کہاں تک سنوگے کہاں تک سناؤں

امن و امان کے لیے اگر دلائل دے کر لکھا جائے تو یہ برا مان جاتے ہیں


م ش خ July 21, 2016

آج میں کچھ ایسے موضوعات پر قلم اٹھانے کی جسارت کر رہا ہوں جو یقینا قارئین کے دل کی آواز ہوں گے بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں مگر کیا کروں حکومت کی کوتاہی کے حوالے سے لکھوں تو حکومتی دوست ناراض ہو جاتے ہیں۔ وطن سے محبت کی بات کروں تو قانون کی کتابیں مٹی کا ڈھیر نظر آتی ہیں اور لاقانونیت کا پرچم سب سے بلند نظر آتا ہے۔ کرپشن کے حوالے سے اگر بات کروں تو کچھ سیاستدانوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا تذکرہ کروں تو کچھ چہرے غصے سے سرخ ہو جاتے ہیں۔

امن و امان کے لیے اگر دلائل دے کر لکھا جائے تو یہ برا مان جاتے ہیں مگر حکومتی اداروں اور اپوزیشن والے سب دوستی کی ٹرین میں سوار ہیں صرف قوم کو دکھانے کے لیے اس ٹرین کے انجن کو بار بار فیل کیا جاتا ہے سب مسافر انجن فیل ہونے کی صورت میں ٹرین سے باہر آتے ہیں تو یہ بھی باہرآ جاتے ہیں اور جب ٹرین چلتی ہے تو تمام مسافر ان ڈبوں میں چڑھ جاتے ہیں جہاں نہ پانی ہے نہ لائٹ ہے اور یہ سیاسی لوگ بھی اپنے عالی شان ڈبے میں سوار ہو جاتے ہیں جو ضروریات زندگی سے بھرپور ہے مگر یہ لفاظی کی ٹرین میں عوام کے ساتھ ہی ہیں انھیں ذرا فکر نہیں کہ اس ملک میں قتل عام، لوٹ مار،کرپشن، چور بازاری، رشوت ستانی، بھتہ خوری، غرض ہر برا کام دل کھول کر اس مملکت خداداد میں ہو رہا ہے قانون ریت کی دیوار کی شکل اختیار کر گیا ہے جب بھی کسی کرپشن یا قتل سے پردہ اٹھایا جاتا ہے اور جب نام منظر عام پر آتے ہیں ملزم مجرم بنتے ہیں تو پھر مجرم کے نام سے وابستہ سیاسی جماعت کی اعلیٰ قیادت اعلان کرتی ہے کہ اس مجرم کا اس پارٹی سے کوئی تعلق نہیں اور دیا گیا بیان اس کی ذاتی رائے ہے۔ یہ اوپر والے کی ذات کو معلوم ہے کہ کون سچا ہے اور کون فریبی ہے ۔

گزشتہ کئی ماہ سے شہر کراچی ٹریفک، قتل و غارت گری، لوٹ مار جیسے پیچیدہ مسائل سے دوچار ہے اور ناقابل تلافی نقصان عوام اٹھا رہے ہیں کراچی اور اسلام آباد سے سیاسی بونگی دلیلیں دی جا رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ کے حوالے سے پریس کانفرنس کرکے غربت سے لتھڑے مفلوک الحال غریبوں کے کس بل نکال دیے ہیں جن سے ان کی چیخیں نکل گئی ہیں ان کروڑوں خاندانوں کے لیے کوئی اچھی نوید نہیں سنائی گئی بلکہ اس قدر دل دہلا دینے والی مہنگائی کی وجہ سے دل خراش خبریں اور مناظر چینلز پر نظر آتے ہیں کوئی خودکشی کر کے عذاب کی دنیا سے دور چلا جاتا ہے کوئی معصوم عورت غربت کی بے حالی کی وجہ سے بچوں سمیت دریا کو لحد کا درجہ دے دیتی ہے۔ جس پیمانے پر مفلسی ہماری گلیوں ہمارے محلوں اور ہمارے شہروں کی زینت بنتی جا رہی ہے یہ لمحہ فکریہ سے کم نہیں کیونکہ میں بھی غربت کی ریت اپنی طرف اڑتے ہوئے دیکھتا ہوں میں بھی اس ملک کا شہری ہوں، درد دل میں بھی رکھتا ہوں، یہ اقتدار پر سوار اشرافیہ، صاحب حیثیت بہت سکون کے ساتھ ہر بجٹ کے بعد زندگی کے مزے لیتے رہتے ہیں، ادھر وفاقی حکومت نے ٹیکسوں کی نئی شرح کے اطلاق کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔

بزرگ حضرات پہلے مثال دیا کرتے تھے کہ گھرکی مرغی دال برابر اب یہ مثال ہو رہی ہے کہ گھر کی دال مرغی کے برابر۔ وفاقی حکومت نے موبائل فون، سیمنٹ، مشروبات، ذائقہ دار دودھ، ڈبہ پیک دودھ، بچوں کے زیر استعمال کتابیں اور دیگر اسٹیشنری 3 سے 5 فیصد مہنگی کر دی ہیں۔ مرغیوں کی خوراک کے لیے درآمدی خام مال پر جو 27 فیصد ٹیکس تھا ان میں اس شرط پر اضافہ نہیں کیا جائے گاکہ پولٹری انڈسٹری سارا سال یعنی کے 2016ء اور 2017ء میں زندہ مرغی ڈیڑھ سو روپے اور 200 روپے کلو مرغی کا گوشت صارفین کو دی گئی پولٹری انڈسٹری کے وفد نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو یقین دلایا کہ وہ صارفین کو سستی مرغی فراہم کریں گے۔ وفاقی سطح کے تمام پنشنرز کی پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے فضائی سفر کرنے والے مسافروں کے لیے ایئرٹکٹ پر تین ہزار روپے ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

مزدور کی تنخواہ 14 ہزار مقرر کی گئی ہے۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ کسی بھی گھر کا بجٹ اس رقم میں مکمل نہیں ہو سکتا۔ ریسرچ اور تحقیق کرنے والوں نے بجٹ میں غریبوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ پیش ہونے والا بجٹ تو مفلس اور غریب کے لیے غم و الم کی داستان بن گیا ہے موبائل فون، سیمنٹ، مشروبات، فضائی سفر یہ سب تو امیروں کی پٹاریاں ہیں، ان کا غریب سے کیا تعلق بچوں کے زیر استعمال اسٹیشنری پر جو ٹیکس لگایا گیا ہے اس سے امیروں کا کیا تعلق ان کے بچے تو ماہانہ فیس پچیس ہزار بھی دے سکتے ہیں مگر اس غریب کے بچے کا کیا ہوگا جس کے کلاس روم کی چھتیں بارش میں ٹپکتی ہیں۔

معصوم بچے کتابوں اور کاپیوں سے گرمیوں کے زمانے میں پنکھے کا کام بھی لیتے ہیں رہا معاملہ مرغی کا تو اس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور اب تو دال بھی شرما کر چڑچڑے پن کا شکار ہو گئی ہے۔ زندہ مرغی رمضان میں پونے دو سو روپے اور گوشت دو سو پچھتر روپے فروخت ہوتا رہا ہے شہر کراچی میں پچیس ہزار دکانیں ہیں مرغی فروشوں کی۔ جب کہ اخبارات کے مطابق مرغی مہنگی فروخت کرنے پر صرف 60 دکانداروں کے چالان ہوئے عوام کوئی بڑی تبدیلی کے خواب نہیں دیکھ رہے وہ تو صرف قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں ۔

اب کراچی کے رہنے والے اکتاہٹ کا سفر طے کر رہے ہیں، اگر حکومتی ارکان کو کچھ کرنا ہی نہیں ہے تو کام چور افسران کی جگہ روبوٹ افسران مقررکر دیے جائیں تا کہ گلے شکوے ختم ہوں ۔ ای او بی آئی پنشنرزکو صرف 5250 روپے ملتے ہیں، اب بجٹ کے بعد انھیں کیا ملتا ہے اس کا اس تحریر کو لکھنے تک تو فیصلہ نہیں ہو سکا۔ دیکھتے ہیں کہ اس معاملے میں کیا زمین اور آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں جب کہ حکومتی اعلان کے بعد تو کم ازکم 7000 ہزار روپے ملنے چاہئیں مزے کی بات دیکھیں کہ ای او بی آئی میں بھی کرپشن کا جن گھس گیا اب کیس عدالت میں ہے۔

ہمارے ملک میں افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ان عمر رسیدہ لوگوں کی بھلائی کے لیے کوئی مثبت قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ پنشن بھی مردہ دل کے ساتھ دی جا رہی ہے، پنشن کی توسط سے چلنے والے گھروں میں صف ماتم ہے 10 فیصد پنشن بڑھا کر 40 فیصد مہنگی اشیا مسائل کی کھڑکیاں کھول کر عمر رسیدہ لوگوں کو کوس رہی ہے۔ اس من پسند بجٹ پر اپوزیشن نے خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیا اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان نے اپنے حقوق اور مراعات کے لیے غریبوں کی غربت کی دھجیاں اڑا کر اپنے حق میں ایک تحریک کو لمحوں میں منظور کرا لیا ۔اب ایک اندازے کے مطابق ہر رکن اسمبلی کی سہولتوں میں اچانک دس گنا اضافہ ہو جائے گا دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کریں کیا ارکان اسمبلی ان مراعات کے بعد بھی عوام کی خدمت کا حق ادا کرسکیں گے ۔ حکومتی ارکان اور اپوزیشن والے اپنے حقوق کے لیے دلوں پر مصلحت کا قفل ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مفلس لاچار اور غربت میں لتھڑے ہوئے غریب کے لیے تو شاعر جون ایلیا کا یہ شعر ہی کافی ہے:

جو گزاری نہ جاسکی ہم سے

ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں