جب میں نے جگجیت سنگھ کو روبرو سنا
واہ کیا غزل تھی اورگانے والا جوڑا بھی خوب سروں میں ڈوب کرگارہا تھا
KARACHI:
گزشتہ دنوں نیو یارک میں اپنے کراچی کے ہی ایک دیرینہ دوست اقبال جمیل کے ساتھ ایک محفل غزل میں جانے کا اتفاق ہوا، جہاں ہندوستان کے آنجہانی لیجنڈ غزل سنگر جگجیت سنگھ کے ایک شاگرد رشید جسوندر سنگھ کو سنا جو اپنے استاد جگجیت سنگھ ہی کی مشہورغزل اورگیت گا رہا تھا اور محفل کوگرما رہا تھا۔ تو مجھے پچیس تیس سال پہلے کا کراچی کا ہوٹل کولمبس یاد آگیا جہاں میں نے پہلی بار جگجیت سنگھ کے البم کی ایک خوبصورت غزل ہوٹل کے لان میں ایک نئے سنگر سے سنی تھی۔
یہ قصہ کچھ اس طرح تھا کلفٹن کے پل سے اترتے ہی بائیں ہاتھ پر ہوٹل کولمبس تھا جہاں ہوٹل کے لان میں ڈنر کے دوران موسیقی بھی چلتی رہتی تھی اور ایک نوجوان جوڑا جو دونوں میاں بیوی تھے، ہوٹل کے ملازم سنگر تھے اور رات گئے تک وہ ہوٹل کے لان میں پاکستانی اور ہندوستانی فلموں کے گانے اور غزلیں گاتے رہتے تھے اور موسیقی کے دل دادہ حضرات جوق در جوق وہاں بڑے شوق سے ڈنر کرنے آتے تھے اور اپنے من پسند گیتوں کی فرمائش بھی کرتے تھے۔
میں اپنے دوستوں پروفیسر غیاث وہاب خان اور استاد امیر احمد خان کے ساتھ صرف اچھے گیت سننے کی غرض سے کبھی کبھی رات کا کھانا کھانے وہاں چلاجایا کرتا تھا۔ یہ ایک گرمیوں کی سہانی شام تھی اور سمندرکی خنک ہواؤں نے اس شام کو مزید سہانا کردیا تھا۔ ابھی ہم کھانے کا آرڈر دینے کے بعد انتظارکررہے تھے کہ ہماری سماعت سے ایک خوبصورت غزل ٹکرائی جس کا مطلع تھا:
دنیا جسے کہتے ہیں جادوکا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے
واہ کیا غزل تھی اورگانے والا جوڑا بھی خوب سروں میں ڈوب کرگارہا تھا۔اس غزل کا ایک ایک شعر دل پر دستک دے رہا تھا، دل یہ جاننے کے لیے بے تاب تھا کہ یہ کون شاعر ہے اور یہ غزل اوریجنل کس سنگر نے گائی ہے ۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی نیا گیت یا غزل شروع کرتے میں تیز تیز قدموں کے ساتھ اس نوجوان جوڑے کی طرف گیا اور میں نے اس سے پوچھا یہ جو ابھی جو تم غزل گارہے تھے یہ کس سنگر نے گائی ہے اور کس فلم کی ہے۔
میرے تجسس کو دیکھ کر مرد گلوکار بولا یہ غزل کسی فلم کی نہیں ہے بلکہ انڈیا کے غزل سنگر جگجیت سنگھ اور چترا کے ایک نئے میوزک البم کی ہے، آج کل اس غزل کی بڑی ڈیمانڈ ہے، ہم اس ہوٹل کے علاوہ گھریلو محفلوں اور دیگر فنکشنوں میں بھی اکثر یہ غزل گاتے ہیں اور بڑی داد پاتے ہیں اور اس غزل کی بڑی فرمائشیں آتی ہیں۔
پھرکچھ عرصے بعد کراچی کے ایک صنعت کار نے بطور خاص جگجیت اور چترا کو پاکستان بلوایا تھا اور اپنے گھر میں اس کی خوبصورت محفل سجائی تھی اور اسی دوران ایک تقریب کراچی پریس کلب نے بھی جگجیت اور چترا کے اعزاز میں منعقد کی تھی اور وہ شام میرے لیے ایک یادگار شام تھی۔ میں اپنے دوست کلاسیکل اور غزل سنگر استاد امیراحمد خان کے ساتھ اس محفل موسیقی میں شریک تھا، جگجیت نے وہاں اپنی آوازکا پہلی بارخوب جادو جگایا تھا اور جب شروع میں اس نے مکیش کا گیت اپنی آواز میں سنایا جس کے بول تھے۔
اک پیارکا نغمہ ہے موجوں کی روانی ہے
زندگی اورکچھ بھی نہیں تیری میری کہانی ہے
توساری محفل جھوم اٹھی تھی۔ فلم ''شور'' کا یہ دلکش نغمہ شاعر سنتوش آنند نے لکھا تھا اور موسیقی لکشمی کانت پیارے لال کی تھی اورجگجیت سنگھ کی آواز نے اس گیت میں ایک نئی زندگی ڈال دی تھی۔ پھر تالیوں کی گونج میں فرمائشی گیتوں اورغزلوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور جگجیت چترا نے کئی خوبصورت گیت گائے تھے۔
ہونٹوں سے چھولو تم مرا گیت امر کردو
......
تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
......
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
......
بات نکلے گی توپھر دور تک جائے گی
اور خاص طور پر جب یہ غزل گائی:
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
تو ساری محفل میں ایک ہلچل مچ گئی اور اس غزل کے اختتام پر والہانہ انداز میں بڑی دیر تک تالیوں کی گونج سنائی دیتی رہی۔ پھر یہ محفل غزل نصف شب تک جاری رہی اس محفل کے اختتام پر استاد امیر احمد خان اور میں جگجیت سنگھ سے ملے، ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ ہوٹل میٹروپول میں ٹھہرا ہوا ہے، وہاں ہم دونوں دوسرے دن شام کے وقت ملاقات کی غرض سے پہنچے تو جگجیت سنگھ نے دہلی گھرانے کے نامور فنکار استاد بندوخان کے نواسے اور مشہور کلاسیکل سنگر استاد امراؤبندوخان کے بھانجے امیر احمد خان کو بڑے پیار کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ امیر احمد خان نے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا یہ میرے دوست نوجوان شاعر یونس ہمدم ہیں، جگجیت سنگھ نے بڑے خلوص کے ساتھ مجھ سے ہاتھ ملایا اور پھرکہا جس دہلی گھرانے کے نامور سارنگی نواز استاد بندوخاں اور لیجنڈ کلاسیکل سنگر استاد چاند خاں سے ہم محبت کرتے ہیں اسی گھرانے سے ہم نے موسیقی سیکھی ہے اور آج میں جو کچھ بھی ہوں موسیقی کے اسی دہلی گھرانے کے طفیل ہوں اور خاص طور پر استاد چاندخان کے شاگردوں میں خود کو شمارکرتا ہوں، پھر امیر خان کے کہنے پر جگجیت سنگھ دوسرے کمرے سے ہارمونیم بھی لے آئے اور ہم تینوں کمرے کے فرش پر بیٹھ گئے۔
جگجیت سنگھ نے کہا، آج میں اپنے استادگھرانے کے ایک فنکار کو ہدیے کے طور پر کچھ سنانا اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہوں ، پھر جگجیت نے صرف ہارمونیم پلے کرتے ہوئے دو تین غزلیں سنائیں اس دوران چترا بھی آگئیں اور انھوں نے مل کر ندا فاضلی کی مشہور غزل کے بھی چند شعر سنائے اور پھر جگجیت نے پنجابی کے چند مشہور ٹپے بھی سنائے اس طرح کافی دیر تک ہوٹل کے کمرے میں سروں کا جادو بکھرتا رہا۔
باتوں کے دوران پاکستان میں موسیقی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے جگجیت نے کہا ہندوستان اور پاکستان کی موسیقی ایک جیسی ہے۔ ماضی میں دونوں ایک ہی ملک کی حیثیت رکھتے تھے، اب دو حصوں میں بٹ گئے ہیں مگر رشتوں میں آج بھی پہلے جیسا پیار دونوں طرف ہے، موسیقی کی مٹھاس دونوں طرف ایک جیسی ہے بلکہ میں تو پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتاہوں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان میں میرے گرو نامورگائیک مہدی حسن خاں صاحب رہتے ہیں جن کی گائیکی میرے لیے ایک اسکول کا درجہ رکھتی ہے پھر ہم جتنی دیر بیٹھے رہے موسیقی کی باتیں ہوتی رہیں۔
وہ اپنے آیندہ میوزک البم کی تیاریوں کے بارے میں بتاتے رہے اور دو ڈھائی گھنٹے کی یہ ملاقات ایسی لگی جیسے ابھی آئے تھے اور ابھی اٹھ کرجارہے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ جگجیت سنگھ کی شہرت برصغیر سے نکل کر یورپ اور امریکا تک پھیلتی چلی گئی، جگجیت سنگھ کو یہ اعزاز بھی جاتا ہے کہ اس نے غزل کے آہنگ کو دھیما پن اور آسانی دی اور غزلوں کو مشکل بندشوں سے نکال کر آسان بندشوں کا پیکر دیا، غزل کی خواص کے حلقے سے نکال کر لاکھوں عوام تک پہنچایا۔ اسی بنا پر ہندوستان کے نامور شاعر گلزار نے جگجیت سنگھ کو غزل جیت سنگھ کا خطاب دیا تھا اور یہ حقیقت ہے کہ غزل گاتے ہوئے جگجیت سنگھ لوگوں کے دلوں میں اترتا چلا جاتا تھا۔ غزل گائیک کی حیثیت سے جو عزت، عظمت اور شہرت لیجنڈ گلوکار مہدی حسن خاں صاحب کے بعد جس سنگر کو حاصل ہوئی وہ بلا شبہ جگجیت سنگھ ہی تھا۔
پھر قسمت کی ستم ظریفی سے جگجیت سنگھ اور چترا کی زندگی میں ایک ایسا حادثہ ہوا جس حادثے نے ان کی پر بہار زندگی کی ہر خوشی چھین لی تھی۔ کار کے ایک ایکسیڈنٹ میں ان کا جواں سالہ بیٹا ہلاک ہوگیا تھا، چترا تو اس صدمے سے کافی عرصے تک جانبر نہ ہوسکی تھی اور جگجیت سنگھ کی بھی اس حادثے نے کمر توڑ دی تھی۔ یہ بھی کچھ دنوں تک گیتوں کی ریکارڈنگ نہ کرسکاتھا۔ پھر ایک فلم دشمن کے لیے آنند بخشی کا لکھا ہوا ایک درد بھرا گیت گایا جس کی موسیقی اتم سنگھ نے دی تھی اورگیت کے بول تھے:
چٹھی نہ کوئی سندیس
جانے وہ کون سا دیس۔ جہاں تم چلے گئے
پھر اسی گیت کے الفاظ اس کی زندگی میں درد بن کر شامل ہوگئے تھے۔ ایک دن یہ درد ہی اس کی موت کا باعث بنا اور جگجیت سنگھ لاکھوں دلوں کو درد دے کر اس بے درد دنیا سے رخصت ہوگیا۔