اور ایک دن اچانک وہ قوت گویائی سے محروم ہوگئے

معروف کامیڈین کاشف خان اپنی زندگی کا یادگار ترین واقعہ سناتے ہیں۔


Arif Aziz December 02, 2012
فوٹو: فائل

ISLAMABAD: '' ایک صبح نیند سے بیدار ہونے پر میں نے گلے میں خراش محسوس کی۔ اس قسم کی تکلیف عام ہے اور اس وقت میں نے بھی اسے کوئی اہمیت نہیں دی۔

تھوڑی دیر بعد گلے میں درد بھی شروع ہو گیا، جسے دور کرنے کے لیے عام طور پر استعمال کی جانے والی ادویہ کا سہارا لیا، لیکن پھر محسوس کیا کہ میری آواز گویا حلق میں گُم ہوتی جارہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری بے چینی اور تشویش بڑھنے لگی، کیوں کہ میں ٹھیک طرح سے بول نہیں پا رہا تھا۔''

یہ اُس تکلیف دہ اور باعثِ تشویش مرض کی ابتدا تھی، جس نے 2002 میں پاکستان کے نام ور اور باصلاحیت کامیڈین کاشف خان کو قوتِ گویائی سے محروم کر دیا۔

کامیڈی کے میدان میں کاشف خان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی شہرت سرحدوں سے آزاد ہے، خصوصاً انڈیا میں وہ خاصے مقبول ہیں، جہاں ایک کامیڈی ریالٹی شو میں اپنی عمدہ پرفارمینس سے اُنھوں نے فاتح کا تاج اپنے نام کیا۔ بعد کے برسوں میں بھی کئی کامیڈی شوز میں اپنے فن کا جادو جگایا، ججز کے فرائض بھی انجام دیے، جو اس نوجوان کے لیے ایک اعزاز تھا۔ محافل میں شگوفے چھوڑتے اور اسٹیج پر آکر چٹکلے سناتے کاشف خان، برجستگی کو بہ طور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ بغیر سانس لیے، بِنا رُکے طویل جملہ بولنا ان کی شناخت کا بنیادی حوالہ ہے، اور یہی خوبی انھیں دیگر آرٹسٹوں کے درمیان نمایاں کرتی ہے۔

اپنی قوتِ گویائی سلب ہو جانے سے جُڑی یاد کی مزید تفصیل انھوں نے اس طرح بیان کی:

''وہ دن ڈھلتا گیا اور ہر گزرتے پل کے ساتھ میری اور میرے گھر والوں کی تشویش بڑھتی گئی، شام تک میری گویائی مکمل طور پر چلی گئی۔ میں بول رہا تھا، اپنی پریشانی اور تکلیف کا اظہار کر رہا تھا، لیکن کسی کو میری آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ زندگی کے رنگ پھیکے پڑ گئے تھے، میری والدہ بہت دُکھی تھیں، کیوں کہ میں ایک ہنسنے بولنے والا لڑکا تھا، میری وجہ سے گھر میں رونق لگی رہتی تھی۔ اس دوران ڈاکٹر، حکیم، ٹوٹکے اور جھاڑ پھونک کرنے والوں سے بھی رابطہ کیا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا، لیکن کہیں سے تسلی بخش جواب نہیں ملا۔

ان دنوں گویا جتنے منہ اتنی باتیں والا معاملہ میرے ساتھ رہا۔ کوئی کہتا طلوع آفتاب کے وقت سمندر کے پانی میں پیر ڈال کر بیٹھو، کسی نے آٹھ بکرے اور چھے مرغیاں لانے کو کہا۔ یہ سب کر کے دیکھ لیا، لیکن آواز نہ لوٹی۔ مجھے تو جادو ٹونے کی باتوں پر کوئی اعتبار تھا ہی نہیں۔ پھر ایک ڈاکٹر کے پاس گیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ ایک مرض ہے، جس میں انسان قوتِ گویائی سے محروم ہو جاتا ہے اور پھر خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے۔ تم فکر مت کرو، ایک دن خود ہی گویائی بحال ہو جائے گی۔''

ڈاکٹر کی اس بات نے ان کی ڈھارس بندھائی اور اس دوران ''بے آواز'' کاشف خان کو ایک ڈرامے میں کشمیری مجاہد کا کردار آفر ہو گیا اور وہ اس کی شوٹنگ کے لیے کشمیر چلے گئے، جہاں سے واپسی پر ایک دل چسپ یاد ان کے ساتھ تھی۔

