عبدالستار ایدھی ایک عظیم شخصیت
یہ ان دنوں کی بات ہے، جب میں ماہنامہ ’’چاند گاڑی‘‘ میں بحیثیت ایڈیٹر اپنے فرائض انجام دے رہی تھی۔
ISLAMABAD:
یہ ان دنوں کی بات ہے، جب میں ماہنامہ ''چاند گاڑی'' میں بحیثیت ایڈیٹر اپنے فرائض انجام دے رہی تھی۔ آغا مسعود حسین چیف ایڈیٹر تھے اور عبداﷲ دادا بھائی سرپرست اعلیٰ۔ ایک نہیں کئی رسالے اس ادارے سے شایع ہوتے تھے ''ایکسپورٹ ٹرینڈ'' اور ''ریڈر''۔ آغا مسعود حسین اپنی علمی کاوشوں اور جدوجہد کو بروئے کار لاتے ہوئے پابندی سے نکال رہے تھے، دونوں انگریزی پرچے تھے، اور آج تک یہ پرچے جاری ہیں۔ جب کہ ''دائرے'' پروفیسر حسنین کاظمی، معاون مدیر ڈاکٹر مشرف احمد تھے۔
گاہے بگاہے میری ملاقات پروفیسر حسنین کاظمی سے ہوجایا کرتی تھی، انھی دنوں ہم نے عظیم اور نابغہ روزگار شخصیات کا انٹرویو کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا، جو ماہنامہ ''چاند گاڑی'' (جوکہ بچوں کا رسالہ تھا) میں شایع ہوتے تھے۔ فاطمہ ثریا بجیا، پروفیسر حسنین کاظمی، سہیل رانا، محسن بھوپالی، حسن عابدی، پروفیسر سحر انصاری، حکیم سعید، عبدالستار ایدھی جیسی ہستیاں ہمارے رسالے کی زینت بنتی تھیں۔
میں عبدالستار ایدھی کا انٹرویو لینے ان کے گھر واقع میٹھادر گئی تھی، جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا، کھدر کا پاجامہ قمیص، بان کی کھریری چارپائی، زمین پر سیمنٹ کا سادہ اور شفاف سا فرش دور تک بچھا ہوا تھا۔ وہ سوالات کے جوابات بھی دیتے جاتے اور اپنے گھر کا کوئی نہ کوئی کام انجام دیتے۔ کوئی ملازم نہیں، تعیشات زندگی سے دور، بہت دور فرشتہ صفت انسان تھے۔ بے حد سادہ منکسرالمزاج، مہذب اور خوش اخلاق، ان سے بات کرکے، مل کر، ان کے گھر جاکر بے حد خوشی ہوئی اور پھر ان کا انٹرویو رسالے میں شایع ہوا۔
ان کی ہی اجازت سے مجھے ایدھی سینٹر میں رہنے والی خواتین کا انٹرویو کرنے کا بھی موقع میسر آیا۔ یہ انٹرویو ایک کثیرالاشاعت روزنامے میں ہر ہفتے شایع ہوتے رہے، انٹرویوز پڑھ کر بہت سے حضرات کے فون بھی آئے کہ وہ ان بے سہارا و مظلوم خواتین سے عقد کے خواہش مند ہیں۔ بہرحال عظیم انسان عبدالستار ایدھی سے یہ میری باقاعدہ طور پر پہلی اور آخری ملاقات تھی، سن تھا 1989۔
ایدھی صاحب چلے گئے لیکن پاکستان کا چہرہ روشن کر گئے اور دنیا کو بتا گئے کہ پاکستان ہرگز دہشت گرد ملک نہیں ہے۔ اپنے فلاحی کاموں اور بے لوث خدمت کی مثال قائم کردی۔ انھوں نے وہ کارنامے انجام دیے کہ دوسرا ان کے مدمقابل کوئی نہیں ہے۔ نہ صلے کی تمنا اور نہ شہرت کی خواہش۔ اس درویش انسان کے اور اس کے اہل خانہ نے اپنی پوری زندگی انسانیت کی بقا کے لیے وقف کردی تھی۔
ﷲ کی خوشنودی کے لیے زندگی کا پل پل دکھی انسانوں کو چھت، علاج، غذا مہیا کرنے کے لیے دان دیا تھا، ظالم لاشیں گراتے تھے اور وہ لاشیں اٹھاتے تھے، مسخ شدہ اور سربریدہ لاشیں، سوختہ لاشیں، ہفتوں پرانی لاشیں، جو اپنے آخری ٹھکانے کی منتظر تھیں۔ انھوں نے تجہیز و تکفین کی مکمل ذمے داری بغیر کسی مدد کے اپنے کاندھوں پر اٹھائی ہوئی تھی۔
کسی کے کام آنا عبادت ہے اور وہ عبادت کر رہے تھے۔ صبح و شام عبادت، اس کے علاوہ کوئی کام نہ تھا۔ انھیں ایک دھن سوار تھی، جنون تھا لوگوں کے کام آنے اور ان کے دکھ دور کرنے کا۔ بے شک بچے کی تعلیم و تربیت میں والدین کا نمایاں کردار ہوتا ہے، ایدھی صاحب کی والدہ کی نصیحت نے انھیں ہیرا بنادیا، جس کی چمک نے پوری دنیا کو خیرہ کردیا۔ پوری دنیا ان کی خدمات کا اعتراف برملا کر رہی ہے، ہندوستان، امریکا، برطانیہ، عرب امارات، سب ہی ان کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ان کا نام لکھا جاچکا ہے، امریکی حکومت نے عبدالستار ایدھی کے سماجی کاموں پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ عبدالستار ایدھی کی وفات کا گہرا دکھ ہے، ان کے اہل خانہ اور پاکستانی عوام سے تعزیت کرتے ہیں۔ پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کیا کہ ''عبدالستار ایدھی نے سماجی بہبود کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں، عظیم آدمی کی وفات پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا کا نقصان ہے''۔
چینی سفیر سن دی ڈانگ نے بھی گہرے صدمے کا اظہار اور ان کے فلاحی کاموں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی خدمات اور انسانیت سے محبت کے نتیجے میں انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔زندگی کے ہر میدان میں ہر شخص اداس تھا، اور ان کی مغفرت کے لیے دعاگو، وکلا برادری، کرکٹرز، دوسرے کھلاڑی، صنعتکار، تاجر، فنکار، اہل دانش، ادیب و شاعر، صحافی، تمام اہل قلم نے کسی نہ کسی شکل میں ان کی تعریف و توصیف کی، ان کے لیے نظمیں اور قطعات، نثری تحریریں لکھی گئیں، شمعیں روشن کی گئیں۔
عبدالستار ایدھی نے درویشوں و صوفیوں کی طرح سادہ زندگی بسر کی لیکن جنازہ بڑی دھوم سے نکلا، شہنشاہوں اور بادشاہوں جیسا، پوری خلقت امڈ آئی۔ جنرل راحیل شریف سے لے کر سپاہی تک چاروں صوبوں سے نمایندگی کی گئی، وزرا، صدر مملکت، گورنر و مشیر، قانون دان، عام لوگ، خاص لوگ، ان سے محبت کی قدر کرنے والی عوام، ان کے روتے، سسکتے کارکنان جو اسی ادارے میں پلے بڑھے، جنھیں ایدھی صاحب نے اپنا نام دیا، اپنی شناخت دی، رہنے کے لیے گھر اور روزگار مہیا کیا، اپنی اولاد سمجھا، گیتا جو کہ ہندوستانی گمشدہ بچی تھی اس پر بلقیس ایدھی اور عبدالستار ایدھی نے محبتوں کے پھول برسائے، تحفظ اور عزت دی۔
ایدھی صاحب ایک بڑے انسان تھے، ان کا بڑا مقصد تھا جو انھوں نے پالیا، انھوں نے شہرت کی تمنا نہیں کی اور شہرت و دولت حاصل کرنے کے لیے ملکوں ملکوں کی سیر کو مقصد ہرگز نہیں بنایا اور نہ میڈیا میں چھائے رہنے کے لیے کانفرنس کی۔
اپنے رب کا پسندیدہ بندہ بننے اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر عمل کرنے کے لیے اپنے نفس پر کنٹرول کرنا پڑتا ہے، خواہشات کی نگری سے چھٹکارا پانے کے لیے قناعت بھری زندگی گزارنی ہوتی ہے، دوسروں کو خوشیاں و سکون پہنچانے کے لیے اپنی ذات کی نفی کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ تب کہیں چمن میں دیدہ ور پیدا ہوتا ہے۔ ان کی نماز جنازہ میں اعلیٰ سول عسکری قیادت سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ایدھی کے جسد خاکی کو سلیوٹ اور توپوں کی سلامی، گارڈ آف آنر پیش کیا۔
ان کے لیے اعلیٰ ترین اعزاز یہ بھی تھا کہ ان کا جنازہ گن کیریئر پر لے جایا گیا، قائد اعظم محمد علی جناح اور ملکہ وکٹوریہ کا جنازہ بھی اسی طرح لے جایا گیا تھا۔ یہ طریقہ اعلیٰ ترین عہدے دار کے لیے کیا جاتا ہے۔ یقینا عظیم شخصیت ایدھی صاحب خود اعلیٰ ترین عہدے کے ہی مستحق تھے، ان کا غسل آب زم زم سے ہوا اور میت کو قومی پرچم میں لپیٹ کر فوجی پروٹوکول کے ساتھ سفر آخرت پر روانہ کیا، بے شک اللہ نیتوں کا پھل ضرور دیتا ہے۔ ایدھی صاحب بے لوث خدمت کے عوض اس مرتبے کے مستحق تھے۔