اہم شخصیات کی آمد و روانگی
دنیا کی عظیم سماجی شخصیت عبدالستار ایدھی جمعے کے مبارک دن 92 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے
SWAT:
دنیا کی عظیم سماجی شخصیت عبدالستار ایدھی جمعے کے مبارک دن 92 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے،اور اس کے اگلے روز پاکستان کے وزیراعظم 47 دن ملک سے باہر رہنے کے بعد ملک میں واپس آئے اور ان کی لاہور آمد سے قبل جس طرح قوم نے ایدھی صاحب کی تدفین کے مناظر دیکھے۔ ایسی پروقار اور رقت آمیز روانگی بڑے بڑوں کی نصیب میں نہیں ہوتی۔ جو زندگی میں ایک معمولی کونسلر ہی بن سکے تھے اور ان کے چاہنے والوں نے 1970 کے انتخابات میں ایدھی صاحب کا الیکشن میں حصہ لینا مسترد کردیا تھا کہ اگر ایدھی صاحب نے سیاست شروع کردی تو عوام کی خدمت کون کرے گا۔ قوم کی سماجی خدمت کا جو صلہ دنیا میں عبدالستار ایدھی کو انتہائی پر وقار تدفین کے موقعے پر ملا اور دنیا انھیں اچھے نام سے یاد کررہی ہے۔ وزیراعظم کے لندن میں ہونے والے دل کے آپریشن کو بھی ملک کے سیاست دانوں اور مذہبی رہنما ڈاکٹر طاہرالقادری نے مشکوک بنا دیا ہے اور وہ وزیراعظم نواز شریف کی 47 روز کی غیر حاضری کو بھی مختلف سیاسی رنگ دے رہے ہیں۔
عبدالستار ایدھی اپنا وقت مکمل کرکے باعزت دنیا سے جاچکے اور وزیراعظم اپنے اقتدار کی بقایا مدت مکمل کرنے ملک آچکے ہیں اور نہیں معلوم کہ تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے کے بعد قوم کا مزید اعتماد حاصل کرسکیںگے کہ نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
تین بار وزیراعظم منتخب ہونے والے نواز شریف کو اپنے مخالفین کی شدید مخالفت اور محاذ آرائی کا سامنا ہے اور کہا جارہا ہے کہ بیمار وزیراعظم کو اقتدار میں نہیں رہنے دیا جائے گا اور ان کے خلاف قوم کو سڑکوں پر لایا جائے گا۔بظاہر نواز شریف کے اقتدارکے دو سال باقی ہیں اور ان کے تینوں ادوار کو دیکھ کر لگتا تو نہیں کہ انھیں مزید منتخب کرلیا جائے گا۔
موجودہ حکومت کو ان کے مخالف ناکام قرار دے رہے ہیں، تو ملک کی سب سے بڑی عدالت حکومت کے متعلق جو ریمارکس مسلسل دے رہی ہے اس پر اسے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ کیونکہ سپریم کورٹ ان کی حریف نہیں ہے اور سپریم کورٹ نے حکومت کے متعلق جو ریمارکس دیے ہیں ان کی وجہ سیاسی نہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جو صاف نظر آرہے ہیں ۔حکومتی کارکردگی اگر اچھی بھی ہوتی تو ان کے مخالفین نے کبھی تسلیم نہیں کرنا تھا مگر عدالت عظمیٰ بھی حکومتی کارکردگی پر اپنے ریمارکس میں واضح کرچکی ہے کہ وہ حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں ۔ ملک کے عوام کو 2018 کے انتخابات کا انتظار ہے جس میں وہ فیصلہ دینے کا اختیار رکھتے ہیں۔
حکومت مخالف عوامی اجتماعات سے تو لگتا ہے کہ عوام حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں مگر یہ فیصلہ ہونے میں ابھی دو سال باقی ہیں ۔اس لیے حکمرانوں کو بھی خوشامدیوں کے نرغے سے نکل کر حقائق کا ادراک اپنی نظر سے نہیں بلکہ ایک غیر سیاسی شخصیت عبدالستار ایدھی کو ملنے والی عزت سے کرلینا چاہیے۔ وزیر خزانہ کے متعلق اپنی لکھی ہوئی تقریر میں پی پی کے نوجوان چیئرمین بلاول زرداری نے جو کہا وہ اتنا بھی غلط نہیں کہ قوم اسے نظر انداز کردے کہ وہ حکومت مخالف پیپلزپارٹی کے الزامات ہیں، قوم کو غربت کے جس مقام تک پہنچا دیاگیا ہے وہ ملک میں بڑھتی غربت، مہنگائی اور عوامی بے چینی کا واضح ثبوت ہے۔ جب کہ حکومت کے حمایتیوں کے نزدیک سب کچھ ٹھیک ہے کہ عوام اپنے وزیراعظم کو چاہتے ہیں اور ن لیگ کے ساتھ ہیں جب کہ حکومت کے مخالفین کی ہر بات جھوٹا پروپیگنڈا ہے اور عوام دو سال بعد بھی ن لیگ ہی کو منتخب کرلیںگے۔
ن لیگ کی قیادت کو ان حقائق پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ اس نے اور اس کی تیسری حکومت نے عوام کو دیا کیا ہے، تین سالوں میں عوام کو ریلیف تو کیا ملنا تھا موجودہ حکومت میں ماضی کی طرح اس بار بھی سرکاری ملازمتیں ملیں نہ مہنگائی اور بیروزگاری پر قابو پانے کی سنجیدگی سے کوئی کوشش نظر آئی۔ تین سال بعد بھی لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھگت رہے ہیں اور سرکاری طور پر صرف جھوٹے آسرے مل رہے ہیں۔
ن لیگ کی تیسری حکومت کی تین سالوں میں حقیقی طور پر مجموعی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ تین سالوں میں حکومت کے درجنوں اہم عہدے ہی نہیں وزیر خارجہ جیسا اہم عہدہ خالی ہے، وقت پر الیکشن کمیشن کے ممبران کا تقرر نہ ہونے سے ملک میں انتخابی عمل رک گیا۔ مردم شماری نہ کراکر یہ حکومت بھی غیر آئینی اقدام میں ملوث ہوچکی ہے جس پر سپریم کورٹ نے بھی اپنی برہمی کا اظہار کیا۔ عوام کا ایک طبقہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے غیر آئینی توقعات لگائے ہوئے ہے۔ اربوں، کھربوں مالیت کے اثاثے رکھنے والی حکمران فیملی اور صاحبزادوں کا سچ اور ملک کو بادشاہوں کی طرح چلانے کے سنگین الزامات بھی لگ چکے ہیں جن سے حکومت کی شہرت متاثر ہوئی ہے ۔
ایسی صورتحال میں بہتر ہے کہ حکمران اپنی دولت کا جائزہ حصہ اپنی فیملی کو دے کر اپنا حصہ ملک کے عوام کی سماجی خدمات کے لیے وقف کردیں اور باقی مدت پوری کرانے کے لیے اپنے کسی با اعتماد ساتھی کو اپنی جگہ منتخب کراکر مہاتیر محمد جیسی مثال قائم کردیں اور خود کو سیاست کی بجائے سماجی خدمت کے لیے وقف کردیں۔
میاں صاحب اپنے شریف میڈیکل کمپلیکس کو جدید علاج کا اسپتال بنادیں کہ کسی کو علاج کے لیے ملک سے باہر نہ جانا پڑے۔ ملک بھر میں ایدھی جیسے حکمران فیملی کے خدمت سینٹر اور ایمبولینس ہوں تو یہ بھی بہت اور غریب عوام کی خدمت ہوگی۔ اب ملک میں عبدالستار ایدھی جیسی سماجی خدمت توکوئی کر نہیں سکتا مگر ایدھی جیسے سماجی ادارے حکمران فیملی قائم کراسکتی ہے جو عوام کو نظر آئیںگے اور قوم ن لیگ کی قیادت میں یہ تبدیلی دیکھنا چاہے گی کہ جو کام وہ اپنی طویل سیاسی زندگی میں نہ کرسکی وہ سماجی خدمت کے ذریعے کرے، ممکن ہے قوم انھیں ایدھی کا متبادل نہ سہی مگر سماجی خدمات کے باعث یاد کرتی رہے۔