آزادی کی نئی لہرنے بھارتی سرکار کو بے بس کردیا

کشمیر کے گلی کوچے ’’برہان وانی! تم زندہ ہو‘‘ اور ’’بھارتیو! واپس دفع ہو جاؤ‘‘ کے نعروں سے گونج رہے ہیں


کشمیر کے گلی کوچے ’’برہان وانی! تم زندہ ہو‘‘ اور ’’بھارتیو! واپس دفع ہو جاؤ‘‘ کے نعروں سے گونج رہے ہیں ۔ فوٹو : فائل

آٹھ جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی شہادت نے تحریک آزادی کشمیر کو ایسا رنگ روپ دیا جس کے خواب دنیا بھر کی تحاریک آزادی دیکھتی ہیں۔ برہان وانی کا جنازہ ہی دیکھ لیجئے، ایک رپورٹ کے مطابق چالیس بار نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں 20 لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ یہ بیس لاکھ لوگ ترال اور اردگرد کے علاقوں ہی کے تھے، ریاست جموں وکشمیر کے باقی حصوں سے لوگوں کی راہ میں بھارتی فوج رکاوٹ بن گئی۔ تب سے اب تک کشمیر کے تمام شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں نوجوان جمع ہوتے ہیں اور آزادی کے نعرے لگاتے ہیں۔ صرف مرد ہی نہیں خواتین کے بڑے بڑے مظاہرے بھی جاری ہیں، انٹرنیٹ میں سینکڑوں ویڈیوز موجود ہیں جس میں وہ بھارتی فوج کی موجودگی میں آزادی کے فلگ شگاف نعرے لگاتی ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کی اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جہاں بھارتی فوج ہے ، وہاں کشمیری نوجوان اس پر سنگ باری کررہے ہیں، نوجوانوں کا ہتھیار یہی پتھر ہیں، وہ مسلسل سیکورٹی فورسز پر سنگ باری کرتے ہیں، جب قابض فوج ان پر شیلنگ یا فائرنگ کرتی ہے تو وہ ادھر ادھر کی گلیوں میں گھس جاتے ہیں، بھارتی فوجی ان کے پیچھے گلیوں میں جانے کی ہمت نہیں رکھتے کیونکہ ایسا کرنے پر نوجوان انھیں اغوا کرلیتے ہیں اور خوب تشدد کرکے چھوڑ دیتے ہیں۔ فوج پریشان ہے کہ آخر اس مشکل ترین صورت حال سے کیسے نمٹے!

اب کی بار جس نوجوان کی شہادت سے تحریک آزادی کشمیر شعلہ جوالہ میں تبدیل ہوئی، وہ جنوبی کشمیر کے علاقہ ترال کے شریف آباد گاؤں کا رہائشی برہان مظفروانی تھاجو بھارت کے لئے شدید دردسربن چکاتھا، حزب المجاہدین کے اکیس سالہ کم عمر کمانڈر برہان وانی کا خوف بھارت اور اس کی کٹھ پتلی محبوبہ مفتی سرکار کو اس قدر زیادہ تھا کہ ذکر نام نہادکشمیر اسمبلی میں بھی ہوتا تھا ، بعض ارکان نے تقریریں کیں کہ حکومت کو مظفروانی سے مذاکرات کرنے چاہیں۔

