ترکی ہار سکتا ہے
سوچنے کی بات ہے کہ آخر ترکی میں ایساکیا ہوا ہے کہ آناً فاناً پورا ملکی نظام داؤپرلگ گیا ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ آخر ترکی میں ایساکیا ہوا ہے کہ آناً فاناً پورا ملکی نظام داؤپرلگ گیا ہے۔کئی بارسوچتا ہوں کہ دہائیوں بعد بھی ملک ترقی کے راستہ پرواپس آپائے گا یا نہیں۔اردوان کو اپنے سیاسی سفرمیں اسلامی ذہن کی بنیادپر کئی بار پابند سلاسل ہونا پڑا۔ ترکی ایک سیکولرملک ہے اور فوج اس سیکولرنظریہ کی محافظ ہے۔فوج نے کئی بار اقتدار پرقبضہ کیا۔ 2001میں جسٹس پارٹی بنا ڈالی گئی۔ 2002کے الیکشن میں جسٹس پارٹی نے میدان مارلیا۔یہ الیکشن منسوخ کردیاگیامگرایک اور الیکشن ہوااور اردگان کاایک عام آدمی کی حیثیت سے سفرختم ہوگیا۔
2003سے ایوان اقتدارکامستقل باسی بن گیا۔ بطور وزیراعظم اس نے عوام کی فلاح کے لیے حیرت انگیزکام کیے۔ ترکی کی معیشت کوحددرجہ بہترکرڈالا۔ تمام بیرونی قرضے واپس کردیے۔لاکھوں لوگوں کو روزگار دیا۔سڑکیں، ائیرپورٹ، نئی تعلیمی درسگاہوں کاایک جال بُن ڈالا۔ مگر تھوڑے سے عرصے میں اردگان ایک ایسے رویہ کامالک ہوگیا جو جمہوریت کی اصل روح سے بہت دورہے۔ اس نے فوج،پولیس،عدلیہ،تعلیمی بلکہ ہرسرکاری ادارے سے بتدریج سیکولرسوچ کے لوگوں کونکال دیا۔اس پورے عمل میں اردگان کاسب سے بڑااتحادی اورمربی فتح اللہ گولن تھا۔
گولن مکمل اسلامی سوچ کاحامل تھااوریقین رکھتا تھا کہ ترکی کوسیکولرزم سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔ اس نے تعلیمی میدان میں بے انتہاکام کیا۔پوری دنیامیں ایک ہزارکے قریب تعلیمی ادارے اسی شخص کے ہیں۔
گولن کے پاس طیب اردگان کی صورت میں ایک ایساموثر ہتھیار آچکاتھاجس سے وہ ترکی کومذہبی ریاست بنانے کاکام کر سکتا تھا۔ دونوں لیڈرایک دوسرے کی طاقت تھے۔گولن ایک ایسامذہبی پیشوا تھا جو سائنس کی تعلیم کوعبادت کادرجہ دیتاتھا۔بین المذاہب مکالمہ کوانتہائی اہم سمجھتاتھا۔ عورتوں کو معاشرہ میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی ترغیب دیتاتھا۔برملاکہتاتھاکہ اسرائیل کے ساتھ مسلمانوں کی کوئی دشمنی نہیں لہذاترکی کو اسرائیل کے ساتھ مثالی تعلقات رکھنے چاہیے۔دراصل وہ ایک معتدل اسلامی سوسائٹی تشکیل دیناچاہتاتھا۔
2013تک اردگان اورگولن مضبوط رشتے میں بندھے رہے۔مگرپھروہی ہوا،جوہرترقی پذیرملک میں ہمیشہ ہوتاہے۔طیب اردگان اب اپنے خاندان کومالی طورپربہت مضبوط کرناچاہتاتھا۔لہذااس نے اپنی اولاد اوراپنے عزیزوں کومن پسند سرکاری ٹھیکوں اورمنفعت بخش دفاعی معاہدوںکی بھرپورگرفت دے ڈالی۔دراصل یہ اردگان کی زندگی کا وہ ناقابل ستائش فیصلہ تھاجس کی وجہ سے اس کی اخلاقی پوزیشن کمزورہونے لگی۔2013میںوفاقی انٹی کرپشن ادارے نے47افرادکومالی بے ضابطگیوں اورمالی کرپشن پرگرفتارکرلیا۔تین وزراء کے بیٹے بھی گرفتارکیے گئے۔پولیس نے عدالت کے حکم پران لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارے اورسترہ ملین امریکی ڈالربرامدکرلیے۔تفتیش میں مالی جرائم کے نقش اردگان کے دوبیٹوں تک پہنچ گئے۔
بلال اوربراک اس جرم میں شامل پائے گئے۔ اردگان نے تمام الزامات مستردکرڈالے اورسارامدعاگولن اوراسکے حواریوں پرڈال دیا۔اب ایک اندورنی جنگ شروع ہوگئی۔ اردگان نے بعینہ ہی وہ کیاجواسے نہیں کرناچاہیے تھا۔اس نے سوشل میڈیاکوختم کرڈالا۔ٹوئٹرپرپابندی لگادی گئی۔انٹی کرپشن ادارے کے بیشترافرادکوبرخاست کردیا گیا۔ ججوں اورپولیس کے سیکڑوں لوگوں کونوکری سے نکال دیا گیا۔جوبھی اخبارات اس کرپشن سکینڈل پرخبریں شایع کر رہے تھے،ان پربھی پابندی لگادی گئی۔اردگان کا مخالف ترکی کادشمن قراردیدیاگیا۔اس تمام معاملے کوایک بین الاقوامی سازش قراردیاگیا۔
