زندہ جاوید ایدھی

ایک معمولی ڈسپنسری سے کام شروع کیا جو آج ایدھی فاؤنڈیشن جیسے ادارے کے نام سے جانا جاتا ہے۔


Zamrad Naqvi July 18, 2016
www.facebook.com/shah Naqvi

بابائے انسانیت عبدالستار ایدھی کا 8 جولائی بروز جمعہ انتقال ہوا اس کے بعد سے اخبارات میں ان کو خراج عقیدت پیش کرنے والوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ سیاسی مذہبی ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے دکھ کا اظہار کر رہے ہیں جب کہ وہ اہل اقتدار میں شامل نہیں تھے لیکن یہ درویش صوفی خاک نشین زندگی میں بھی اور اپنی وفات کے بعد بھی لوگوں کے دلوں پر حکومت کر رہا ہے۔ مسلح افواج کے سربراہوں نے ان کے جنازے کو سیلوٹ کر کے ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔ فوجی گاڑی پر رکھ کر ان کی میت کو قبرستان لے جایا گیا۔

ان کے جنازے میں عوام کی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی لیکن اعلیٰ سرکاری شخصیتوں اور سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر لوگوں کی بہت کم تعداد شریک ہو سکی۔ ایدھی کی پوری زندگی عوام کے لیے وقف تھی۔ وہ عوام کے لیے تھے اور عوام ان سے محبت کرتے تھے۔ لوگوں کو ان کے جنازے میں شریک ہونے سے روک کر ان کے ساتھ بڑی زیادتی کی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کی نماز جنازہ میں شرکت کے بعد عوام کو یہ سہولت دی جاتی کہ وہ بڑے پیمانے پر نماز جنازہ میں شرکت کر سکتے۔

ان کی وفات پر تمام اخباروں نے سرخیاں لگا کر نذرانہ عقیدت پیش کیا لیکن اپنے ایکسپریس اخبار نے جو سرخی لگائی وہ دل کو چھو گئی۔ سرخی یہ تھی''خدمت محبت سچائی سادگی دنیا سے رخصت ہو گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا ضمیر ان چاروں چیزوں سے گندھا ہوا تھا۔ سادگی کا تو یہ عالم تھا کہ ان کے پاس زندگی میں ایک وقت میں صرف دو جوڑے کپڑے کے رہے ایک کو پہن لیتے دوسرے کو دھو لیتے۔ وفات کے وقت جو جوتا انھوں نے پہنا ہوا تھا وہ بیس سال پرانا تھا۔ ضرورت پڑنے پر اسے مرمت کروا لیتے تھے۔ غریبوں کی خدمت شروع سے ہی ان کی تربیت اور مزاج کا حصہ تھی۔ ان کی والدہ اسکول جیب خرچ کے لیے دو پیسے روزانہ دیتی تھیں۔ نصیحت تھی کہ اس میں سے ایک پیسہ کسی غریب بچے کو دینا۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اس نہج پر اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں۔ خدمت خلق کی یہ عادت اگر بچپن سے کسی بچے کی تربیت میں شامل ہو جائے تو یہ ذاتی اور معاشرے کی سدھار کا بہترین طریقہ ہے۔

ایک معمولی ڈسپنسری سے کام شروع کیا جو آج ایدھی فاؤنڈیشن جیسے ادارے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس فاؤنڈیشن کے پاس دو جہاز ہیلی کاپٹر اسپیڈ بوٹ اور اس کے علاوہ تین ایئرایمبولینس ایک ماہ میں اس بیڑے میں شامل ہو جائیں گی۔ اس کے پاس بارہ سو ایدھی ایمبولینس ہیں جو غریب بے سہارا ضرورت مندوں کے لیے ہر وقت کمربستہ ہیں۔ یہ سب کچھ عوام کے دیے گئے عطیات سے بنا۔ یہ عوام کا ایدھی صاحب پر اندھا اعتماد تھا کہ لوگ ان کے نام پر لاکھوں کروڑوں کے عطیات دل کھول کر دیتے تھے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی ایک بہت بڑی قابل فخر بات جو حال ہی میں سامنے آئی ہے کہ ایک انٹرنیشنل آڈٹ کمپنی نے دنیا کی مشہور 124 سرکاری اور نجی فلاحی تنظیموں کا آڈٹ کرنے کے بعد اس آڈٹ کمپنی نے اعلان کیا کہ ایدھی فاؤنڈیشن کے تمام ذیلی ادارے کرپشن سے پاک اور دنیا بھر میں شفافیت میں پہلے نمبر پر ہیں۔ وہ پاکستان جو کرپشن میں لت پت ہے چھوٹے بڑے سے لے کر حکمران طبقے تک کرپشن کی دلدل میں جس بری طرح سے دھنسے ہوئے ہیں وہاں پر ایدھی صاحب اللہ کا تحفہ ہی تو تھے۔

