ایک قابل قدر روایت
مقتول خواجہ سرا علیشہ کے علاج معالجے میں مبینہ کوتاہی کا معاملہ با لآخر اپنے منطقی انجام کے قریب پہنچ گیا۔
مقتول خواجہ سرا علیشہ کے علاج معالجے میں مبینہ کوتاہی کا معاملہ با لآخر اپنے منطقی انجام کے قریب پہنچ گیا۔ قتل کا یہ واقعہ ذاتی عناد کا نتیجہ تھا اور قاتل نے اس کا اعتراف بھی کر لیا۔تاہم مقتول کے علاج معالجے میں کوتاہی کی اطلاعات پر خیبر پختون خوا حکومت نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی سفارشات کی روشنی میں لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور کے تین ڈاکٹر حضرات کو ملازمت سے برخاست اور دو پروفیسر صاحبان کو تنبیہہ کے نوٹس جاری کرنے کی اطلاعات ہیں۔ متاثرہ معالجین یقیناً سزا کے خلاف اپیل بھی کریں گے اور شنوائی نہ ہونے پر عدالت بھی جا سکتے ہیں۔
لیکن یہ حقیقت آشکارہ ہو چکی ہے کہ حکومت نے اپنے اختیارات اور اداروں نے اپنے وجود کا عملی ثبوت دے دیا ہے۔ کوتاہی تو انسان سے ہی ہوتی ہے۔در گذر کرنا ہی اہم مقام کا حامل پہلو ہوتا ہے لیکن کسی ادارے کے نمایندے کی حیثیت سے کوتاہی کا ارتکاب کرنا، بحیثیت مجموعی اس ادارے کے تشخص کو مجروح کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ بلا شبہ حکومت کے اس فیصلے سے نہ صرف محکمہ صحت خصوصاً لیڈی ریڈنگ اسپتال بلکہ دیگر اداروں کو بھی اپنی ذمے داریوں کے حوالے سے بھی عمدہ پیغام دیا ہے۔ ان تمام تر پہلوؤں کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر انسانیت اور انسانی خون کی قدر و احترام کا احساس اجاگر کیا گیا ہے۔
شعبہ مسیحائی سے وابستہ مسیحاؤں اور دیگر عملے کی نازک ذمے داریوںکی اہمیت اجاگر کی گئی ہے اور وطن عزیز پاکستان کا ایک بہتر تشخص اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کسی بھی پہلو سے اس دور اندیشانہ اقدام پر روشنی ڈالی جائے ؛کوئی بھی زاویہ نگاہ قلم کو تشنہ دیکھنا ہی گوارا نہیں کرتا۔ دنیا بھر میں فی زمانہ نظام حکومت اور قانون کی عملداری یقیناً ان کا ساتھ دیتے دکھائی دیتے ہیں جو وسائل کے حامل ہوتے ہیں ورنہ کسی کو کیا پڑی کہ مہنگے داموں خدمات کے حامل معالجین اور شفاخانوں سے علاج معالجے کی سہولیات کو ترجیح دے اور بڑے بڑے نامی گرامی وکلاء کو بھاری بھرکم فیسیں ادا کرکے انصاف کے حصول کی جستجو کی جائے؛ سفارشیں کروائے اور رشوت جیسی لعنت سے اپنی عاقبت پراگندہ کرے۔
ہم بھی تو بوتل میں بند پانی کی طرح نہیں۔ یہی دنیا بھر کا وتیرہ ہے۔ سماجی خدمات کی ترسیل کا یہی سلسلہ اور طریقہ کار دنیا کے ایک وسیع خطے میں قائم ہے ۔فرق اگر ہے تو رویوں اور سوچ و فکر کا ہے۔ معاملات کو سمجھنے اور پرکھنے کا ہے۔چنانچہ ایک زخمی خواجہ سرا کے علاج معالجے میں کوتاہی جو اپنے آبائی علاقے سے نقل مکانی کرکے سیکڑوں کلومیٹر دور پشاور شہر کے نواح میں آباد ہو اور ایک ایسے معاشرے کا حصہ تھا جہاں قتل مقاتلے کے حوالے سے واقعات پر مبنی خبریں روز مرہ کا معمول ہوں، اسقدر سنجیدگی کا اظہار یقینا ایک قابل قدر روایت ہے۔
ابھی بہت دور کی بات نہیں جب پورے صوبے میں آدھ درجن کے قریب میڈیکل کالج سرکاری انتظام کے تحت اور ایک آدھ اس نوع کا ادارہ نجی شعبے میں کام کررہے تھے۔طب کے میدان میں اعلی تعلیم اور تحقیق کی ذمے داریاں لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ہی ایک کو نے میں قائم صوبے کا واحد پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ سر انجام دے رہا تھا۔ صوبائی سطح پر طبی تعلیم کے میدان میں یہی سب کچھ کل کائنات تھی ۔اب تو خیبر میڈیکل یونیورسٹی؛اس کے زیر اثر آدھ درجن سے زائد اعلیٰ معیار اور سہولیات کے حامل اداروںکے علاوہ تقریبا دو درجن میڈیکل کالجز بھی صوبے کے طول وعرض میں سرکاری و نجی شعبے کے تحت سر گرم عمل ہیں۔اسی طرح سیکڑوں چھوٹے بڑے اسپتال بھی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ماہرین صحت اپنے طور پر کلینکس پر بھی پریکٹس جاری رکھے ہوئے ہیں۔نت نئی ایجادات کے تناظر میں جدید آلات بھی حاصل کیے جا رہے ہیںاور انتظامی و مالیاتی اصلاحات کا سلسلہ بھی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جاری رہنا بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ماہرین صحت کی جانب سے قائم کردہ مختلف شعبوں سے متعلق تحقیقی انجمنیں بھی سرگرم عمل ہیں۔