دراصل اس شیردل نوجوان نے کشمیر میں جدوجہد آزادی کو ایک نئی جہت عطاکی، بھارتی فوج کے ہاتھوں اس کے بڑے بھائی کی شہادت ہوئی تو وہ ایک حیرت انگیز کردار کے طورپر مسلح تحریک مزاحمت میں شامل ہوا، اس نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر پہلی بار کشمیر کی تحریک آزادی کو نیا رخ دیا۔اس کے ویڈیو سوشل میڈیا پر آنے لگے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی اپیل پر جنوبی کشمیر میں سینکڑوں نوجوان تحریک مزاحمت میں شریک ہوئے۔ بھارتی حکام اور ذرائع ابلاغ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ برہان وانیکے پیغامات سے پورا مقبوضہ کشمیر متاثر ہورہاتھا، صحافی اور نوجوان بھارتی فوج کے خلاف مجاہدین اور سنگ باری کرنے والوں کی کارروائیاں ریکارڈ کرتے تھے، کشمیریوں کے ساتھ مظالم کو بھی ویڈیو میں ریکارڈ کرتے اور حزب المجاہدین کو فراہم کرتے تھے۔ اسی طرح فوج اور پولیس کے بارے میں اطلاعات بھی بڑے پیمانے پر ملنے لگی تھیں، انہی معلومات کی بنا پر گزشتہ ایک عرصہ سے فوج اور پولیس پر حملے تیز ہوئے۔ اس کی شدید پریشانی بھارتی سرکار کو لاحق تھی۔



برہان وانی کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے بھی بھارتی حکومت خاصی پریشان ہے۔ برطانوی خبررساں ادارے 'بی بی سی' کے مطابق انڈیا کی مرکزی حکومت اس پورے معاملے میں جموں و کشمیر کی ریاستی حکومت کی کارکردگی سے خوش نہیں ہے، شاید مودی سرکار چاہتی ہے کہ ریاستی سرکار تحریک آزادی کے اس نئے مرحلے کو کسی بھی قیمت پر کچل دے تاہم محبوبہ مفتی سرکار ایسا کرنے میں اپنے آپ کو بے بس محسوس کررہی ہے۔ وہ سیکورٹی فورسز سے التجا کررہی ہے کہ مظاہرین کے خلاف مہلک کارروائیاں نہ کی جائیں۔ ظاہرہے کہ مودی کی فوج محبوبہ کی التجا پر دھیان کیوں دے گی۔ اہم بات یہ بھی ہے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور ان کی وزرا بھی موجودہ صورت حال سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ برہان وانی کے خلاف کوئی لفظ بھی منہ سے نہیں نکال رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟
ریاست جموں وکشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کا کہناہے کہ برہان وانی کے واقعہ کے بعد حالات مزید خراب ہوں گے۔ برہان وانی پہلا شخص تھا جس نے بندوق اٹھائی نہ ہی آخری شخص تھا''۔ اس بیان پر عمرعبداللہ کو بھارتی میڈیا اور بعض بھارتی تجزیہ کاروں کی طرف سے کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، کہاگیا کہ بھارتی فوج کی حفاظت میں رہنے والے شخص کو ایسا بیان زیب نہیں دیتا۔

برطانوی خبررساں ادارے 'بی بی سی ' ٹی وی چینل نے اپنی ایک رپورٹ میں ہزاروں کشمیری نوجوانوں کے ایک مظاہرے کا منظر دکھاتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں ایسے مناظر برسوں سے معمول بن چکے ہیں۔ مظاہرے میں نوجوان پاکستانی پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ رپورٹ میں کہاگیا '' کئی برسوں بعد وادی شدید تناؤ کا شکار ہوچکی ہے۔ سخت کرفیو، ناکہ بندی، انٹرنیٹ پر پابندی اور آئے روز ہلاکتوں کی وجہ سے پوری وادی سراپا احتجاج بن چکی ہے، ہزاروں لوگ برہان وانی کے جنازے میں شریک ہوئے،تاہم جنوبی کشمیر میں جنازے کے لئے جانے والوں کو سرکاری فورسز نے فائرنگ کرکے روکا''۔

مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کشمیر کے جوبن کو دیکھ کر بھارتی میڈیا پر تجزیے اور تبصرے کرنے والوں کے بھی پسینے چھوٹے ہوئے ہیں۔ وہ اعتراف کررہے ہیںکہ مقبوضہ کشمیر میں حالات قابو سے باہر ہوچکے ہیں تاہم انھیں سمجھ نہیں آرہی کہ دوبارہ تسلط کیسے قائم کیاجائے۔ 'زی' ٹی وی پر ایک خاتون اینکرادتی تیاگی کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے، وہ بھارتی حکومت پر تنقید کررہی تھی کہ برہان وانی کی لاش کیوں ورثا کو دی گئی، اس نے تجویز پیش کی کہ ایسے لوگوں کی لاشوں کو جلا دینا چاہئے۔

ایک دوسرے تجزیہ نگار راوندرشرما نے شدیدپریشانی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہماری غلطیوں کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ کہیں پر بھارتی فوج کشمیری مجاہدین کے خلاف کارروائی کرنے جاتی ہے تو وہاں کی آبادی مجاہدین کو بچانے کے لئے آجاتی ہے اور بھارتی فوج پر پتھراؤ شروع کردیتی ہے۔ گزشتہ آٹھ دس ماہ میں جس طرح بھارتی فوج پر کشمیری مجاہدین کے حملے بڑھے ہیں، یہ نہایت خطرناک صورت حال ہے۔ اس وقت لوگوں کے جذبات اس قدر تیز ہیں کہ بی جے پی کی کشمیری رہنما حنا بھٹ نے اپنی پارٹی کے موقف سے بالکل مختلف بیان دیا اور کہا کہ برہان وانی ایک معصوم نوجوان تھا، اس کی ہلاکت سے ایک ماں کی گود اجڑ گئی ہے۔ ایک تجزیہ کار کا کہناتھا کہ اگر برہان وانی کی لاش واپس نہ دی جاتی تو لوگ اس سے دوگنا زیادہ باہر نکلتے۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ برہان وانی کے خلاف کاروائی پر بھارتی سیاست دانوں کی طرف سے جس طرح سیکورٹی فورسز کو شاباش دینی چاہئے تھی، ویسی نہیں ملی۔ خاموشی ہی خاموشی ہے۔

تحریک آزادی کشمیر کے قائدین اور کارکنان کی مسلسل جدوجہد اور شہدا کی قربانیوں کے سبب اس وقت بھارت میں بھی تجزیہ کاروں اور ماہرین کے درمیان ایک واضح تقسیم پیدا ہوچکی ہے۔ ایک طبقہ کشمیر میں متعین بھارتی فوج کو ملنے والے بے پناہ اختیارات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ظالمانہ کارروائیوں کو کشمیر کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار قراردیتاہے لیکن دوسرا طبقہ ایسے تجزیہ کاروں کو مجاہدین کا ساتھی قرار دیتے ہوئے کہتاہے کہ وہ پاکستان کی زبان بول رہے ہیں۔

ایک تجزیہ نگار نے اعتراف کیا کہ اگر برہان وانی کی نمازجنازہ میں شرکت سے لوگوں کو روکنے کیلئے کرفیو بھی نافذ کردیاجاتا، تب بھی چالیس پچاس ہزار لوگ جمع ہوجاتے۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق حالات یہ ہیں کہ برہان وانی کے جنازے میں ہزاروں عام کشمیریوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں مسلح افراد بھی شریک تھے اور برہان وانی کو تھری والی سیلوٹ پیش کیا گیا۔

