مظلوم ماؤں کا بین اور فریاد

معصوم و بے خطا اور عالمی شہرت یافتہ امجد صابری کے قتل نے ہر شخص کو رلا دیا،


Naseem Anjum July 24, 2016
[email protected]

معصوم و بے خطا اور عالمی شہرت یافتہ امجد صابری کے قتل نے ہر شخص کو رلا دیا، لوگ رو دھو کر چپ ہوکر بیٹھ گئے کہ اس کے سوا چارا بھی نہ تھا، لیکن دنیا کی عظیم ہستی ماں، اﷲ نے جس کے پیروں تلے جنت رکھ دی، وہ ماں آج تک رو رہی ہے، انصاف کی طلبگار ہے، امجد صابری کی والدہ ماجدہ کا اس بات پر اصرار ہے کہ قاتل نہیں بلکہ احکام صادر کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے، وہ تڑپ رہی ہیں، سسک رہی ہیں اور ان کا دل غمزدہ اور آنکھیں اشکبار اس وقت تک رہیں گی جب تک سانس نہ رک جائے۔ ماں کا رشتہ ہی ایسا ہوتا ہے، اولاد اس کے جسم کا حصہ ہوتی ہے۔

وہ ہر لمحہ اپنی اولاد کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتی ہے کہ پرآشوب دور میں اس کے بچے سلامتی کے ساتھ گھر لوٹیں، لیکن بعض اوقات امتحان کی گھڑی آجاتی ہے اور وہی اولاد جس نے ماں کی شفقت بھری چھاؤں میں بچپن، لڑکپن اور زندگی کے دن گزارے وہی بچہ شقی القلب اور درندہ صفت انسانوں کی درندگی کا شکار بن جاتا ہے۔ فرسٹ ایئر کے طالب علم ابرار کی والدہ کا بھی بین اور فریاد یاد آگیا ہے جس کسی نے انھیں روتا تڑپتا دیکھا ہوگا یقیناً اس کی آنکھ نم ہوگئی ہوں گی، پولیس کی سفاکی نے ہنستے بستے گھرانے میں قیامت بپا کردی، وہ اور ان کے بہن بھائی اور والدہ ساری عمر روئیں گے لیکن ان کا جوان بیٹا واپس نہ آسکے گا۔

ابرار کی دکھی والدہ نے پولیس کو دہشت گرد قرار دیا، انھوں نے سچ ہی کہا کہ دہشت گردوں اور پولیس کے طریقہ واردات میں مکمل طور پر مماثلت پائی جاتی ہے، کتنی آسانی سے ملک و قوم کے ان نوجوانوں کو جنھیں پاکستان کے استحکام اور اس کی ترقی کے لیے باگ ڈور سنبھالنی ہے، موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، بنا شناخت کیے، نہ گرفتاری، نہ بیانات و مقدمات، جب دل چاہا ماؤں کے دلوں پر برچھی مار دی اور اپنی ہی لگائی ہوئی آگ سے ہاتھ سینکنے لگے۔ پولیس جنھیں محافظ کہا جاتا ہے، وہی لٹیرے، ڈاکو اور قاتل بن جائیں، عدالتیں قاتلوں کو رہا کردیں اور انصاف کو پیروں تلے کچل دیا جائے تو بھلا روتے، پیٹتے، نوحہ کرتے عوام کس سے انصاف مانگیں گے، کون مددگار ہوگا؟

ابرار کا بھلا کیا قصور تھا، اتنا کہ وہ گاڑی میں لٹکا اپنے ہی قاتلوں سے مدد کا طالب تھا اور مدد کے لیے پکار رہا تھا، کیا پولیس اہلکاروں کو اتنی عقل نہیں کہ پہلے معلوم تو کرلیا جائے کہ معاملہ کیا ہے؟ جب چاہا کسی بھی گھرانے کا چراغ گل کردیا۔ محکمہ پولیس ان اہلکاروں کو اسلحہ تھمانے سے پہلے ٹریننگ نہیں دیتا ہے کہ بندوق و پستول کا استعمال کس وقت کرنا ہے؟ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ آئے دن اس قبیل کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ مظلوم گھرانوں کے کفیل کو بے دردی سے قتل کردیا جاتا ہے۔ اس ظلم سے ایک طرف جانے والے کا غم اس کے لواحقین کو جیتے جی مار دیتا ہے تو دوسری طرف غربت و افلاس میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسی سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔

ابرار کی والدہ کے بقول کیا ابرار دہشت گرد تھا، ڈاکو تھا، لٹیرا تھا، اس بے چارے نے تو اپنے فروخت ہونے والے موبائل کی قیمت وصول کرنے کے لیے تگ و دو کی تھی، ملزم دلنواز نے ابرار سے موبائل خریدنے کی رقم جعلی پرائز بانڈ کی شکل میں ادا کی، ابھی ابرار کے دوست سمجھا رہے تھے کہ وہ سودا نہ کرے اور موبائل واپس لے لے۔ لیکن دلنواز نے گاڑی بھگا دی اور مظلوم ابرار چلتی ہوئی گاڑی سے لٹک گیا تاکہ اپنی محنت کی کمائی کو وصول کرسکے، لیکن افسوس اس کے برعکس ہوا، کار جب لکی اسٹار پر پہنچی تو پولیس موبائل نے کار کا تعاقب کیا۔

ملزم دلنواز کار بھگاتا ہوا سندھی مسلم ہاؤسنگ سوسائٹی پہنچ گیا، انھی لمحات میں پولیس نے کار پر فائرنگ کردی، ابرار اسی وقت اپنے خالق حقیقی سے جاملا جب کہ دلنواز زخمی ہوا، فیروز آباد پولیس نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ دلنواز جرائم پیشہ اور نوسر باز ہے، اس سے قبل بھی وہ جعلسازی کے تین مقدمات میں گرفتار ہو چکا ہے، نیز اس کے پولیس اہلکاروں اور افسران سے بھی تعلقات تھے اسی وجہ سے وہ دیدہ دلیری سے دن دہاڑے لوگوں کو لوٹتا تھا اور لاکھوں روپے وصول کرچکا ہے۔

اس نے گزشتہ برسوں میں جعلی پرائز بانڈ فروخت کیے اور 32 لاکھ جعلی ڈالر دینے کے الزام میں پولیس نے گرفتار کیا، اس طرح وہ معصوم شہریوں سے رقم بٹور چکا ہے، ابرار کے معاملے میں اس بات کا بھی اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے کہ وہ ظالم اور سفاک بھی ہے، اسے گاڑی میں لٹکے ہوئے نوجوان پر ذرہ برابر رحم نہ آیا کہ اس کی تیز رفتاری سے کہیں وہ گر نہ جائے، گاڑی کے نیچے نہ کچلا جائے، محض دس بیس ہزار کے لیے صدر سے سندھی مسلم سوسائٹی تک گاڑی دوڑاتا رہا، کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ گاڑی روک کر موبائل واپس کردیتا، یا اسے اعتماد میں لے کر موبائل کی قیمت کا نصف حصہ ادا کردیتا، تو یقیناً یہ حادثہ پیش نہ آتا۔

میں سمجھتی ہوں کہ ابرار کے قتل میں اگر پولیس قصور وار ہے تو ملزم دلنواز بھی شریک جرم اور قاتلوں کا ساتھی ہے، چاروں پولیس اہلکاروں کے ساتھ دلنواز کو بھی ابرار کے قتل میں پوری پوری سزا ملنی چاہیے، لیکن ایسا ہوگا نہیں کہ اس کے تعلقات ان لوگوں سے ہیں جو بظاہر امن کی علامت ہیں لیکن کام دہشت گردوں والے ہیں۔

پولیس ڈپارٹمنٹ اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے بدنام ترین بن چکا ہے، ایسے محکموں کو بند کردینا ہی وقت کا تقاضا ہوگا، ان کی جگہ کسی اور نام سے دوسری فورس لائی جائے۔ چونکہ یہ لوگ تو جرائم پیشہ افراد کے دوست اور معاون ہیں، رشوت اور تعلقات کی بنا پر قاتلوں کو بہت جلد رہا کردیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر دوسرا شخص چھوٹی اور معمولی باتوں پر قتل و غارت کا بازار گرم کردیتا ہے۔

اگر سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے ملزمان بے نقاب نہ ہوتے تو بے چارے دلنواز کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرلیا جاتا اور ان کے خاندان کو مزید ہراساں کیا جاتا، اسی طرح جس عظیم انسان عبدالستار ایدھی کے نواسے احمد ایدھی کو پولیس نے ناحق پریشان کیا، فیصل ایدھی کے کہنے پر پولیس افسران کے احکامات کے تحت اس انسانیت کے خدمتگار جسے دنیا سلام پیش کر رہی ہے، چھوڑ دیا گیا۔

پاکستانی عوام کو بے شمار مشکلات کا سامنا ہے، مہنگائی، ٹیکسوں کی بھرمار، پولیس اور عدالتوں کا غیر منصفانہ رویہ، ضروریات زندگی سے محرومی، پانی، گیس اور بجلی کے مسائل اپنی جگہ ہیں، کے الیکٹرک کے ادارے نے رہی سہی کسر پوری کردی، بجلی کے بل بھیج کر اپنی جیبوں کو گرم رکھتے ہیں، دولت کی نامساویانہ تقسیم نے پاکستانیوں کو بے موت مار دیا ہے۔

امجد صابری کی دوسرے ملکوں میں بے پناہ عزت اور قدر و قیمت تھی کہ ہندوستان کے ایک ایسے علاقے میں جہاں ڈاکوؤں کا راج تھا، جب ان کی گاڑی گزری تو وہ لوٹنے آگئے لیکن جب ان پر یہ حقیقت کھلی کہ وہ جس فنکار کی قوالی سن رہے ہیں، وہی ان کا پسندیدہ فنکار اس وقت ان کے سامنے ہے تب وہی ڈاکو انھیں اپنا مہمان قرار دیتے ہیں۔ افسوس اپنے ہی ملک میں ان کی جان لے لی گئی۔ ماں کی فریاد اور ان کی تڑپ ان کا مطالبہ انشا اللہ ضرور پورا ہوگا، اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں