آؤ ہم سب ایدھی بن جائیں
اس حقیقت سے ساری دنیا باخبر ہے کہ عبدالستار ایدھی ایک باعمل انسان تھے
KARACHI:
لوگ ایک ہجوم کی صورت میں اپنی ناکوں پر رومال یا کوئی کپڑا رکھے ایک گلی کے نکڑ پرکھڑے تھے اور اس گلی کے ایک بندگھر سے بدبو کے بھبکے آرہے تھے اور تعفن ہواؤں میں دور دور پھیلتا جا رہا تھا۔ اس دوران ایدھی کی ایمبولینس شور مچاتی ہوئی گلی میں داخل ہوئی، جہاں لوگوں کو سانس لینا دوبھر ہو رہا تھا وہاں ایک نحیف ونزار عبدالستار ایدھی فوراً تعفن والے گھرکے دروازے پر گیا اور پھر ایمبولینس میں لاش رکھ کر چشم زدن میں آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ ایدھی کے جانے کے بعد سارے ہجوم کی سانسوں میں سانس آیا اورگلی کے لوگوں نے بھی سکون کا سانس لیا اور ایدھی کے لیے یہ کوئی پہلا واقعہ نہ تھا۔ آئے دن ایسے واقعات جنم لیتے تھے اور ایدھی انسانیت کی خدمت میں برسر پیکار رہتے تھے۔
ایدھی کے لیے یہ بات بھی نئی نہیں تھی کہ لوگ اپنی ناجائز اولاد کو ایدھی سینٹر کے باہر لگے جھولوں میں ڈال کرچلے جاتے تھے اور پھر ایدھی بابا ان کم سنوں کو جنھیں معاشرہ ناجائز اولاد کہتا تھا ان شیر خوار بچوں کی پرورش کرتے تھے اور پھر ان بچوں کو باپ کی جگہ اپنا نام دیتے تھے۔ اکثروبیشتر جھوٹی محبت کے جھانسوں میں آنے والی نادان لڑکیاں گھر سے بھاگ جاتی تھیں پھر بدنامی کے خوف سے بجائے اپنے ماں باپ کے گھرجانے کے ایدھی سینٹر میں پناہ پاتی تھیں اور عبدالستار ایدھی ان نادان، معصوم اور مظلوم لڑکیوں اور عورتوں کے سروں پر عزت کی چادر اوڑھا دیتے تھے اور انھیں معاشرے کے بے رحم ہاتھوں سے بچانے میں پیش پیش ہوتے تھے۔
یتیموں اور بیواؤں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ رکھتے تھے اور حقوق العباد سے محروم افراد کو زندہ رہنے کی تمام سہولتیں بہم پہنچاتے تھے اور ایدھی بابا حقوق العباد کو محسوس کرتے ہوئے نبی کریمؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے انسانیت کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ میں نے اپنی نوعمری سے لے کر جوانی تک داتا صاحبؒ، بہاؤالدین ذکریاؒ،بابا فرید شکر گنجؒ، شہباز قلندرؒ، حضرت نظام الدین اولیا ؓؒ، حضرت غوث پاک جیلانیؒ اور اجمیر شریف کے خواجہ غریب نوازؒ کے واقعات اپنے بزرگوں سے سنے تھے اور بعض کے بارے میں کتابوں میں پڑھا تھا کہ ان بزرگوں نے اپنی ساری زندگی، حقوق العباد ادا کرتے اور انسانیت کی خدمت میں گزار دی تھی مگر میں نے اپنی آنکھوں سے اگر غریبوں کا ہمدرد، مسکینوں اور مظلوموں کا کوئی ساتھی آج کے دور میں دیکھا تھا تو وہ عبدالستار ایدھی تھے۔
وہ سچائی کا درس نہیں دیتے تھے بلکہ وہ سچائی کا پیکر بن کر قدم قدم پر عملی طور پر انسانیت کی خدمت کرتے تھے۔ ان کی سادہ زندگی میں اولیائے کرام کی زندگی کا عکس جھلکتا تھا۔ ان کے بدن سے نبی آخر الزماںؐ کی سنت کی خوشبو محسوس ہوتی تھی اور یہی ایک سچے اور اچھے انسان کی نشانی ہے کہ وہ اپنی عملی زندگی میں اپنے نبیؐ کا پیروکار بنے، اب وہی نحیف و نزار ایدھی بابا۔ وہ درویش صفت انسان وہ اربوں روپے کا مالک ہوکر روزانہ روکھی سوکھی کھاکر اپنے رب کا شکر ادا کرنے والا اور خدا کی اس دنیا میں بے سہارا بندوں کا سہارا بن جانے والا انسان عبدالستار ایدھی اس فانی دنیا سے کوچ کرگیا ہے۔ اس بے رحم معاشرے سے رخصت ہوگیا ہے۔
آج رخصت ہوا ایدھی تو یہ احساس ہوا
خدمت خلق کا مضبوط قلعہ ٹوٹ گیا
ڈھونڈ کے لاتا تھا بے گوروکفن لاشوں کو
جو سہارا تھا غریبوں کا وہ اب روٹھ گیا
پاکستان بننے کے بعد بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح کا نعم البدل اس قوم کو بابائے قوم کی صورت میں عبدالستار ایدھی مل گیا تھا۔ جس نے اس قوم کے ان گنت غریبوں کو روٹی،کچلے ہوئے اور مسلے ہوئے بے شمار پھولوں کو پھر سے شگفتگی دی تھی۔ تازگی دی تھی زندگی دی تھی، آج کے مفاد پرست، خود پرست اور انا پرست حکمرانوں کے دور میں عبدالستارایدھی ایک روشن چراغ بن کر ہر پل ہواؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رکھتا تھا وہ اس ملک میں مظلوموں کا حقیقی سرمایا تھا۔
ایک باعمل آئے اورمثال بن جائے
سو چراغ جلتے ہیں اک چراغ جلنے سے
اس حقیقت سے ساری دنیا باخبر ہے کہ عبدالستار ایدھی ایک باعمل انسان تھے جو زندگی بھر ایک مثال بن کر جیے ان کے خلاف خود غرض لوگوں، مفاد پرست عناصر نے بارہا سازشیں کیں ان کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈوں کی مہم بھی چلائی، ایدھی صاحب نے کبھی جھوٹے پروپیگنڈے کی پرواہ نہیں کی اور اپنے اللہ پہ توکل کرکے شب وروز انسانیت کی خدمت کرتے رہے۔اربوں روپوں کی فنڈنگ جس کے نام پر ہوتی تھی اور ہمیشہ کھدرکے لباس میں ہی نظر آتا تھا۔ اپنے کاموں میں اس طرح مگن رہتا تھا کہ کبھی کبھی تو دووقت کی روٹی بھی وقت پر نہیں کھاتا تھا۔
میری بھی عبدالستار ایدھی سے کئی ملاقاتیں رہی تھیں۔ ایک بار ایک یادگار ملاقات ان کے آفس میٹھادر میں بھی ہوئی تھی ان دنوں میں ''کراچی گولڈن پرسنالٹی ایوارڈ'' کی تقریب کا اہتمام کررہا تھا جس میں سماجی خدمات کا ایوارڈعبدالستارایدھی کے نام تھا اور میں اپنے چھوٹے بھائی صابرعلی کے ساتھ ان کو ایوارڈکی تقریب میں مدعوکرنے کی غرض سے ان کے آفس گیا تھا۔ ایدھی صاحب بڑی محبت اور شفقت سے پیش آئے تقریب میں آنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہنے لگے۔ بس دعا کرتے رہیں کہ اس دن شہر میں امن وامان رہے کوئی آفت نہ مچے۔ میں نے کہا ایدھی صاحب! آپ کا آفس بھی آپ ہی کی طرح بہت ہی سادہ ہے کیونکہ وہاں چار پرانی کرسیاں ایک میز، ایک وال کلاک، ایک ٹیلی فون کا پرانا ماڈل ہی نظرآرہا تھا۔
میری بات سن کر ایدھی صاحب بولے '' ارے بابا! جو بھی پیسہ میرے پاس آتا ہے وہ غریبوں، مسکینوں، بیواؤں اور یتیموں کی امانت ہوتا ہے۔ یہ میرا آفس بس رابطے کے لیے ہے اور میرے لیے یہ کافی ہے۔'' ان کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر میری سوچ چندھیا گئی تھی پھر وہ بولے یہ جو پیسہ میرے پاس آتا ہے میری اپنی زندگی کے لیے نہیں دوسروں کی زندگیاں بچانے کے لیے ہے، ان پیسوں کی مجھے ضرورت نہیں ہے، گور وکفن لاشوں کو ضرورت ہے، جو بے شعور لوگ اپنے شیرخوار بچوں کو معاشرے میں ظلم سہنے کے لیے چھوڑجاتے ہیں، یہ پیسہ تو ان کی کفالت کے لیے ہے۔ وہ مسکرا مسکرا کرکہہ رہے تھے اور میری آنکھیں پلکوں کے پیچھے بھیگی بھیگی جارہی تھیں اور دماغ کی اسکرین پر ان حکمرانوں کی فلم چل رہی تھی جو قوم کی خون پسینے کی کمائی پرعیش کرتے ہیں۔ ملکی اور قومی خزانوں کو اپنے آباؤواجداد کی جاگیر سمجھتے ہیں۔
جوغریبوں کو اپنا غلام بنا کے رکھتے ہیں جو قوم کے پیسوں کو اپنے محلوں کی سجاوٹ اور تزئین وآرائش پرخرچ کرتے ہیں جو بیرون ملک اپنی بیگمات کی شاپنگ پر خرچ کرتے ہیں، جو اس پیسے کو اپنے گھوڑوں کے اصطبل کو آراستہ کرنے پر استعمال کرتے ہیں۔ایدھی صاحب کچھ دیر مجھے اپنے خیالوں میں گم صم دیکھ کر بولے۔ ارے بابا ! آپ کدھرکھو گئے ہو واپس آجاؤ۔ ہماری زندگی کی اچھائی یہی ہے کہ ہم دوسروں کی زندگیوں میں بہاریں لائیں، یہ دنیا تو فانی ہے۔ ہر انسان اس دنیا میں خالی ہاتھ آتا ہے اور اس دنیا سے خالی ہاتھ ہی واپس جاتا ہے۔ آپ تو رائٹر ہو، آپ کو پتا ہوگا کہ جب سکندر اعظم بادشاہ دنیا سے جانے لگا تھا تو اس نے یہ وصیت کی تھی مرنے کے بعد اس کے دونوں ہاتھ کفن سے باہر نکال کر رکھنا تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ جب سکندر اس دنیا کا فاتح دنیا سے گیا تو خالی ہاتھ گیا تھا۔ میں بھی ایک دن خالی ہاتھ جاؤنگا پھر انھوں نے بتایا کہ بابا میں نے ابھی سے اپنی قبرکی جگہ بھی بنالی ہے۔ ایک چھوٹا سا ایدھی ولیج ہے وہی میرا آخری ٹھکانہ ہوگا۔
اس دوران دو کڑک چائے آگئیں اور چند لمحوں بعد ایدھی صاحب کا فون بھی بول پڑا۔ ایدھی صاحب نے فون سن کر کہا ارے بابا! اپنا بلاوا آگیا ہے ہم کو بس ابھی جانا ہے اور اس طرح ایدھی صاحب کے ساتھ اس منفرد، مختصر اور یادگار ملاقات کا اختتام ہوا۔ پھر جب ''گولڈن پرسنالٹی ایوارڈ'' کی تقریب ایف ٹی سی آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی تو ایدھی صاحب کراچی شہر سے باہر ہونے کی وجہ سے خود تو نہ آسکے مگر انھوں نے بلقیس ایدھی صاحبہ کو بھیج دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ بلقیس ایدھی اور ان کی اولاد کو اپنے عظیم والد کے عظیم مشن کو اسی طرح جاری رکھنے کی ہمت اور حوصلہ عطا کرے۔ اس قوم کی کشتی کو گرداب سے نکالنے کے لیے آؤ ہم سب ایدھی بن جائیں۔ آخر میں عبدالستار ایدھی صاحب کو خراج تحسین کے طور پر چند اشعار نذر قارئین ہیں۔
بعد مرنے کے یہ احساس ہوا
ایدھی بابا تو اک فرشتہ تھا
پھول کے ساتھ جیسے ہو خوشبو
قوم کے ساتھ ایسا رشتہ تھا