اس تناظر میں سمجھا جاسکتاہے کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی فوج کا تسلط تاریخ میں پہلی بار انتہائی کمزور سطح پر پہنچ چکاہے، تسلط برقرار رکھنے کے لئے بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں ای کرفیو بھی نافذ کردیا، انٹرنیٹ کی سروس کلی طورپر ختم کردی تاکہ برہان وانی کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی خبر باقی دنیاکو نہ ہو، کشمیری سوشل میڈیا پر اپنے جذبات کا اظہار نہ کرسکیں تاہم کشمیری اس پابندی کو بھی خاطر میں نہ لائے۔ انھوں نے دیواریں ان نعروں سے بھر دیںکہ ''برہان وانی! تم اب بھی زندہ ہو'' اور '' برہان وانی! تم کیسے ہمیں چھوڑ کے جاسکتے ہو؟''، ''بھارتیو! واپس دفع ہوجاؤ۔'' تاریخ میں پہلی بار پورے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی پرچموں کی بہار زیادہ بڑے پیمانے پر دیکھنے کو ملی اور تاریخ میں پہلی بار بیک وقت ہرشہرے میں ہزاروں نوجوانوں پر مشتمل مظاہرے شروع ہوگئے۔ تاریخ میں پہلی بار ہرگلی کوچے میں بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کے اس قدر زیادہ واقعات ہوئے۔

مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی سرکار نے حالات معمول پر لانے کیلئے کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں سے بھی تعاون کی اپیل کی تاہم کل جماعتی حریت کانفرنس کے سربراہ سید علی شاہ گیلانی ، میر واعظ مولوی عمرفاروق اور یاسین ملک نے اس اپیل کے ردعمل میں کہا ہے کہ حالات خراب کرنے میں سرکاری فورسز کا بنیادی کردار ہے۔ انھوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ 'حکومت نے اگر جلوسوں کو روکنے اور نہتے مظاہرین پر فائرنگ کرنے کا سلسلہ ترک نہ کیا تو حالات مزید خراب ہوجائیں گے جس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔' سیدعلی گیلانی نے کہا :'' نوجوانوں کے مظاہرے کل جماعتی حریت کانفرنس کے پروگرام کے تحت بھارت کے خلاف مزاحمت پر مبنی ہیں۔ وہ ہم سے سیکھتے ہیں، ہم سے اثر لیتے ہیں لیکن وہ ہم سے زیادہ پرعزم ہیں''۔

ماہرین کا کہناہے کہ بی جے پی سرکار مقبوضہ کشمیر کے حالات سے اس قدر زیادہ خوفزدہ ہے کہ اس نے حالات کو قابو میں لانے کے لئے اپنی روایتی پالیسی ترک کرنے کا اعلان کیا۔ یادرہے کہ بی جے پی قیادت کی پالیسی یہ رہی ہے کہ کشمیریوں سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن راج ناتھ سنگھ اور محبوبہ مفتی کی طرف سے ''نئے عمل کے آغاز'' کی باتیں اس پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دیتا ہے۔ مبصرین کا کہناہے کہ کشمیر میں ہلاکتوں اور زیادتیوں کے ماحول میں بات چیت کا عمل شروع نہیں ہوسکتا۔ ان کا کہناہے کہ سمجھ نہیں آتا حکومت ان علیحدگی پسندوں سے کیسے مدد مانگ رہی ہے، جو رہنما دو سال سے قید ہیں اور جنھیں جمعہ کی نماز تک پڑھنے کی اجازت نہ دی جاتی، وہ کس طرح بات چیت کا حصہ بنیں گے۔''

دختران ملت کی سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی کا کہنا ہے:'' اگرچہ مجاہدین کی ایک بڑی تعداد جام شہادت نوش کر رہی ہے تاہم مجاہدین کی تعداد میں روز افزوں اضافہ بھی ہورہا ہے۔ ہر دن نئے نوجوان مجاہدین کی صف میں شامل ہورہے ہیں جس سے بھارتی انتظامیہ اور افواج میں بوکھلاہٹ پیدا ہوگئی ہے۔ ہمارے غیور نوجوان اب مزید غلامی کی زندگی بسر نہیں کرنا چاہتے۔ الحمداللہ ! مجاہدین اپنی کاروائیوں میں سرعت لائے ہیں۔ پلوامہ کے دو جوانوں کو شدید ٹارچر کیا گیا لیکن انھوں نے معلومات فراہم کرنے کے بجائے شہادت کو ترجیح دی۔ یہ ہمارے لئے اور تحریک مزاحمت کیلئے ایک عظیم مثال ہے''۔



