کشمیر میں آزادی کی نئی لہر
ہندوستان کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے بعد سے ہی کشمیری عوام اپنے حق خودارادیت کے لیے لڑ رہے ہیں
خطہ کشمیر میرے لیے ہمیشہ سے پریوں کا دیس رہا اگر کوئی مجھ سے پوچھے تمہیں کس سے عشق ہے تو میں برملا کہہ دوں ' وادی کشمیر' ۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں ہونے والے چھوٹے بڑے واقعات پر مجھے بھی اتنا ہی دکھ اور تکلیف پہنچی ہے جتنی کسی کشمیری کو جیسے جیسے کشمیر سے تعلق مضبوط تر ہوتا گیا وہاں کے مسائل سے بھی آگاہی بڑھتی گئی بہت بار کشمیر کے مسائل پر لکھا ایک عام پاکستانی کی طرح میری بھی یہی سوچ ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیے ۔کشمیر کے عوام بھی یہی سمجھتے ہیں، سری نگر، پیل گام، رائس ناک، پلوانسہ میں تہوار پاکستان کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد سے ہی کشمیر کا ایشو چلا آرہا ہے۔
ہندوستان کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے بعد سے ہی کشمیری عوام اپنے حق خودارادیت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ گزشتہ چھ عشروں سے زائد بھارتی قبضے کے دوران لاکھوں کشمیریوں کو شہید کیا جاچکا ہے ۔ہزاروں عفت مآب خواتین کی بے حرمتی کی جاچکی ہے ، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بھارت مسلسل نوجوانوں اور بچوں کا قتل عام کر رہا ہے مقصد اس کا یہی ہے کہ کشمیر پر قبضہ برقرار رکھ سکے اور کشمیری عوام کی نسل کشی کرسکے مگر سب کچھ ہونے کے باوجود کشمیریوں کے پایہ استقلال میں کمی نہیں آئی مگر حالیہ دنوں میں بھارتی فوج کے ہاتھوں نوجوان کمانڈر مظفر برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں لگتا ہے تحریک آزادی کی نئی روح پھونک دی ہے اورآزادی کی جدوجہد میں تیزی کی نئی لہرآگئی ہے مگر دنیا کے سامنے بھارت کا چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے ۔
بھارت نے ساری دنیا کے سامنے جمہوریت کا چیمپئن ہونے کے جو خودساختہ دعوے کیے ہیں ان کی قلعی کھل گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حالیہ واقعات میں 50 سے زائد نوجوانوں کی شہادت اور ہزاروں زخمیوں کی موجودگی کے باوجود احتجاج نے نیا رنگ اختیار کرلیا ہے ۔ بھارتی حکومت نے کرفیو لگا کر لوگوں کو محصورکرنے کی کوشش کی مگر وانی کے جنازے میں لاکھوں لوگوں نے پاکستانی پرچم کے سائے تلے احتجاجی ریلی میں شرکت کرکے ثابت کردیا کہ کشمیریوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ آج بھی ان کا عزم زندہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ الحاق کیا جائے کچھ عرصہ پہلے ایک سلسلہ نظر آتا تھا کہ کشمیر کو آزاد ملک بنایا جائے مگر حالیہ واقعات نے ثابت کردیا کہ کچھ لوگوں کی انفرادی سوچ تو ضرور ہوسکتی ہے مگر اجتماعی نہیں ۔
آج بھی 90 فیصد سے زائد کشمیری خواہ وہ مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھتے ہوں یا آزاد کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کو ترجیح دیتے ہیں۔ علیحدہ ریاست کے تصور میں بھی پاکستان کے کچھ سیاست دانوں کی خودغرضانہ سوچ کا عمل دخل تھا ۔ اقوام عالم میں جس طرح بھارت کی دوغلی پالیسیوں اور ریشہ دوانیوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت تھی وہ کام ہم نہ کرسکے ۔ پاکستان میں تو اس وقت یہ صورتحال ہے کہ وزارت خارجہ جیسی اہم پوسٹ پر وزیرخارجہ ہی موجود نہیں۔ بدقسمتی یہ رہی کہ پاکستان کے حکمرانوں کی سوچ صرف ذاتی مفادات تک محدود ہے جس کی وجہ سے اقوام عالم میں پاکستان تنہا کھڑا رہ گیا ہے۔ پاکستان کے اہم مواقعے پر بھی کشمیرکاز سے متعلق اپنی سوچ کو واضح کرنے کی بجائے بھارتی حکمرانوں کی سوچ کے مطابق عمل کیا۔ اس کا مظاہرہ اوفا میں ہونے والی مودی نواز شریف ملاقات میں دیکھنے میں آیا جب ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا تو دنیا حیران رہ گئی کہ اس میں کشمیر کا تذکرہ ہی نہیں تھا، جس کی وجہ سے آزادی کشمیر کی تحریک کو شدید دھچکا لگا۔
پاکستان مضبوط طریقے اور ٹھوس بنیادوں پر کشمیر کے ایشو پر بات کرے تو آج بھی اقوام متحدہ میں اپنا مقدمہ جیت سکتا ہے کیونکہ بھارت میں بھی اکثریت درپردہ یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ بھارت نے کشمیر پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور وہاں فوجی کارروائی کی وجہ سے بھارت کا چہرہ مسخ ہو رہا ہے۔ مگر پاکستان کے کچھ سیاستدان، بھارتی نواز میڈیا اور نام نہاد این جی اوز پاکستان میں ہونے والے کسی معمولی واقعے پر بھی شور شرابا شروع کردیتے ہیں مگر کشمیر پر بھارت کی جارحانہ کارروائی کے ہاتھوں لاکھوں افراد کی شہادت پر منہ بند کرکے بیٹھ جاتے ہیں حالانکہ بھارت کے سابقہ سیکریٹری اطلاعات و نشریات ایس ایس گل اپنی کتابDynasityمیں برملا کہہ چکے ہیں کہ کشمیر پر بھارت کی کمزور پوزیشن نے بھارت کا اخلاقی دیوالیہ نکال دیا ہے اور سفارتی محاذ پر اسے اکیلا کردیا ہے۔
مگر ہمارے حکمرانوں کی سوچ صرف اور صرف تجارت پر مرکوز ہے کشمیر کے حالیہ واقعات پر حکومت کی جانب سے ایک کمزور سا مذمتی بیان سامنے آیا۔آفرین ہے جنرل راحیل شریف پر کہ انھوں نے کورکمانڈر کے اہم اجلاس میں اپنا موقف دو ٹوک الفاظ میں واضح کردیا۔ انھوں نے کہا کہ دنیا مسئلہ کشمیر حل کرائے خطے میں امن کے لیے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی تسلیم کرے مگر پاناما لیکس میں پیسہ لگانے والے دو ٹوک بات کرنے کی بجائے صرف ادھر ادھر ہی دیکھ سکتے ہیں ۔