غزہ
تازہ زخم کی کہانی، سینہ سَپر حوصلے کا قصہ۔
غزہ کے معصوم شہریوں پر گذشتہ ایک ہفتے تک جاری رہنے والی اسرائیلی یلغار بالآخر 167فلسطینیوں، جن میں خواتین اور معصوم بچے بھی شامل ہیں، کی شہادت اور ناقابل تلافی مالی نقصان کے بعد فریقین کے مابین امن معاہدہ پر ختم ہو گئی اور یوں گذشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیلی حملوں کا نشانہ بننے والے معصوم افراد ایک مرتبہ پھر اس امید پر اپنی زندگی کا سفر شروع کریں گے کہ شاید یہ معاہدہ اُن کی زندگیوں کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو۔
گذشتہ آٹھ روز تک غزہ میں آگ اور خون کی جو ہولی کھیلی گئی، اس سرزمین کے باسی کئی عشروں تک اُس کے نتائج جھیلتے رہیں گے۔ ایک ہفتے تک پوری دنیا نے اخبارات کے صفحات، ٹیلی ویژن اسکرینوں اور انٹرنیٹ پر ایسے ایسے الم ناک مناظر کی جھلکیاں دیکھیں کہ رونگھٹے کھڑے ہو جائیں، کوئی باپ اپنے نومولود بچے کی لاش اُٹھائے ہوئے ہے تو کوئی ماں اپنے لخت جگر کی لاش پر نوحہ کناں ، کوئی تباہ شدہ ملبے سے اپنے پیاروں کی لاشیں نکال رہا ہے، تو کوئی نوجوان اسٹریچر پر لیٹے اپنے زخمی بھائی کو طبی امداد کی فراہمی کے لیے دوڑرہا ہے۔
مگر مجال ہے کہ کسی فسطینی کے قدم لڑکھڑائے ہوں، کسی کی زبان پر کوئی شکوہ ہو اور کوئی اسرائیلی جارحیت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو تیار ہو، بل کہ وہ اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقت ور دشمن، جسے بھرپور عالمی مدد حاصل ہے، کے امن معاہدے کی میز پر بیٹھنے کو فخریہ اور بجا طور پر اپنی فتح قرار دیتے ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ اُسے یہ جیت صبر و استقامت اور اپنے خون کا نذرانہ دے کر حاصل ہوئی ہے اور یہ فلسطین کی آزاد ی کے لیے اہم قدم ہے۔
فلسطینیوں نے اپنی تمام شرائط منوالی ہیں۔ ان شرائط کے مطابق اب سرحدیں کھول دی جائیں گی اور اسرائیل فلسطینیوں کو قتل اور تباہ کرنے کا سلسلہ بند کر دے گا۔ غزہ پر اسرائیلی حملے کے دوران دھوئیں کے بادلوں اور خونِ ناحق کے چھینٹوں نے کیا کیا منظر بنائے، فریقین کے مابین جنگ بندی معاہدے کے بعد کیا صورتِ حال ہے، کیا اہم واقعات رونما ہو ئے اور دنیا کا اُن واقعات پر کیا ردعمل رہا ، ہم کوشش کریں گے کہ اس تحریر میں اُن پر سرسری نگاہ دوڑائی جائے۔
کَل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ نومولود بچے حماس کے شہید کمانڈر احمد الجباری اور فجر میزائل سے موسوم
اسرائیل اور حماس کے مابین حالیہ شورش غزہ کے عوام پر کس قدر اثر انداز ہوئی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ غزہ کی پٹی پر رہنے والے بعض والدین اپنے نومولود بچوں کے نام جنگ کے موقع پر گونجنے والی اصطلاحات سے متاثر ہو کر رکھ رہے ہیں، جن میں حماس کے مقتول کمانڈر احمد الجباری کے علاوہ اسرائیل پر داغے گئے میزائل ''الفجر'' کے نام شامل ہیں۔ غزہ کے ایک باشندے محمد الشریف ابونساط اپنے نومولود بیٹے کا نام ''فجر '' رکھ رہے ہیں ۔
اُن کا کہنا ہے کہ وہ یہ نام رکھ کر ایران کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ اُن کے خیال میں یہ وہی راکٹ ہے جو ایران نے غزہ کو فراہم کیے اور جس کی بدولت فلسطینیوں نے آٹھ روز تک دشمن کو اپنے عزائم میں کام یاب نہیں ہونے دیا۔ غزہ کی پٹی ہی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون عامرہ ابو ایسوس نے کہا کہ وہ اپنے آنے والے بچے کا نا م ''فجر'' رکھیں گی۔
اُن کا کہنا ہے کہ اُس کے بچے کا نام فلسطینی مزاحمتی تحریک میں سرفہرست ہو گا۔ یہ وہی راکٹ اُٹھائے گا جس کے نام پر اس کا نام رکھا گیا ہے، تاکہ فلسطین کو اسرائیلی قبضے سے پاک کیا جائے۔ غزہ سٹی کے ایک اور باشندے احمد مرتجیٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کا نام احمد جباری رکھے گا، تاکہ اسرائیل پر یہ باور کرایا جائے کہ احمد جباری کے قتل کا یہ مطلب نہیں کہ فلسطینی قوم نے ہیرو پیدا کر نا چھوڑ دیے ہیں۔
مفلوک الحال معیشت کو مزید 1.2 ارب ڈالر کا نقصان
حماس کی حکومت کے مطابق حالیہ جھڑپ میں فلسطینی معیشت کو 1.2 ارب ڈالر کا نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ اس سے قبل فلسطین چیمبر آف کامرس نے غزہ کو معاشی طور پر تباہ حال علاقہ قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ حماس کے ترجمان طاہر النونو کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے براہ راست حملوں میں جو نقصان ہوا ہے اُس کی بحالی کے لیے 545 ملین ڈالر، جب کہ بلا واسطہ نقصانات کا تخمینہ700 ملین ڈالر ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر جو نقصان اُٹھانا پڑا وہ ایک 1.245 ارب ڈالر ہے۔
سُنسان سڑکوں پر جشن ہوا برپا
امن معاہدے کے فوری بعد غزہ میں لوگوں کی کثیر تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور اُنہوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ کوئی آتش بازی کر رہا تھا تو کوئی فائرنگ، 8 روز تک جو سڑکیں سائیں سائیں کر رہی تھیں، وہاں اب ہر طرف نوجوانوں کے ہجوم اور ٹریفک کا رش دکھائی دیا۔ اشیائے خورونوش کی دکانوں پر طویل قطاریں نظر لگ گئیں۔ اگر چہ معاہدے کے حتمی ہونے سے متعلق بعض لوگ اب بھی شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں، تاہم لوگ اس حوالے سے پرامید نظر آئے کہ اُنھیں اپنی زندگی کو بہتر بنا نے کا موقع میسر آگیا ہے۔
بم گِرے غزہ پر تباہ ہوئی اسرائیلی سیاحت
اسرائیل کے بڑے ہوٹلوں کی ایک یونین کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق غزہ پر آٹھ روز تک جاری رہنے والی بم باری کی وجہ سے اسرائیلی ہوٹلوں کو پہنچنے والا نقصان 558 ملین ڈالر تک جاپہنچا۔ دوسری طرف یونین کے سربراہ عامی قدر مان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے اندر سیاحت کے شعبے کو بحال کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی اقتصادی جریدے ''ذی مارکر'' کے مطابق اسرائیل میں سیاحت کے شعبے کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ جنگ سے قبل اسرائیل جانے کا ارادہ رکھنے والے 20 فی صد سیاحوں نے اپنے اسرائیل کے دورے منسوخ کر دیے۔ اسرائیلی وزارت سیاحت نے اس شعبے کو لاحق ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے فی الفور ٹھوس اقدامات اُٹھانے کا اعلان کیا ہے۔
فلسطین کے کچھ اور پھول۔۔۔۔
جنہیں صیہونیت کی کالی آندھی نے مَسل ڈالا
8روز تک جاری رہنے والی اسرائیلی بربریت میں30 بچے بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ہلاک ہونے والے 158 میں سے 103 عام شہری ہیں، جن میں30 بچے بھی شامل ہیں، جن میں 12 بچے10 سال سے کم عمر کے ہیں، جب کہ400 سے زاید زخمی ہیں۔ بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تباہ کن اثرات مرتب کرنے والی یہ جنگ انسانی جانوں بالخصوص بچوں کے خطرناک ثابت ہوئی ہے۔
مصر کی اہم سفارتی کام یابی
اسرائیل اور فلسطین کے مابین حالیہ معاہدے میں غیرمتوقع طور پر معاہدے کا اہم فریق بننے پر مصر کو شان دار سفارتی کام یابی حاصل ہوئی ہے کیوں کہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ یہ معاہدہ اقوام متحدہ کے بجائے مصر میں طے پایا ہے۔ واضح رہے کہ مصر کے حماس کے علاوہ اسرائیل کے ساتھ بھی روابط ہیں۔ اس تضاد کے باعث اکثر یورپی حکومتیں اس مسئلے پر بات کر نے کے علاوہ حماس سے بھی مذاکرات سے کتراتی ہیں۔
یہی بنیادی سبب ہے جو امن کی کوششوں میں رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔ اگرچہ امن معاہدہ کا ابھی آغاز ہوا ہے لیکن مغربی ممالک، اقوا م متحدہ اور امریکا کی جانب سے مصر کے کردار کو سراہا گیا ہے اور یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکی صدر بارک اوباما کی خارجہ پالیسی کا محور ایشیا اور چین کے ساتھ تعلقات ہیں۔ عراق اور افغانستان میں اپنی کٹھن موجودگی کے باوجود امریکا کی یہ خواہش ہے کہ خطے کے مسائل کے حل کے لیے اہم فریق کے طور پر اُس کا کردار رہے ۔
دنیا اسرائیل کے خلاف اُٹھ
کھڑی ہو: احمدی نژاد
٭ایرانی صدر محمود احمد ی نژاد کی جانب سے امن معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ تاہم اُنہوں اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کو راکٹس کی سپلائی جاری رکھیں گے۔ اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی سے گفت گو کر تے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تمام اقوام اسرائیل کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوں ۔ واضح رہے کہ فجر فائیو میزائل نے حماس کی دفاعی طاقت کو نئی جہت فراہم کی ہے۔ 50 میل تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے والے اس میزائل نے اسرائیلی حملوں کے خلاف مزاحمت کے لیے حماس کو بھر پور قوت فراہم کی۔ دریں اثناء ایرانی صدر نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر تے ہوئے کہا کہ جنگ بہت بُری چیز ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جنگ سے بچنے کی کوشش کریں، لیکن دفاع ہر قوم کا حق ہے۔ اُدھر حماس کے سربراہ خالد مشعل نے میزائل فراہم کرنے پر ایران کا شکریہ ادا کیا ہے۔
میڈیا کوریج، اس مرتبہ اسرائیل بے بس
کسی بھی جنگ کے دوران میڈیا کوریج پر کافی پابندیاں عاید ہو تی ہیں لیکن اسرائیل کی غزہ پر حالیہ چڑھائی کے دوران ماضی کی طرح سختیاں نہیں نظر آئیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اسرائیل نے جذبۂ خیرسگالی کے طور پر اس مرتبہ میڈیا پر پابندیاں عاید نہیں کیں، بلکہ وجہ یہ ہے اب پابندیاں لگانا اُس کے اختیار میں نہیں۔ اس سے قبل جب اسرائیل غزہ پر چڑھائی کرتا تھا تو مصر میں اُس کا سب سے بڑا حامی حسن مبارک غزہ سے ملحقہ اپنی سرحد کو مکمل طور پر سیل کردیتا تھا، جس کی وجہ سے دونوں طرف کی آمدورفت مکمل طور پر بند ہوجاتی تھی۔ تاہم اس مرتبہ مصر کے نئے صدر محمد مرسی نے یہ سرحد کُھلی رکھی، جس کی بدولت کئی غیر ملکی صحافیوں کو غزہ میں براہ راست کوریج، اسرائیلی دعوئوں کو چیلینج کرنے، فلسطینیوں کی داستان بیان کرنے اور وہاں انسانیت کو درپیش مصائب محسوس کر نے اور دنیا تک پہنچانے کا موقع ملا۔
علاوہ ازیں مختلف این جی اوز اور راہ نمائوں کو بھی فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کا موقع ملا، جس کی وجہ سے میڈیا کوریج میں پہلے کی نسبت کئی گنا اضافہ ہوا۔ یہاں اگر ہم ویب ہیکنگ کا ذکر نہ کریں تو بات مکمل نہیں ہوگی۔ جنگ کی کوریج اور اسرائیلی حکام پر دبائو ڈالنے میں ویب ہیکرز نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا۔ بالخصوص معروف ہیکر گروپ ''اینو نیمس'' نے اسرائیلی حکومت کی ویب سائٹس پر حملے کیے اور اپنے ٹوئٹر اکائونٹ سے انہیں احکامات دیتے رہے کہ وہ غزہ میں بجلی کی سپلائی بحال کریں، تاکہ غزہ کے رہائشیوں کا اُن کے ساتھ رابطہ ہو۔
اگرچہ میڈیا پر پہلے کی طرح پابندیاں عاید نہیں تھیں، اس کے باوجود اکثر غیر ملکی صحافی غزہ کے بجائے اسرائیل میں موجود تھے، کیوں کہ اکثر نیوز چینلز کے دفاتر مقبوضہ علاقوں کے بجائے اسرائیل میں ہیں۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اسرائیلی حکام اب بھی اس قابل ہیں کہ وہ حقائق کو خلط ملط کر کے پیش کریں اور صحافی اسرائیلی متاثرین کو زیادہ کوریج دیں، کیوں کہ وہ ان کے زیادہ قریب ہیں۔
ٹیلی ویژن اسکرینوں پر اسرائیلی حملوں سے تباہ حال فلسطینیوں کے مکانات اور اُن پر ہونے والے مظالم کی کوریج سے اسرائیلی حکام کس قدر خوف زدہ تھے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے اسرائیل نے 2 مختلف حملوں میں 3صحافیوں کو شہید کر دیا۔ شہید ہونے والے صحافیوں میں سے 2 کا تعلق الاقصیٰ ٹیلی ویژن جب کہ ایک کا تعلق القدس تعلیمی ریڈیو سے ہے۔ اسرائیل نے ہمیشہ کی طرح اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہ کر اس مرتبہ بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان تینوں افراد کا تعلق چوںکہ حماس سے تھا اس لیے ان پر حملہ کرنے کا ہمارے پاس قانونی جواز ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی حکومت ان دونوں چینلز کو حماس سے منسلک قرار دیتی ہے۔
اُدھر الاقصیٰ ٹیلی ویژن کے سربراہ محمد تحورایا نے اسرائیلی بیان کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم حماس کی نہیں بلکہ فلسطینی عوام اور مزاحمت کی آواز ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے سب سے اہم فلسطین کاز ہے، جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کو اس سے باخبر کریں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایسے حملے پہلے بھی ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے الاقصیٰ نے یہ سیکھ لیا ہے کہ کس طرح سے کسی غیر معروف جگہ پر رہ کر اپنی نشریات جاری رکھی جائیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم پر حملے ہو رہے ہیں مگر اسرائیلی پروپیگنڈا اور حملے ہمیں اپنے پیغام کو دنیا تک پہنچانے سے نہیں روک سکتے۔