آزادی کے زوردار نعرے لگانے والا ایک نوجوان اپنی متاثرہ آواز میں کہہ رہاتھا: '' ہم پورے بھارت کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ یہاں صرف ایک برہان نہیں تھا، یہاں تو ہزاروں برہان میدان میں آرہے ہیں، اس لئے جموں وکشمیر میں ہرکوئی بالخصوص ترال کا ہرفرد برہان بننا چاہتاہے''۔

برہان وانی کے گروپ کا ایک مجاہد نصیر پنڈت کے والد کا کہنا تھا:'' اب حالات ویسے نہیں ہیں جیسے پہلے تھے، اب کشمیری مجاہدین اندر سے وادی میں زیادتیوں کی وجہ سے کھڑے ہو رہے اور بندوق اْٹھا رہے ارو زیادہ تر پڑھے لکھے نوجوان ہیں جن کو کوئی استعمال نہیں کر سکتا''۔

ماہرین کا کہناہے کہ برہان وانی شہید کی داستان شجاعت میں کئی پہلو پنہاں ہیں۔ ممتاز کشمیری مصنف اور دانشور سید سلیم گردیزی کہتے ہیں:

''پہلی بات تو یہ ہے کہ برہان اور ان کے ساتھی مجاہدین(بھارتی میڈیا کی اصطلاح میں عسکریت پسندوں) کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے میدان جہاد ہی میں آنکھ کھولی ہے۔ اذان کی آواز کے ساتھ ہی جو آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی وہ گولی اور ''ہم کیا چاہتے ہیں؟ آزادی'' کی آواز تھی۔ اس اعتبار سے مزاحمت اس نسل کے خمیر میں رچی بسی ہے۔

دوسرے یہ کہ یہ تحریک مکمل طور پر داخلی یا مقامی ہے جس میں پاکستان کا کوئی ہاتھ تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی عسکری تربیت کشمیر کے اندر ہی ہوئی ہے اور ان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بھی وہیں ہے۔

تیسرا یہ کہ بھارت سرکار، بھارتی ذرائع ابلاغ اور ان کے ہمنوا ڈھولچی اور طبلچی جو یہ پروپیگنڈا کرتے نہیں تھکتے تھے کہ کشمیری عوام عسکریت سے بیزار ہو چکے ہیں، برہان کے جنازے میں لاکھوں مرد و خواتین اور جوانوں کا والہانہ خراج عقیدت اور وادی میں بے مثال عوامی ردعمل نے ان کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔

چوتھا یہ کہ اس موقع پر وادی کے طول و عرض میں لہرانے والے پاکستانی پرچم کشمیریوں کے پاکستان کے ساتھ اٹوٹ رشتے کا والہانہ اظہار ہیں۔

پانچواں یہ کہ کشمیر کے یہ نئے مجاہدین صرف میدان تیغ و تفنگ کے شاہسوار نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی میں مہارت بھی رکھتے ہیں۔

آخری بات یہ کہ اس تحریک میں لامحدود عرصے تک بلکہ نسل در نسل دشمن کے اعصاب پر سوار رہنے کا جوہر پوشیدہ ہے۔

ظلم وتشدد کی ایک داستان
جنوری1989ء سے 30جون2016ء تک مقبوضہ کشمیر میں مجموعی شہادتوں کی تعداد94,391 ہے، دوران حراست شہید ہونے والوں کی تعداد 7,058 ہے۔ ایک لاکھ 35 ہزار سے 52 افراد کوگرفتار کیاگیا،106,071 عمارتوں کونقصان پہنچا ،22,816 خواتین بیوہ ہوئیں۔107,569 بچے یتیم ہوئے اور10,193خواتین گینگ ریپ کا نشانہ بنی۔گزشتہ ماہ جون2016ء میں 25افراد کو شہید کیاگیا، چار افراد کو زیرحراست شہید کیاگیا،228افراد کو شدیدترین تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔346شہریوں کو گرفتار کیاگیا،3املاک کو نذرآتش کیاگیا اور آٹھ خواتین گینگ ریپ کا نشانہ بنیں۔جب(17جولائی 2016کو) یہ رپورٹ لکھی جارہی تھی، ایک رپورٹ سامنے آئی کہ گزشتہ نو دنوں میں 45کشمیریوں کو شہید کیاگیا۔

انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی ڈاکٹر ریتا پال کہتی ہیںکہ بھارتی دارالحکومت دہلی میں ایک کشمیری نوجوان کو محض اس ''جرم '' میں گرفتار کیاگیا کہ اس نے ایک بینر تھام رکھاتھا، جس پر لکھا تھا: '' میں انصاف چاہتا ہوں''۔

بھارتی جرنیل نے ناکامی کا اعتراف کرلیا
بھارتی فوج کی شمالی کمانڈ کے اعلیٰ فوجی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہڈا نے غیرملکی خبررساں ادارے ' اے پی' سے بات کرتے ہوئے کہا: ''برسہابرس تک ''آپریشن سدبھاونا'' کے تحت پانی کی طرح پیسہ بہانے کے باوجود فوج کشمیر میں دل ودماغ کی جنگ جیتنے میں ناکامی سے دوچار ہورہی ہے۔ فوج کو 'ملی ٹینسی'کے خلاف نبردآزماحالت میں پچیس چھبیس برس گزرے اور مسلسل کارروائیوں کے نتیجہ میں اس نے 'ملی ٹینسی' کو بے حد نقصان پہنچایا مگر'ملی ٹینسی' نہ مری اور نہ فوج کو مقامی سطح پر 'ملی ٹینسی' کے خلاف عوامی حمایت حاصل کرنے میں کوئی نمایاں کامیابی مل سکی۔

عام شہریوں کی مداخلت سے فوج جنگجو مخالف کارروائیاں انجام دینے سے قاصر رہتی ہے۔ جب لوگوں کا اژدہام آپریشن کی جگہ پر پہنچ جاتا ہے تو فوج پریشان کن صورت حال سے دوچار ہوتی ہے۔ عوامی حمایت کے معاملے میں فوج جنگجوئوں کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتی ہے۔ جب ہجوم اردگرد جمع ہو تو فوج آپریشن انجام دینے میں آرام اور سکون کیسے محسوس کرسکتی ہے۔ فوجی لحاظ سے ہم نے جو کرناتھا کیاہے مگر ہم عوامی حمایت حاصل نہیں کرپاتے ہیں۔

دیگر فوجی حکام کا دعویٰ ہے کہ ملی ٹینٹوں کی عوامی حمایت سے نہ صرف انٹیلی جنس نظام کمزور ہورہاہے بلکہ فوج کی آپریشنل صلاحیت پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں کیونکہ جب تصادم کی جگہ پر لوگوں کا تانتابندھتاہے اور سنگ باری کے نتیجہ میں چھپے عسکریت پسندوں کو چھڑایا جاتاہے تو فوج بے بس ہوجاتی ہے اور آپریشن پر بانی پھر جاتاہے۔

سرکاری ایجنسیاں اس بات پر ہکا بکا ہیں کہ مجاہدین دن کے اجالے میں نمودار ہوکر پولیس اہلکاروں پر حملہ آور ہوئے اور پھر باآسانی بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ تعجب یہ ہے کہ انھیں اپنی شناخت چھپانے کی ضرورت تک محسوس نہیں ہوئی۔

پولیس حلقوں کے مطابق جنوبی کشمیر ایک آزادعلاقہ بن چکاہے جہاں ملی ٹینٹ کہیں بھی حملہ آور ہوتے ہیںا ور رفوچکر ہو جاتے ہیں۔ ایک پولیس افسر کا کہناہے : '' پولیس اہلکار بھرے بازارمیں چوزوں کی طرح مارے جاتے ہیں مگر ہم بے بسی سے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ ملٹی ٹینٹ ایسا صرف اسی وجہ سے کرسکتے ہیں کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ انھیں عوام کی پشت پناہی حاصل ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق سن 2010ء کے بعد پولیس پھر نشانہ بن رہی ہے۔ برہان وانی کی ویڈیو نے تہلکہ مچادیاہے جس میں اس نوجوان کمانڈر نے واضح کیاتھا کہ '' وہ پولیس کومزید وارننگ دینا ضروری نہیں سمجھتے اور اس پر حملوں کے بغیر چارہ نہیں ہے'' اس دھمکی آمیز ویڈیو سے نفسیاتی خوف پیدا ہورہاہے اور پولیس اہلکاروں کو اپنی شناخت چھپانے کی حکمت عملی اختیارکرنی پڑرہی ہے۔

برہان وانی شہید کا ایک ویڈیو پیغام جس نے بھارتی ایوانوں میں تہلکہ مچادیا
برہان مظفروانی اپنی ویڈیوز ( جو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ ہوتے ہی ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں لائک اور شئیر ہوتی تھیں) میں کیا کہتاتھا جس پر مودی سرکار لرز رہی تھی، آپ بھی جان لیجئے۔ مثلاً اس نے اپنے آخری ویڈیو پیغام میں کہا:'' جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم نے بہت سی کارروائیاں سرانجام دیں جن میں بھارتی فوج اور کشمیری پولیس کے اہلکار نشانہ بنے، بھارتی فوج تو ہماری دشمن ہے ہی لیکن کشمیری پولیس والے ہمارے اپنے بھائی ہیں لیکن وہ ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم ان کے خلاف کارروائیاں کریں۔ ہم نے انھیں پیغام دیاتھا کہ وہ ہمارے نوجوانوں کے خلاف کارروائی نہ کریں لیکن وہ ہمارے خلاف کارروائیاں کرتے رہے۔ اب کسی کو خبردار نہیں کیا جائے گا ، ہر وردی پوش جو انڈیا کے قانون کی پاسداری کرے گا، اس کے خلاف صرف اور صرف کارروائی ہوگی۔ ہم کشمیری بھائیوں سے کہتے ہیں کہ وہ بھارتی فوج اور پولیس سے دور رہیں کیونکہ ہم ان پر کسی بھی وقت، کوئی بھی حملہ کرسکتے ہیں۔ ہم اپنے کشمیری نوجوان بھائیوں جو ہمارے ساتھ آنا چاہتے ہیں سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے علاقے کے افسران اور پولیس اہلکاروں کی مکمل تفصیلات حاصل کریں اور ہمیں فراہم کریں۔ اب کسی پولیس اہلکار کو اپنی جان پیاری ہے تو وہ اپنی ڈیوٹی کیمپ میں دے اور ہمارے لئے بھی کام کرے۔ میں ایک بارپھر پولیس والوں کو یاد دلانا چاہتاہوں کہ ہمارا اصل دشمن بھارت ہے۔ یہ بھارت کی کارستانی ہے کہ وہ ہمیں اپنی پولیس والوں کے ساتھ لڑا رہاہے ورنہ ہم ایک ہی قوم ہیں''۔

اس نے مزید کہا:''کسی نے بیان دیاتھا کہ ہم امرناتھ یاترا کے خلاف کارروائی کرنے والے ہیں، یہ سراسر غلط ہے۔ ہمارا امرناتھ یاترا کے خلاف کارروائی کا کوئی پلان نہیں ہے۔ وہ اپنی مذہبی رسومات کو سرانجام دیتے ہیں البتہ جو پنڈتوں کے لئے کالونیاں بنائی جارہی ہیں، ہم ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ اس لئے کہ کشمیر ہمارا ہے، اس پر ہمارا ہی حق ہے۔ یہاں کے ہندو جو باہر ہیں، وہ اپنی جگہوں پر رہ سکتے ہیں لیکن اسرائیلی طرز پر یہاں جو کالونیاں بنائی جارہی ہیں ، وہ ہمارے لئے ناقابل برداشت ہیں''۔

عسکریت کا راستہ گلیمر بن گیا: بھارتی تجزیہ کاروں کا اعتراف
بھارتی'این ڈی ٹی وی' کے سینئر ایگزیکٹو ایڈیٹر اور اینکر روش کمار نے اپنے ایک پروگرام میں اپنے ٹی وی چینل کی کنسلٹنگ ایڈیٹر برکھادت( جو کچھ عرصہ پہلے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرکے واپس آئی ہیں) کے حوالے سے بتایاکہ مقبوضہ کشمیر میں پڑھے لکھے نوجوان عسکریت کے راستے پر جارہے ہیں، ان میں کوئی ٹاپر ہے تو کوئی کرکٹر، ان کے لئے عسکریت کا راستہ گلیمر کا راستہ بن گیاہے۔

وہاں عسکریت پسند اپنا نام اور چہرہ نہیں چھپارہے، اپنی تصویر سوشل میڈیا پر ڈال رہے ہیں۔سیکورٹی ایجنسیاں بھی بھارتی حکومت کو اس نئے دور کی خبر دے رہی تھیں۔ کئی عسکریت پسندوں کے جنازوں میں بھاری بھیڑ دیکھی جارہی ہے۔

بھارتی پالیسی ساز پریشان ہیں کہ جس جنوبی کشمیر سے محبوبہ مفتی جیتی تھیں، وہاں اچانک عسکریت پسندوں کے جنازوں میں لوگوں کی بڑی تعداد کیسے شامل ہونے لگی ہے۔حزب المجاہدین کے کمانڈربرہان وانی کے جنازے میں شامل لوگوں کی بھاری تعداد سے کشمیر کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی بھی حیران ہیں۔کشمیری میڈیا میں کس انداز سے رپورٹنگ ہوئی، جب آپ یہ دیکھیں گے تو آپ کو دلی اور سری نگر میں دوری سمجھ آجائے گی۔کشمیری اخبار''گریٹرکشمیر'' نے اپنی سرخی میں ''عسکریت پسند'' نہیں ''برھان'' لکھاہے اور اس اندازمیں لکھا کہ جیسے کوئی چیخ کر ، پکار کر 'برہان' کہہ رہاہو۔'رائزنگ کشمیر' نے لکھا کہ برہان کے لئے بے مثال الوداع'۔'کشمیرمانیٹر' نے لکھا: 'ہزاروںکے کمانڈربرہان کوعظیم الشان الوداع'۔بھارتی حکومت نہیں جانناچاہتی کہ مقبوضہ کشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کو کیوں علیحدگی پسندوں سے امن بحالی میں مدد دینے کی اپیل کرنا پڑی۔ لوگوں کا غصہ اس قدربھڑکا کہ تھانوں پر حملے ہوئے اور ایک پولیس گاڑی ندی میں پھینک دی گئی۔اس سانحہ سے محبوبہ مفتی کی مشکلات میں اضافہ ہواہے۔ نوے کی دہائی جیسا ہی اب ماحول ہے۔

بھارتی میڈیا میں مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کاروں نے تسلیم کیا کہ مقبوضہ کشمیرمیں غیرملکی( پاکستانی) مداخلت زیادہ نہیں ہے، اس کی شرح 30فیصد ہوگی باقی 70فیصد مقامی عسکریت پسند ہی ہیں۔یہ بھی تسلیم کیا کہ یہاں موجود عسکریت پسند تربیت کے لئے پاکستان نہیں گئے، انھوں نے یہاں ہی تربیت حاصل کی۔ انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں برہان کے جنازے سے بڑا جنازہ کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں