوہات کی بنا پر ناکام رہی ہیں ان میں پہلی وجہ تو افغان فوج سے 35000 فوجیوں کا ہر سال بھگوڑا ہو جانا ہے اور دوسری وجہ حد سے زیادہ کرپشن ہے جس میں امریکا کو افغان آرمی کی تربیت اور اسے مسلح کرنے کے لیے ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ کا خرچہ کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کو ان کی ناکامی کا الزام ہرگز نہیں دیا جا سکتا۔ افغانستان سے امریکی فوجیں نکالنے کا فیصلہ صدر اوباما نے ملتوی کر دیا کیونکہ وہاں پر صورت حال بہت بگڑ رہی تھی۔ امریکا نے افغانستان میں افغان سیکیورٹی کی تربیت کے لیے 8400 افسر متعین کیے ہیں جن میں 1700 لڑاکا فوجی ہیں جو افغان فورسز کی عملاً مدد کریں گے۔
افغانستان الزام لگاتا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائی نہیں کر رہا جب کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی پاکستان میں گرفتاری کی وجہ سے امریکا نے پاکستان کو ایف16 لڑاکا طیارے معاہدے کے مطابق فراہم کرنے سے انکار کر دیا جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہو گئے ہیں۔ امریکی ڈرون حملے سے پاکستانی سرزمین پر ملا منصور کو نشانہ بنایا جو کہ ایران سے افغانستان کے راستے نوشکی میں داخل ہو رہا تھا۔ اس کے نتیجے میں افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات ناکام ہو گئے پاکستان پر اعتماد کی اسقدر کمی کے باوجود وہ توقع کر رہے ہیں کہ پاکستان نئے طالبان سربراہ کو کسی نہ کسی طور مذاکرات کی میز پر لا بٹھائے۔ بدقسمتی سے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں 800 ملین ڈالر کی جو رقم ملنی تھی اس کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی اور ڈاکٹر آفریدی کی رہائی سے مشروط کر دیا گیا۔
اس حوالے سے گزشتہ منگل کے دن امریکی کانگریس کا ایک پینل اجلاس ہوا تاکہ پاکستان سے یہ توہین آمیز سوال پوچھا جائے کہ ''تم دوست ہو یا دشمن؟'' ہماری لاتعداد قربانیاں اور سال ہا سال سے امریکا کے لیے ہر خدمت کی بجا آوری کو کوئی وقعت ہی نہیں دی گئی۔ افغانی نژاد زلمے خلیل زاد پاکستان کو شمالی کوریا کی طرح تنہائی کا شکار بنانے پر زور دے رہا ہے۔ آخر کانگریس کا پینل پاکستان کو ہر قسم کی امداد بند کرنے کی تحریک کو کس طرح روک سکتا ہے۔ امریکا کا ایک سفیر جو ٹیکس چوری کے الزام میں 2014ء میں جیل جانے بمشکل بچا تھا اس نے بش کے دوراقتدار میں عراق اور افغانستان کے لیے بے بنیاد دعوے اور وعدے کیے تھے۔
اگرچہ بھارت نے امریکا کے پالیسی ساز حلقوں میں کسی نہ کسی طور رسائی حاصل کر کے پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی اپنی سی ہر کوشش کر دیکھی ہے لیکن امریکا کے لیے پاکستان کی تزویراتی اہمیت اسقدر زیادہ ہے کہ بھارت کی کوئی چال کامیاب نہیں ہو سکی۔ امریکی کانگریس کا ایک وفد چیئرمین سینیٹ آرمڈ فورسز کمیٹی جان مکین کی سربراہی میں حال ہی میں پاکستان آیا تھا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جب امریکی وفد نے دیکھا کہ شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا گیا ہے تو امریکیوں نے پاک فوج کی بہت تعریف کی۔ البتہ اس وزٹ سے پاک امریکا تعلقات کی کشیدگی ختم نہیں ہوئی لیکن حقیقت کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کو امریکا پر انحصار کرنے کی پالیسی کو کم کرنا چاہیے۔
چین کی گوادر میں تجارتی موجودگی اور سی پیک کی تزویراتی اہمیت کو بھارت بحرہند کے علاقے میں امریکی مفادات کے لیے فوجی خطرے کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ پاکستان کا محل وقوع جہاں اس کے لیے بے شمار مواقع کا حامل ہے وہاں دنیا کے بڑے کھلاڑیوں کی اس طرف نظروں کے باعث مشکل پوزیشن میں بھی ہے جو جنوبی ایشیا کے خطے میں توازن قائم رکھنے کے لیے اسے روایتی اور جوہری ہتھیاروں سے یکسر پاک رکھنا چاہتا ہے۔پاکستان کو امریکا میں اپنی لابی مضبوط اور فعال کرنے کی بھی ضرورت ہے لیکن پاکستان کے پاس کل وقتی وزیر خارجہ ہی نہیں ہے۔ ہماری طالبان کے خلاف شمالی وزیرستان میں انتہائی شاندار فوجی کامیابیاں جن کے نتیجے میں افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کی بنیادیں ہل گئی ہیں اس کی ستائش تو کجا الٹا پاکستان سے 'ڈومور' کا مسلسل مطالبہ جاری ہے۔ افغانستان ملا فضل اللہ کے وحشی دہشت گردوں کی کھلی امداد اور حمایت کر رہا ہے جو کہ سرحد پار کر کے پاکستانی علاقے میں کارروائیاں کرتے ہیں۔
امریکا نے حالیہ ڈرون حملے میں اے پی ایس پر دہشت گردی کرنے کے ماسٹر مائنڈ عمر نارے کو افغانستان کے اندر ہلاک کر دیا ہے جو قابل ستائش ہے۔ آخر ملا فضل اللہ کو کیوں نہیں ہلاک کیا جا رہا؟ طورخم پر گیٹ لگانے کا فیصلہ تاکہ افغانستان سے آنے والے ناپسندیدہ عناصر کو روکا جا سکے جب کہ محمود خان اچکزئی نے اپنے بیان سے اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ جو خیرسگالی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہ رائیگاں گئی ہے کیونکہ اس وقت افغان صدر اس کٹھ پتلی کی مانند ہیں جس کی ڈور بھارت کے ہاتھ میں ہے۔ افغانستان ہمارے ساتھ جو ناروا سلوک کر رہا ہے اس کے پیش نظر ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ انھیں ہماری ضرورت ہے۔ اگر افغانستان نے اپنی تجارت چاہ بہار منتقل کر دی تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ افغان پناہ گزین اپنے ملک میں واپس چلے جائیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف جو تحریک جاری ہے پاکستان کو یہ معاملہ عالمی فورم پر اٹھانا چاہیے آخر کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمان اس حوالے سے کس کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟ اگر حکومت انھیں خوش رکھنا چاہتی ہے تو اس کے اور بھی ذریعے ہو سکتے ہیں نہ کہ کشمیریوں کے خون کی قیمت پر۔ ایک فعال خارجہ پالیی کی تشکیل کے لیے آخر اس سیاسی لیڈر شپ سے کیا توقع کی جا سکتی ہے جو اپنا زیادہ وقت لندن دبئی یا عمرہ کرتے گزارتی ہیں؟