عبدالستار ایدھی کے انتقال پر بین الاقوامی میڈیا نے بھی ان کی شخصیت اور خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ ان میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز، وائس آف امریکا، واشنگٹن پوسٹ، برطانوی اخبار گارجین شامل ہیں۔ خبررساں ادارے رائٹر کے مطابق جنوبی ایشیا کے اکثر لوگ انھیں زندہ ولی مانتے تھے۔ ایدھی صاحب کو ان کے پرانے لباس سمیت ان کی وصیت کے مطابق دفنایا گیا۔ اس طرح انھوں نے کفن پر خرچ ہونے والے پیسے غریبوں پر صرف کرنے کو ترجیح دی۔

عبدالستار ایدھی کو ان کی زندگی میں کئی مرتبہ بیرون ملک علاج کرانے کی تجویز دی گئی لیکن انھوں نے اسے مسترد کر دیا۔ ہمارے حکمرانوں کو اس بات پر اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ عوام کی خون پسینے کی کمائی بیرون ملک علاج پر خرچ کرتے ہوئے ان کا ضمیر ذرا برابر بھی ملامت نہیں کرتا۔ عبدالستار ایدھی کی وفات کے بعد حکومت کے لیے کرنے کے دو کام ہیں۔ پہلا یہ کہ 8 جولائی ایدھی ڈے قرار دیا جائے۔ دوسرا پرائمری اور ہائی اسکول کی سطح پر بچوں کے نصاب میں ایدھی صاحب کی خدمات طرز زندگی اور فلسفے کو اس طرح شامل کیا جائے کہ وہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایک رول ماڈل قرار پائیں۔ایدھی صاحب اپنا مذہب انسانیت کو قرار دیتے تھے اس کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ تمام مذاہب کی بنیاد انسانیت پر ہے۔ اس لیے انھوں نے رنگ نسل زبان فرقہ مذہب سے بالاتر ہو کر بلاتفریق تمام انسانوں کی خدمت کی۔

ایدھی صاحب سے جو بات سیکھنے کی ہے وہ یہ کہ انھوں نے اپنی ذات کی نفی کر کے دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کیا۔ ان کو اپنی ذات کی نفی ہی اس بلند مقام پر لے گئی جہاں آج وہ مرنے کے بعد بھی زندہ ہیں۔ یہ سب انھوں نے جنت کے لالچ میں کیا، نہ شہرت کے لیے۔ انھوں نے دنیا کی تمام آسائشوں کو اپنے اوپر حرام قرار دے دیا۔ وہ آسائشیں جن کے لیے ایک انسان دوسرے انسان کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ ان کی خوشی سکون اطمینان کامیابی دوسرے انسانوں کے دکھ درد دور کرنے میں تھی آسائشوں میں نہیں۔ وہ کیا کرتے تھے کہ بے شمار رسولؐ ' پیغمبراور انبیاء غریبوں کی مدد کے لیے آئے لیکن غریب آج بھی ظلم کی چکی میں پس رہا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہزاروں سال سے ظالم اور مظلوم اور امیر و غریب کی جنگ چل رہی ہے لیکن اس جنگ میں غریب مظلوم مسلسل شکست کھا رہا ہے۔

ایدھی صاحب رنگ نسل زبان مذہب فرقہ کی غلاظتوں سے پاک اور ماورا تھے۔ کیا مذہب کے ٹھیکیدار بتائیں گے جو مذہب کے نام پر انسانوں کو فخر سے قتل کرتتے ہیں کہ ان کے اندر ایک بھی ایدھی کیوں نہ پیدا ہو سکا۔ دوسرے انسانوں کی محبت میں اپنی ذات کی نفی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے جو اسے اللہ کا محبوب بندہ بنا دیتی ہے۔ایدھی صاحب مذہبی جنونیت دہشت گردی کے تاریک اندھیروں میںپاکستان کا روشن چہرہ تھے... یہ تھے ہمارے ایدھی صاحب۔ دنیا میں کوئی دوسرا آپ کو ایسا ملے گا۔

اگست سے اکتوبر کے درمیان اس سال کے شروع میں کیے گئے ایک اہم فیصلے پر نظرثانی ہو سکتی ہے۔

سیل فون: 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں