مہنگائی نہ گئی
رمضان میں موسم گرم رہنے کی وجہ سے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور ان کے وزیر ٹھنڈے کمروں سے نہیں نکلے
اس بار بھی عیدالفطر ماضی کی طرح گزر گئی اور مسلمان روزے دار اپنے ہی مسلمان منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھوں ہمیشہ کی طرح لٹے بلکہ پہلے سے زیادہ لٹے کیوں کہ اسلام تو خاص طور پر مسلمانوں کو ناجائزمنافع خوری اورذخیرہ اندوزی کی اجازت نہیں دیتا مگر ہماری ہی منتخب نام نہاد جمہوری اور عوامی حکومتوں نے ناجائز منافع خوروں کو ماہ صیام میں عام لوگوں اور خصوصاً روزہ داروں کو لوٹنے کی اجازت دے رکھی ہے اورگراں فروشی روکنے کے جو سرکاری احکامات ہوتے ہیں وہ محض کاغذی اوردکھاوے کے ہوتے ہیں۔ فوجی حکومتوں میں ناجائزمنافع خوروں کو اﷲ کا تو نہیں فوجیوں کا ضرور خوف ہوتا تھا جن کی پکڑ میں آکر سخت سزائیں ملتی تھیں۔
وفاقی حکومت مطمئن ہے کہ گراں فروشی صوبائی مسئلہ ہے اور صوبائی حکومتوں کو وہاں کی بیورو کریسی مطمئن کردیتی ہے کہ تمام انتظامات مکمل ہیں۔ اشیائے خورونوش کے نرخ طے کرکے قیمتوں کی فہرستیں مارکیٹوں میں فراہم کردی جائیںگی اورگراں فروشوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی جس کے بعد سائیں سرکار ہو یا بلوچستان کی نواب سرکار،کے پی کے میں کمزور نظر آنے والے وزیراعلیٰ کی کمزور حکومت یا خادم اعلیٰ کی مضبوط حکومت سب نے گراں فروشی کا سدباب بیوروکریسی پر چھوڑ کر سب اپنے اپنے بجٹ منظور کرانے میں لگ گئے اور حسب معمول کامیاب رہے اور غریب عوام ہمیشہ کی طرح مہنگائی سے بچنے میں ناکام رہے۔
رمضان میں موسم گرم رہنے کی وجہ سے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور ان کے وزیر ٹھنڈے کمروں سے نہیں نکلے جنھیں دیکھ کر ملک بھر میں کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں نے بھی گراں فروشی کو اپنے ماتحتوں کے حوالے کردیا۔ جب بڑوں کو فکر نہ ہو تو چھوٹے کیوں فکر کرتے۔ روزے داروں نے مہنگے پھلوں کو خرید کر روزے کھولے اور جن کی پھل خریدنے کی استطاعت نہیں تھی انھیں کھجوریں بھی میسر نہ آئیں ۔انھوں نے سادگی سے نمک اور پانی سے روزہ کھول کر حکومت کی طرف دیکھا مگر پنجاب کے علاوہ انھیں مارکیٹوں، بازاروں توکیا غریب کہلانے والے پتھاروں اور ریڑھی والوں کے پاس بھی کہیں نظر نہ آئی اور آخر ماہ صیام منافع خوروں کی تجوریاں غریب ریڑھی والوں کی جیبیں اور سرکاری خزانہ جرمانوں سے بڑھواکر رخصت ہوگیا۔
شکارپور کے ایک صحافی دوست غلام مرتضیٰ ابڑو نے ایک مختصر افسانے کا ایس ایم ایس بھیجا ہے جس میں اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والا مزدور انتہائی بے چارگی سے اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ پریشان نہ ہو صبر کر یہ مقدس مہینہ گزر جانے دے ساری چیزیں پھر سے سستی ہوجائیں گی۔
چند سالوں تک تو ایسا ہی ہوتا تھا مگر اب یہ بات بھی نہیں رہی۔ ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز اب تو رمضان سے قبل ہی مصنوعی قلت پیدا کرکے نرخ بڑھادیتے ہیں اور پھل، سبزیاں اور دیگر اشیا جن کا ذخیرہ ممکن نہیں ان کے نرخ یکم رمضان کو ہی بڑھادیے جاتے ہیں جب کہ عید سے قبل کپڑوں، گارمنٹس اور دیگر اشیا کے نرخ بڑھتے بڑھتے چاند رات کو انتہا پر پہنچ جاتے ہیں۔ دیکھنے کو مارکیٹوں، بازاروں میں رش نظر آتا ہے مگر لوگ نرخ سن کر گھر واپسی میں ہی عافیت سمجھتے ہیں کیوں کہ ہر شخص اپنی جیب کی اجازت کے مطابق ہی خریداری کرتا ہے اور اشیائے ضرورت انتہائی مہنگی دیکھ کر انتہائی ضروری خریداری ہی کرتا ہے اور حکومت اور گراں فروشوں کو کوستا ہوا لوٹ جاتا ہے۔
ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور رمضان کے آتے ہی وہ لوگ بھی نمازیں شروع کردیتے ہیں جو جمعے کی جمعہ مسجد دو فرض پڑھنے آتے ہیں، رمضان کا احترام دکھانے والے دکاندار حضرات بھی پیش پیش ہوتے ہیں جب کہ پتھارے اور ریڑھی والے بہت کم ہی مسجدوں میں نظر آتے ہیں اور پوچھنے پر عذر پیش کرتے ہیں کہ ریڑھی پتھارا خالی چھوڑ کر کیسے نماز پڑھیں۔ دین اور نماز سے عاری ایسے لوگوں کو رمضان کا احترام ہے نہ مجبور مسلمانوں کے مالی مسائل کا احساس، ناجائز منافع خوری میں باریش تاجر خواہ وہ حاجی صاحب ہوں یا نمازی مگر رمضان میں اپنے مسلمان بھائیوں کو لوٹنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔
اخلاص سے عاری یہ لوگ کمانے کی ہوس میں انسانیت سے بھی گرجاتے ہیں اور مہنگائی کا جواز رمضان میں جھوٹ بول کر اور جھوٹی قسمیں کھاکر یہ پیش کرتے ہیں کہ مال اوپر سے ہی مہنگا آرہاہے کیا کریں مجبور ہیں۔ عام دکانداروں اور ریٹیلرز یہ شکایت کرتے ہیں کہ حکومت مہنگائی پر ہمیں پکڑتی ہے مگر ہول سیلرز کو نہیں پکڑاجاتا جو ہمیں مہنگا مال دیتے ہیں۔ یہ شکایت کسی حد تک جائز ہوسکتی ہے مگر حقیقت نہیں کیوں کہ پھلوں اور سبزیوں کی ہول سیل منڈیوں میں پھل اور سبزی اتنی مہنگی نہیں جتنی مارکیٹوں، بازاروں اور ریڑھی پتھارے والوں کے پاس مہنگی ہوتی ہیں۔
اشیائے ضرورت کی ہول سیل مارکیٹوں اور ریٹیلرز کے نرخوں میں نمایاں فرق ہوتا ہے بڑے تاجروں کے مقا بلے میں ریٹیلرز ڈھٹائی سے اشیا مہنگی فروخت کرتے ہیں۔ پھل اور سبزی فروخت کرنے والے یہی ناجائز منافع خور ہیں جن کے صبح اور دوپہر کے نرخ زیادہ ہوتے ہیں اور شام ہوتے ہی یہ لوگ ہی آوازیں لگاتے ہیں کہ ''ہوگئی شام گرگئے دام'' کیوں کہ فروخت نہ ہونے پر مال خراب جو ہوجاتا ہے۔
اب عید گزرنے کے بعد بھی پھلوں، سبزیوں کی قیمتیں کوئی خاص کم نہیں ہوتیں کیوں کہ رمضان میں بے شرمی سے اپنے مسلمان بھائیوں کو لوٹنے والے یہ بے ضمیر لوگ مہنگا مال فروخت کرنے کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں اور ان کا دین و ایمان مال بنانا ہوکر رہ جاتا ہے اور ان کے نزدیک کیا رمضان اور کیا عام دن انھیں عوام کو لوٹنا ہے جنھیں نہ خدا کا خوف ہے نہ سرکار کا ڈر۔ رمضان گزر گئے، حکام تو اب آیندہ رمضان میں جاگیں گے اس لیے اب رمضان کے بعد بھی قیمتیں کم نہیں ہورہیں۔