2014میں الیکشن ہوا۔اردگان الیکشن کے پہلے مرحلہ میں فیصلہ کن اکثریت حاصل نہ کرسکا۔ الیکشن کے دوسرے مرحلہ میں صدرمنتخب ہوا۔ دوسرے مرحلہ پراپوزیشن نے بہت تنقیدکی کہ یہ جیت دراصل تمام حکومتی وسائل استعمال کرنے کے بعدممکن ہوئی ہے۔ 2014سے لے کراب تک اردگان صدرکے عہدے کومضبوط کررہاہے۔ وہ پارلیمانی نظام کویکسرتبدیل کرکے مضبوط صدارتی نظام لاناچاہتا ہے۔یہ ترکی کے آئین سے متصادم ہے۔طاقت کے مکمل ارتکازنے ترکی میں جمہوریت کانظام ایک شخص کے اردگرد مرکوزکرڈالاہے۔اردگان کی ان پالیسیوں کی بدولت ترکی کی پوری سوسائٹی گروہوں میں بٹ چکی ہے۔ ایک گروہ جو اردگان کوترکی کانجات دہندہ سمجھتا ہے۔اس میں مذہبی رجحانات کے لوگ فیصلہ کن اکثریت میں ہیں۔ دوسر اگر وہ،اردگان کوترکی کے لیے خطرہ گردانتاہے۔ان کے نزدیک وہ کرپشن اور خود پسندی کانشان ہے۔دوسرے گروہ میں فتح اللہ گولن کے خیالات سے متاثرلوگوں کی اکثریت ہے۔
یہی وہ بنیادہے جس کے تناظرمیں حالیہ بغاوت برپا ہوئی۔بغاوت کوناکام کہناقبل ازوقت ہے۔ردعمل کے طور پر حکومت نے ہزاروں لوگوں کوگرفتار کرلیا ہے۔ ان میں جج صاحبان،فوج کے افسران اور سپاہی، اساتذہ، پولیس اور خفیہ اداروں کے لوگ اوراردگان کے ذاتی محافظین بھی شامل ہیں۔حکومت کے بقول ان میں سے اکثریت گولن کی تحریک سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کی سزا بھی بغیرکسی عدالتی احکامات کے سنادی گئی ہے۔ وزیراعظم کے بقول تمام پھانسی کی سزا پائیں گے۔ اردگان نے یہ بھی اعلان کردیاہے کہ فوج کواسکے کیے پر مزا چکھائے گا۔
ترکی میں آرمی کے جرنیلوں کی تعداد 358 ہے۔ان میں سے124 گرفتارکیے جاچکے ہیں۔ حکومت کے اعلان کے مطابق اس بغاوت میں فوج کا بہت چھوٹاساحصہ شامل تھا۔مگرجس پیمانے پر گرفتاریاں جاری ہیں،وہ ان تمام اعلانات کی نفی کررہی ہیں۔فوج کے ایک تہائی کے قریب لوگ پابندسلاسل ہیں۔ فوجی قیدیوں کوشاہراؤں پر جوتے مارے جارہے ہیں۔
ان کے ہاتھ پشت پرتارسے باندھ کر ٹی وی کے سامنے نشان عبرت کے طورپرپیش کیاجارہا ہے۔اکثرلوگ تشددکی وجہ سے کیمرے کے سامنے بھی سیدھے کھڑے نہیں ہوپا رہے۔ایمرجنسی اختیارات کی بدولت کوئی بھی سرکاری عمال اورنجی شعبہ کابندہ محفوظ نہیں۔حدتویہ ہے کہ ایک فور اسٹار جرنل، حدوتی، جومحاذجنگ پرلڑائی کی کمان کررہا تھا،وہ بھی گرفتارہے۔وہ کمانڈوزجنہوں نے سرناک اور ہکاری جیسے مشکل ترین محاذ پر کارنامے انجام دیے تھے،ان میں سے بھی اکثریت گرفتارہوچکی ہے۔پوری سوسائٹی اس وقت ڈراورخوف کاشکارہے۔اردگان نے ایک بیان میں ہٹلرکی انتظامی صلاحیتوں کی بھرپورتعریف کی ہے۔
ترک صدراپنے حریف گولن کی تحریک کوکس حدتک کچل سکتے ہیں،یہ کہناابھی قبل ازوقت ہے۔یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ طاقت سے ایک مخالف سیاسی سوچ کوختم کرناممکن ہے بھی یا نہیں۔وقتی طورپرسرکاری طاقت سے اپنے مخالفین کی بیخ کنی کامیاب نظرآتی ہے مگراسکے دوررس نتائج کیاہوسکتے ہیں،اس پرکوئی بھی سنجیدہ تجزیہ کارکچھ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں۔اردگان ریاستی تشدد میں مزید کتنا آگے جائیںگے،اس پربھی بحث جاری ہے۔فی الحال تو حکومتی اقدامات سے پوری سوسائٹی اورسرکاری ادارے انتشارکاشکارنظرآتے ہیں۔
اب معاملات مکمل طورپرذاتی جنگ کی صورت اختیار کرتے نظرآرہے ہیں۔اردگان اپنے سیاسی مخالفین کو زندہ رہنے کاحق دینے کے لیے کسی صورت بھی تیار نہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنے شدیدحکومتی عمل کاردعمل کچھ بھی ہوسکتاہے۔ناقابل یقین اورشائدحیران کن!ترکی زندگی کی ڈگرپرکیسے واپس آئے گا،اس کاجواب اب کسی کے پاس نہیں ہے!شائدمہلت ہرایک کے لیے ختم ہوجائے! مگراس ابتر صورتحال میں ترکی ہارسکتاہے!