''مجھے اس ڈرامے کے ایک سین کی ڈیمانڈ کے مطابق چھلانگ لگانا تھی، میں نے اپنے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے چھلانگ لگائی، لیکن میرا پیر پھسل گیا اور میرے الٹے پیر کے ٹخنے پر شدید چوٹ آئی۔ اس وقت یہ اندازہ تو نہیں ہو سکا کہ معاملہ کس حد تک بگڑا ہے، لیکن مجھے آرام کرنے کے لیے ہماری عارضی قیام گاہ پر چھوڑ دیا گیا۔ سب کا خیال تھا کہ پیر مڑنے کی وجہ سے مجھے تکلیف ہو رہی ہے اور آرام کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

وہ دسمبر کا مہینہ تھا اور کشمیر میں سخت سردی پڑ رہی تھی، جس جگہ ہمیں ٹھیرایا گیا تھا، وہاں مغرب ہوتے ہی سناٹا چھا جاتا تھا، تمام کاروبار بند اور لوگ گھروں میں گویا قید ہو جاتے تھے۔ میں گھر میں اکیلا تھا اور تمام ساتھی شوٹ پر تھے۔ میں نے دیکھا کہ ٹخنے کے اطراف سوج چکے ہیں اور درد بڑھ رہا ہے۔ مغرب کے بعد ساتھی آرٹسٹ واپس آئے تو میری حالت دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ میرے پیر پر سوجن کافی زیادہ تھی، انھوں نے ڈاکٹر کی تلاش شروع کی، لیکن وہاں سردی کی وجہ سب کچھ بند تھا اور ہم کسی ڈاکٹر یا شفا خانے تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔

اسی دوران معلوم ہوا کہ قریب ہی ایک پہاڑی پر کوئی بزرگ رہتے ہیں، جو ہڈی کا جوڑ بٹھانے اور اس قسم کی تکلیف دور کرنے کے ماہر ہیں۔ میرے ساتھی فن کار، اسلم شیخ، نجف رضا اور ندیم مجھے گود میں اٹھا کر ان کے پاس لے گئے۔ انھوں نے میرے ٹخنے کا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں، وہ اسے ٹھیک کر دیں گے۔ اس سلسلے میں ہماری رضامندی حاصل کرنے کے بعد انھوں نے میرے پیر پر طبع آزمائی شروع کر دی۔ انھوں نے وہی طریقہ اختیار کیا، جو عموماً ایسے ماہر کرتے ہیں۔''

کاشف خان کو اپنے ٹخنے کی ہڈی پر زور آزمائی کے دوران شدید تکلیف ہوئی، لیکن چیخنا چلانا تو دور کی بات انھوں نے تو سسکی تک نہیں لی۔ البتہ چہرے پر کرب کے آثار ضرور نمودار ہوتے رہے۔ یہ بات اُن بزرگ کے لیے نہایت حیران کُن تھی۔

کاشف بتاتے ہیں،''وہ اپنا کام نمٹا کر فارغ ہوئے تو اپنی حیرت کا اظہار کیا اور کہنے لگے کہ تم بہت ہمّت والے لگتے ہو، میں نے ٹخنے پر اتنا زور لگایا، لیکن تم نے اُف تک نہیں کیا، لوگ تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ ہم انھیں حیران اور شاید کسی قدر پریشان چھوڑ کر واپس اپنے ریسٹ ہاؤس میں آگئے۔ مجھے آج بھی وہ بزرگ اور ان کا حیران ہونا یاد ہے۔ میں کیسے بولتا کہ اپنی آواز ہی گنوا چکا تھا۔ واقعی اگر میری قوتِ گویائی سلامت ہوتی، تو میں چیخ ہی پڑتا، کیوں کہ اس قسم کی زور آزمائی یقیناً شدید تکلیف کا باعث بنتی ہے۔''

عرصے بعد گویائی لوٹنے پر کاشف خان نے خدا کا شکر ادا کیا اور وہ اسے اپنی والدہ کی دعاؤں کا مظہر بتاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ آج اگر ان کے ساتھ اس طرح کی زور آزمائی کی جائے تو وہ بھی آسمان سر پر ہی اٹھا لیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