لارڈز ٹیسٹ میں یاسر شاہ کی تباہ کن بولنگ

بیٹنگ لائن کی غیر مستقل مزاجی کیا گل کھلائے گی؟ 


Mian Asghar Saleemi July 17, 2016
بیٹنگ لائن کی غیر مستقل مزاجی کیا گل کھلائے گی؟۔ فوٹو: فائل

مصباح الحق کی لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں تاریخی سنچری، جاندار پش اپس، پاک فوج کو محبت و عقیدت کے جذبے سے بھرپور سیلوٹ تو سب نے ہی دیکھا اور دنیا بھر میں اس کا خوب چرچا بھی ہو چکا لیکن کیا آپ نے مصباح کی جانب سے ایسا کئے جانے پر کمنٹیٹرز، پویلین میں موجود کھلاڑیوں اور سٹیڈیم میں موجود شائقین کا ردعمل بھی دیکھا؟

اگر آپ یہ نہیں دیکھ پائے تو سمجھیں کہ مصباح کے سیلوٹ اور پش اپس کا مزہ ادھورا ہی رہ گیا ہے، مڈل آرڈر بیٹسمین نے جیسے ہی سیلوٹ کے بعد پش اپس لگانے شروع کئے تو کمنٹیٹرز بھرپور قہقہہ لگانے اور داد دینے پر مجبور ہو گئے اور برجستہ کہا کہ ''بہت ہی اچھے ، لگے رہو''۔ یونس خان،اظہر علی، وہاب ریاض، محمد عامر، محمد حفیظ اور پویلین میں کھڑے دیگر کھلاڑیوں کا جوش و جذبہ بھی دیدنی تھا جو انتہائی پرجوش انداز میں تالیاں بجاتے ہوئے گراؤنڈ میں آنے کیلئے بیتاب نظر آ رہے تھے تاہم رولز کے ہاتھوں مجبور اور وہیں سے یہ نظارہ دیکھ سکتے تھے۔

اس موقع پر شائقین کا جوش و جذبہ بھی کسی سے کم نہ تھا جنہوں نے یک آواز ہو کر مصباح کے پش اپس کی گنتی شروع کر دی۔ سابق انگلش کپتان مائیکل وان بھی بے اختیار دل کی بات زبان پر لے آئے، ان کا کہنا تھا کہ لارڈز میں آج تک ایسا جشن نہیں منایا گیا جیسا مصباح الحق نے منایا، یہ وہی انگلش کپتان ہیں جو اس سے قبل مسلسل پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ انگلینڈ کے سامنے گرین کیپس کچھ بھی نہیں ہے۔

حقیقت میں راقم کو بھی یہ سب سن کر اور دیکھ کر بہت اچھا لگا،ابھی چند دن پہلے ہی کی بات تھی جب ایک ٹیسٹ کرکٹر بتا رہا تھا کہ انگلش ٹیم ہمارا وہ حال کرے گی جو1977-78ء میں ہوا تھا، سیریز کے دوران ہی ٹیم منیجر محمود حسین اور کھلاڑی آپس میں دست وگریبان ہوئے، انگلینڈ میںموجود پاکستانی سفیر جنرل ضیاء الحق کا خصوصی پیغام لے کر آئے اور ٹیم کا شیرازہ بکھرتا دیکھ کر پرنم آنکھوں کے ساتھ واپس چلے گئے اور اگلے ہی روز ہارٹ اٹیک کی وجہ سے اس دار فانی سے رخصت ہو گئے، پاکستانی نژاد برطانوی شہری جو ہوٹل کے مالک تھے، انہوں نے پلیئرز کو اس قدر ڈانٹ ڈپٹ پلائی کہ سرفراز نواز سمیت دوسرے کھلاڑیوں کو خالی پیٹ واپس آنا پڑا۔

دنیا بھر میں گرین کیپس کی جگ ہنسائی کی وجہ سے چیئرمین پی سی بی چوہدری محمد حسین کے ساتھ ٹیم منیجر اور کپتان وسیم باری کو بھی عہدے چھوڑنے پڑے۔ دیکھ لینا، اب بھی پاکستانی ٹیم کا یہی حال ہوگا، شہریار خان کو دوسری بار چیئرمین مین شپ سے علیحدہ ہونا پڑے گا، قومی ٹیم کی یکجہتی اور اتحاد کا شیرازہ بکھر جائے گا اور بورڈ کے پیسوں پر عیش کرنے والے اعلیٰ عہدیداروں کو اپنی نوکریاں بچانے کے لالے پڑ جائیں گے، میرا کہنا تھا کہ یہ 1978ہے اور نہ ہی سینئر کھلاڑیوں نے بغاوت کررکھی ہے، پاکستان ٹیم اس سے پہلے بھی انگلش سائیڈ کو مصباح الحق کی قیادت میں6میں سے 5ٹیسٹوں میں شکستوں سے دو چار کر چکی ہے۔