یہ سب کچھ خوش آیند پیش رفت کے عکاس پہلو ہیں جو اس میدان میں ترقی کی جانب سفر کا زاد راہ کہلا سکتے ہیں۔حکومت بتدریج بڑے اسپتالوں کو خودمختاری دینے کی پالیسی پر بھی گامزن ہے اور ان کے وسائل میں اضافے کے لیے بھی کوشاں دکھائی دیتی ہے۔ہیلتھ انشورنس اسکیم شروع کرنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں اور اس میںکسی حد تک پیش رفت بھی ہوئی ہے۔یقیناً تصویر کے اس رخ کی خوب نقاشی بھی ہو رہی ہے اور رنگ بھی بھرے جا رہے ہیں۔البتہ تصویر کے دوسرے رخ کا تعلق انسانی رویوں سے ہے۔معاملات مشکل اور پیچیدہ ہوں تو بھی رویئے متاثر ہوتے ہیں؛ مشکلات درپیش ہوں تب بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ناانصافی و زیادتی کا احساس ہو تب تو احتجاج کی راہ اختیار کی جاتی ہے۔
بہر طور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مختلف النوع معیار کی حامل دستیاب سہولیات سے استفادہ کرنے کے لیے عوام میں کافی حد تک شعور بھی اجاگر ہو چکا ہے۔ ماسوائے اس حقیقت کے کہ نجی طبی تعلیمی اداروں میں کم و بیش پانچ ملین روپے بلکہ اس سے بھی زیادہ صرف کرکے طب کی تعلیم مکمل کرنے والا طالبعلم کیونکر اس نظام سے وابستہ توقعات کے مطابق اپنے آپ کو اس کا ایک متوازن حصہ ثابت کر سکے گا،تمام تر پہلو سمجھ میں آسکتے ہیں۔طب کے میدان میں اتنے بڑے اخراجات کے حامل مراحل سے گذر کر جب کوئی طالبعلم کسی ادارے کا حصہ بن جائے اور کی گئی سرمایہ کاری کے شایان شان پھل کے حصول کی جستجو میں سر گرم عمل ہو گا تو اس سے بحیثیت مجموعی اس عظیم شعبے کے تشخص پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوں گے، اندازہ کرنا مشکل تو نہیں ہونا چاہیے۔ ذہن میں بہت سے سوالات جنم لینا بھی حیرت کی بات نہیں ہو سکتی اور کئی ایک کے جوابات تو زبان زد عام بھی ہوتے ہیں۔
مایہ ناز ہیرو مرحوم عبدالستار ایدھی ایک فرد تھے۔اپنی زندگی میں ہی انھوں نے معاشرے میں اپنی لازوال خدمات کا اعتراف دیکھ لیا۔دنیا بھر میں اپنے مثالی مقام کو بھی تسلیم کروایا۔عصر حاضر میں انسانیت کی خدمت کے حوالے سے ان کا ثانی ملنا تو دور کی بات مستقبل قریب میں بھی اس کے آثار کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔بحیثیت پاکستانی ہمارے لیے یہ امر باعث فخر ہے کہ وہ ہم میں سے تھے۔
لیکن کیا عبدالستار ایدھی کی خدمات کو پیش کیے گئے خراج تحسین سے معاشرے میں موجود اس خلا کی وسعت کی عکاسی نہیں ہوتی جس کو پر کرنے کے لیے انھوں نے اپنی پوری زندگی صرف کر دی تھی؟اور کیا ان کے اس جہان فانی سے رحلت فرما جانے کے بعد بھی انھیں پیش کیے جانے والے خراج عقیدت کے معیار سے یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ جس خلا کو پر کرنے کے لیے انھوں نے اتنے بڑے قافلے اور سازو سامان کے ساتھ جدوجہد کی وہ بدستور موجود ہی نہیں ہے بلکہ ایسے کئی مزید اقدامات کا بھی متقاضی ہے؟خواجہ سرا علیشہ کے علاج معالجے میں کوتاہی ایک انسانی مسئلہ تھا۔ متعلقہ معالجین کے خلاف کارروائی ایک انتظامی تقاضا تھا جس پر پورا اترنا انسانیت کے معیار اور احترام کا اعتراف بھی ہے۔ یقینا بہتر قومی تشخص اس خلا کی وسعت کو کم کرنے سے اجاگر ہو گا جس کو پر کرنے کے لیے عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی وقف کر دی تھی ۔