پاکستانی ٹیم کی لارڈز ٹیسٹ میں اب تک کی کارکردگی نے یہ سچ بھی کر دکھایا ہے کہ سانحہ لبرٹی کے بعد ان پر انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ضرور ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ کسی سے کم نہیں ہیں، ابتدائی ٹیسٹ میں صرف مصباح الحق کی بیٹنگ کو ہی دیکھ لیں جنہوں نے 42 سال کی عمر کے باوجود سنچری بنا کر نہ صرف مشکلات میں گھری پاکستانی ٹیم کی میچ میں پوزیشن مضبوط کی بلکہ انگلینڈ کے خلاف لارڈز میں 82 سال کے دوران ٹیسٹ کرکٹ میں سنچری بنانے والے دنیا کے سب سے معمر کرکٹر بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔

2010 میں سپاٹ فکسنگ کیس کے بعد سے پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کو ایسے ہی حالات سے نبرد آزما ہونا پڑا، دیکھنے والے ان کی تیسرے نمبر کی رینکنگ والی ٹیسٹ ٹیم کو دیکھتے اور بس یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس ٹیم میں کسی بھی صورت حال میں سنبھلنے یا خرابی سے بحالی کی طرف پلٹنے کی خوبی کمال کی ہے، مصباح میں موجود قائدانہ صلاحیتوں کے باوجود بہت سے لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ پاکستانی ٹیم ایشیا سے باہر کم ہی کھیلی ہے، اس لئے گرین کیپس انگلینڈ کے خلاف اسی کی سرزمین پر عمدہ کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے، ایک اور وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ انگلینڈ کی ٹیم زبردست فارم میں ہے اورحال میں ہی اپنی سرزمین پر سری لنکن ٹیم کو شرمناک شکستوں سے دوچار کر چکی ہے۔

اب ایک ایسی ٹیم کے خلاف جس کے لیے یہاں کی کنڈیشنز اجنبی ہیں وہ کیسے انگلش ٹیم کے خلاف بہتر کھیل پیش کر سکے گی لیکن پاکستانی ٹیم نے مبصرین کے تمام تر دعوے غلط ثابت کر دیئے اور ابتدائی دنوں میں لارڈز ٹیسٹ پر اپنی گرفت مضبوط رکھی، انگلینڈ کے بولروں نے اکثر شارٹ بال کرائے، ان میں اینڈرسن والی ڈائریکشن اور کنٹرول کی کمی تھی، کئی موقع گنوا دیئے گئے یا کیچ وہاں گرے جہاں فیلڈر کو ہونا چاہیے تھا، ایک رن آؤٹ بھی نہیں ہو سکا جو اگر ہوجاتا تو شاید پاکستان کی پوری ٹیم پہلے ہی دن آؤٹ ہو گئی ہوتی۔

پہلی اننگز میں 339رنزکا اچھا مجموعہ ترتیب دینے کے بعد پاکستانی بولرز بالخصوص یاسر شاہ نے بھی بولنگ کا حق ادا کر دیا اور انگلش ٹیم کی بساط صرف 272 رنزپر لپیٹ دی،جب سے سعید اجمل پر مشکوک بولنگ ایکشن کے باعث پابندی لگی، اس وقت سے یاسر شاہ پاکستان ٹیم کا مستقل حصہ ہیں اور لیگ سپنر حریف ٹیموں کے خلاف غیرمعمولی بھی ثابت ہوئے ہیں جبکہ پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں تیز ترین 50 وکٹیں مکمل کرنے والے بولر بھی ہیں، یہ اعزاز چند بولرز کوہی حاصل ہوسکا ہے، یاسر نے یہ کارنامہ وقت کے اعتبار سے کسی بھی بولر کے مقابلے میں کم وقت میں انجام دیا ہے۔

یاسر کی ایک اور انفرادیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے لارڈز سٹیڈیم میں ایک اننگز میں 20 برسوں کے بعد 6 وکٹیں حاصل کرنے کااعزاز بھی اپنے نام کر لیاہے، اس سے قبل پاکستان سپنر مشتاق احمد نے 1996میں ایک اننگز میں5 وکٹیں حاصل کی تھیں، یاسر شاہ نے جوئے روٹ ،جیمرز وینس ،گیرے بیلنس،جونی بیئرز ٹو، معین علی اور فن کو اپنی جادوئی گیند کے ذریعے پویلین پہنچایا جس کے بعد پاکستان میزبان ٹیم کے خلاف پہلی اننگز میں 67رنز کی سبقت حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔

یاسر شاہ کا کردار لارڈزکے بعد اوول اور اولڈ ٹریفورڈ کی وکٹوں میں بھی فاسٹ بولرز کی نسبت زیادہ اہم ہو سکتا ہے، بالخصوص آخری لمحات میں کیونکہ یہاں کی وکٹ کئی سالوں سے بیٹنگ کے لیے سازگار ہے اور ٹیمیں مسلسل بڑے مجموعے ترتیب دیتی جا رہی ہیں۔ 1992 اور 1996 میں پاکستان کی سیریز میں کامیابی وسیم اکرم اور وقار کی خطرناک یارکرز کی بدولت تھی جبکہ ٹو ڈبلیوز کی دہشت میں مشتاق احمد کا بھی اہم کردار تھا۔پاکستان کی ٹیسٹ سیریز کے4میچوں میں سے 3انہیں میدانوں میں کھیلے جائیں گے اس لیے لیگ سپنر کا کردار ان کنڈیشنز میں بھی خاصا اہم ہوگا اور وہ عامر کے ساتھ مل کر 1992 اور 1996 کی سیریز میں تین شاہینوں کی جانب سے پاکستان کے لیے دی گئی کارکردگی کو اس سیریز میں دہرا سکتے ہیں۔

محمد عامر بلاشبہ تاریخ کے ان بہترین بولرز میں سے ایک ہیں جو آئے اور چھا گئے، بدقسمتی سے 6 سال قبل لارڈز کے مقام پر ان کا کیریئر سپاٹ فکسنگ سے داغدار ہوا لیکن 23 سالہ نوجوان بولر نے ایک دفعہ پھر لارڈز سے ہی اپنے نئے دور کا آغاز کیا، گزشتہ دورہ انگلینڈ میںانہوں نے چار ٹیسٹ میچوں میں 19 وکٹیں اپنے نام کر کے سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا تھا، گو پیسر ابھی لارڈز ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں زیادہ وکٹیں تو حاصل نہیں کر سکے لیکن انہوں نے انگلش کپتان الیسٹر کک کو پویلین کا راستہ دکھا کر اپنے خطرناک عزائم ضرور ظاہر کر دیئے ہیں۔

پاکستان کا انگلینڈ کا گزشتہ دورہ سپاٹ فکسنگ کے افسوس ناک سکینڈل کی نذر ہوا تھا جس کی وجہ سے نہ صرف متعلقہ کھلاڑیوں کو سزا ہوئی بلکہ اس کے بدلے بدنامی اور رسوائی ٹیم کے حصے میں آئی۔ گو مصباح اس وقت پاکستان ٹیم کے مستقل رکن نہیں تھے لیکن ایک مشکل وقت میں کپتانی ان کے حوالے کر دی گئی تھی اور مصباح کا ریکارڈ ان کی کامیابیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تاہم لارڈز ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں دوسرے بیٹسمینوں محمد حفیظ اورشان مسعود کی طرح مصباح الحق نے بھی کریز پر آتے ہی جس انداز میں اپنی قیمتی وکٹ گنوائی، اس نے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا ہے، اگر گرین کیپس نے اس طرح کی غلطیاں کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو لارڈز ٹیسٹ کی جیتی ہوئی بازی ہاتھ سے نکل بھی سکتی ہے۔

یہاں پر یہ سوالات بھی اٹھنا شروع ہو گئے ہیں، سیریز کے باقی ٹیسٹ اور ایک روزہ میچوں میں بھی ہمارے بیٹسمین جلد بازی میں اپنی وکٹیں گنواتے رہیں گے اور فیلڈر کیچز چھوڑتے رہیں گے، کیا 1977-78ء کی سیریز خود کو دوبارہ دہرائے گی، کیا مصباح الحق کو بھی وسیم باری کی طرح کپتانی سے الگ ہونا پڑے گا، کیا ٹیم منیجر محمود حسین کی طرح انتخاب عالم کو بھی گھر جانا پڑے گا اور کیا چوہدری محمد حسین کی طرح شہریار خان کو بھی پی سی بی کی سربراہی کے ہٹا کر بورڈ میں ایڈہاک لگانا پڑے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں