جاسوس شہزادی
ہندوستان کے موسیقار گھرانے کی نور عنایت خان، جس نے برطانوی جاسوس کی حیثیت سے نا قابل فراموش خدمات سرانجام دیں۔
اس کے ہاتھ اور پاؤں زنجیروں میںجکڑے ہوئے تھے۔
گسٹاپو (نازی جرمنی کی خفیہ پولیس کا مختصر نام) نے اس کا نام 'خطرناک ترین قیدیوں' کی فہرست میں ڈال رکھا تھا۔ بدترین تشدد اور بھوکا رکھنے کے باوجود' وہ اس سے کچھ بھی اگلوانے میں ناکام رہے تھے۔ دن کے وقت تو نور عنایت خان' جس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک جاسوس کی حیثیت سے برطانیہ کی خفیہ ایجنسی میں شمولیت اختیار کی تھی' نے حوصلے سے مزاحمت جاری رکھی لیکن جیسے ہی رات ڈھلنے لگی' درد اور غم کے وفور سے اس کے ضبط کے بندھن ٹوٹنے لگے۔ وہ ایک کال کوٹھری میں بے بس و لاچار تنہا قید تھی۔
اس کی آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے اور ساتھ کی بیرکوں میں موجود قیدیوں کو اس کی مدہم سسکیوں کی آواز سنائی دینے لگی۔ آہستہ آہستہ اس کا دھیان اپنے بچپن کے دنوں کی طرف چلا گیا۔ جب وہ فرانس میں اپنے گھر میں چھوٹے بھائیوں اور بہن کے ساتھ کھیلا کرتی تھی اور اس کے والد شام کے وقت صوفیانہ کلام گایا کرتے تھے۔ ننھی 'ببلی' جیسا کہ اس کے والد اسے پکارا کرتے تھے' کی آنکھوں کے سامنے اپنے بچپن کی تصویر گھومنے لگی۔ وہ خیالوں ہی خیالوں میں جرمنی کے اذیت ناک قید خانے سے کہیں دور پہنچ چکی تھی۔
نورالنساء عنایت خان یکم جنوری 1914ء کو ماسکو میں پیدا ہوئی' جہاں اس کے والدین کچھ عرصہ قبل میوزک پرفارمنس کی دعوت ملنے پر روس آئے تھے۔ ننھی نورالنساء کی نگہداشت کرنے والی نرس' ایک تاتاری خاتون تھی' جس نے اس کا نام ببلی رکھ چھوڑا تھا۔ کچھ ماہ بعد ماسکو کی سیاسی فضاء خراب ہونے لگی اور عنایت خان کو اپنے احباب کی طرف سے مشورہ دیا گیا کہ وہ شہر چھوڑ دیں۔ جس دن انھوں نے نکلنے کا فیصلہ کیا، شہر میں فسادات پھوٹ پڑے اور لوگوں نے راستوں کی ناکہ بندی کر دی۔ ہجوم نے راستے میں ان کی برف گاڑی (ایک خاص قسم کی بگھی) کو روک کر گھیراؤ کر لیا۔
عنایت خان نے اپنی بیگم کے ہاتھوں سے لے کر ننھی نورالنساء کو اپنے بازؤں میں تھاما اور اسے اوپر اٹھا لیا۔ زرد چغے میںملبوس عنایت خان کے بازؤں میں لپٹی ننھی بچی کو دیکھ کر ہجوم کا دل پسیج گیا اور انھوں نے راستے سے رکاوٹیں ہٹا دیں۔ ہندوستان کے شاہی موسیقاروں کا یہ خاندان بالآخر فرانس پہنچ گیا' جہاں اس سال جون میں پیرس میں منعقد ہونے والی انٹرنیشنل میوزک کانگریس میں' انھیں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ انھوں نے کچھ عرصہ پیرس میں ہی قیام کیا' جہاں میوزک پر لیکچر دیئے اور مختلف کنسرٹس کئے۔ لیکن جلد ہی پہلی جنگ عظیم کے دوران جرمن فوجوں کی توپوں نے پیرس کا رخ کر لیا، اگست 1914ء میں وہ لندن چلے گئے۔
اگلے چھ برسوں تک انھوں نے کافی مشکل حالات میں برطانیہ میں قیام کیا اور 1921ء میں واپس پیرس لوٹ گئے' جہاں ان کا قیام اب ''فضل منزل'' میں تھا' جو کہ پیرس کے مغربی نواحی علاقے میں واقع تھی۔ نور کے والد عنایت خان کا ہندوستان کے ایک دورے کے دوران 1927ء میں اچانک انتقال ہو گیا' اس کی والدہ صدمے میں چلی گئیں اور تیرہ سالہ نور النساء کو اس کم سنی میں اپنے چھوٹے بھائیوں ولایت' ہدایت' اور بہن خیر النساء کی دیکھ بھال کرنا پڑی۔ نور کے شوق اور دلچسپیاں مختلف قسم کی تھیں' جو کہ اس کے فنکار گھرانے کے اثرات کے نشاندہی کرتی تھیں۔ 1931ء میں وہ مقامی ادارے میں موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے لگی۔
اس کے ساتھ پیانو اور سارنگی جیسے موسیقی کے آلات سیکھنا شروع کیے۔ اس نے ریڈیو پیرس کے لئے کہانیاں بھی لکھیں، بچوں کے لئے گوتم بدھ کی جاتک کتھائوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اس نے بچوں کی نفسیات سے متعلق ایک کورس پڑھا اور مختلف زبانیں بھی سیکھیں۔ 1940ء میں جب جرمنوں نے فرانس پر حملہ کیا' نور اور اس کا خاندان سمندر کے راستے انگلستان کے ساحلی شہر پہنچ گیا۔ نور' جو کہ فرنچ ریڈ کراس میں کام کرنے کا تجربہ رکھتی تھی' نے خواتین ایئرفورس میں شمولیت اختیار کرلی اور ایڈن برگ میں چھ ماہ تک وائرلیس آپریٹر کی حیثیت سے اس نے اپنی تربیت مکمل کی۔ بعدازاں اس نے مئی 1942ء میں خفیہ سروس کیلئے ایک خصوصی کورس بھی کیا۔
ایئرفورس کے لئے کام کے دوران' اس کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے' اسے برطانیہ کی خفیہ ایجنسی (SOE) نے فرانس میں جاسوس کے طور پر نامزد کیا گیا۔ ناول نگار سیلوین جپسن جو کہ خفیہ ایجنسی کے فرانس سیکشن کا ریکروٹنگ آفیسر تھا' نے نور کا انٹرویو لیا اور اس کی قابلیت کو پرکھتے ہوئے فوری طور پر اسے ''خصوصی بنیادوں پر بھرتی'' کرنے کی پیشکش کر دی۔ نور نے اسی دن جوابی خط لکھ کر اس پیشکش کو قبول کر لیا۔ نور نے ٹریننگ کیمپ میں بہت محنت سے تربیت حاصل کی' لیکن اس کی باقی دو ساتھیوں کی طرح' اس کی ٹریننگ رپورٹ بھی بہت زیادہ حوصلہ افزاء نہ تھی۔
وہ پیراشوٹ ٹریننگ کے لئے موزوں قرار نہ دی گئی تھی' اس لئے اسے خفیہ ایجنسی کے تھیم پارک میں واقع ریڈیو اسکول میں بھیج دیا گیا اور آخر میں اسے مقبوضہ ملک میں جاسوسی کی سرگرمیوں کی تربیت دی گئی۔ اخلاقی اقدار پر اس کے بھرپور یقین کی بدولت اسے ایک انتہائی مضبوط کردار کی حامل' لیکن ایک مشکل شخصیت قرار دیا گیا تھا۔ خفیہ اہلکاروں کو ضرورت کے مطابق کچھ سنگدلانہ فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں' لیکن نورالنساء کی تربیت اور کردار کی بدولت' اس سے ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ حتمی رپورٹ میں اس کی ممکنہ کارکردگی کے حوالے سے شکوک کا اظہار کیا گیا تھا' جسے خفیہ ایجنسی کے فرانس سیکشن کے سربراہ نے مسترد کر دیا۔ اس کے لئے یہ سیدھا سادھا مسئلہ تھا کہ فرانس میں خفیہ وائرلیس آپریٹر کی اشد ضرورت ہے' نور اس کام کے لئے آمادہ ہے اور اس طرح نور کی صورت میں اسے ایک تربیت یافتہ 'کارکن' میسر ہے۔
نور کو میڈیلین (Madeleine) کا خفیہ نام دیا گیا، اس کو دوسری جھوٹی شناختی دستاویزات اور مختلف پرمٹ دیئے گئے۔ 16/17 جون کی درمیانی شب وہ طیارے پر روانہ ہوئی' جس نے شمال مغربی فرانس میں ایک خفیہ جگہ پر اترنا تھا۔ لیکن ہنری ڈیری کورٹ، جو فرانس میں اس کا اور اس کے باقی ساتھیوں کا منتظر تھا، جرمنوں کے لئے ایک ڈبل ایجنٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔ اس کی وجہ سے گسٹاپو کے اہلکاروں کو پہلے سے ہی خبر ہو چکی تھی کہ کس ایجنٹ نے کہاں اترنا ہے۔
تاہم نور خوش قسمتی سے مقبوضہ فرانس میں گسٹاپو کے اہلکاروں کی نظر میں نہ آ سکی اور بغیر توجہ حاصل کئے خفیہ طور پر پیرس پہنچ گئی۔ اس کی ملاقات وہاں موجود کچھ ساتھی اہلکاروں سے ہوئی۔ اس نے اپنے کام کا آغاز کرتے ہوئے وائرلیس پیغامات بھیجنا شروع کئے۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کے ساتھی گسٹاپو کی گرفت میں آنے لگے اور اس کے گرد بھی گھیرا تنگ ہوتا گیا۔ ان مشکل حالات کے باوجود اس نے اپنے کام کے حوالے سے خوشی اور اطمینان کے اظہار کا خط اپنے افسران کو بھجوایا' جو کہ ڈیری کورٹ کی مدد سے پہلے جرمن فوجیوں کی نظر سے گزرا' جنہوں نے اس کا خفیہ فوٹو گراف لے کر اسے آگے روانہ کیا۔
نور کو کافی عرصہ انڈر گراؤنڈ رہنا پڑا۔ وہ اپنے بالوں کو مسلسل رنگ کرتی رہتی تھی اور گہرے رنگ کے چشمے پہنتی تھی۔ اسے برطانیہ واپس آنے کا بھی کہا گیا' لیکن اس نے مشکلات کے باوجود اپنی خفیہ سرگرمیوں کے لئے فرانس میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہ نور کے ایک ساتھی اہلکار کی بہن نے غداری کرتے ہوئے، کچھ رقم کے عوض جرمن فوجیوں کو نور کی مخبری کر دی۔ نور کو گرفتار کرنے کی پہلی کوشش ناکام ہو گئی۔ اپنے اپارٹمنٹ سے باہر سڑک پر نکلتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ و ہ جرمنوں کی نظر میں ہے' اس کے ساتھ ہی وہ اچانک گلی میں کسی کونے میں غائب ہو گئی۔ تاہم سہ پہر کو جب وہ اپنے اپارٹمنٹ میں واپس لوٹی تو ایک ایجنٹ اس کا منتظر تھا۔ اس نے کچھ لمحے اس کے خلاف مزاحمت کی' لیکن جلد ہی بہت سے سویلین کپڑوں میں ملبوس ایجنٹوں نے اسے نرغے میں لے لیا اور نیچے موجود کار میں بٹھا کر لے گئے۔
انھوں نے اس کا وائرلس سیٹ' کوڈ بک اور پرانے بھیجے ہوئے پیغامات کا ریکارڈ اپنے قبضے میں لے لیا' جس کی مدد سے گسٹاپو نے اس کی دیگر ساتھی اہلکاروں کو گرفتار کیا۔ قید میں اس نے اپنے ساتھی قیدیوں کی مدد سے فرار ہونے کی کوشش کی' لیکن وہ ناکام رہے۔ نور کو 27 نومبر کو جرمنی میں فورزہائم جیل بھیج دیا گیا' جہاں اس کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 11 ستمبر 1944ء کو نور اور اس کے ساتھیوں کو میونخ کے قریب واقع ایک دوسرے کیمپ میں بھیجنے کے لئے روانہ کیا گیا' جہاں دو دن بعد پہلے اس کی تینوں ساتھی ایجنٹوں اور بعد میں اسے بڑی بیدردی سے قتل کر دیا گیا۔ مرنے سے پہلے نور نے بلند آواز میں ''آزادی'' کا نعرہ لگایا تھا۔ اسی رات اس کی ماں اور بھائی نے خواب میں یونیفارم میں ملبوس نور النساء کو دیکھا' جو انھیں بتا رہی تھی کہ اب وہ آزاد ہو چکی ہے۔
نور النساء عنایت خان کی شخصیت بیک وقت ہندوستانی' فرانسیسی اور برطانوی پس منظر رکھتی ہے۔ تاہم ہندوستان اور برطانیہ کی نسبت وہ فرانس میں زیادہ مقبول ہے' جہاں اسے ہیروئین کی حیثیت حاصل ہے۔ فرانس میںاس کے گھر کے نزدیک ایک چوک کو اس کے نام سے منسوب کیا گیا ہے اور ہر سال اس کی یاد میں تقریب بھی منعقد کی جاتی ہے۔ حال ہی میں برطانیہ میں بھی اس کی یاد میں مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔
نور النساء کارشتہ خاندانی حوالے سے شیر میسور ٹیپو سلطان سے جا ملتا ہے۔ ٹیپو سلطان کی ایک پوتی کی شادی' ہندوستان کے اس وقت کے نامور موسیقار مولا بخش سے ہوئی تھی' جسے راجہ کے دربار سے بہت انعام و اکرام ملے۔ مولا بخش کا خاندان میسور سے بڑودہ جا کر آباد ہو گیا، جہاں اس نے موسیقی کی ایک تربیت گاہ قائم کی۔ اس میں پنجاب کے ایک نوجوان رحمت علی خاں نے داخلہ لیا' جو کہ رفتہ رفتہ اس خاندان کے بہت قریب ہو گیا۔ مولا بخش کی ایک بیٹی خدیجہ بی بی کی شادی رحمت علی خاں سے ہو گئی۔
ان کے ہاں نور النساء کے والد' عنایت خان کی پیدائش ہوئی۔ عنایت خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد اور تصوف میں فیض سید ہاشم مدنی سے حاصل کیا۔ اپنے استاد کے کہنے پر انھوں نے صوفی ازم کے فروغ کے لئے امریکا اور دیگر یورپی ممالک کا رخ کیا۔ امریکا میں عنایت خان کی ملاقات اورا رے بیکر سے ہوئی' جس کا تعلق ا مریکہ کے ایک نمایاں خاندان سے تھا۔ بعدازاں دونوں نے فرانس میں شادی کر لی اورا رے بیکر کو آمنہ بیگم کا نام دیا گیا۔ نور عنایت خان ان کی بڑی بیٹی تھی۔
نور عنایت خان کی زندگی پر لکھی گئی سب سے جامع کتاب Spy Princess ہے' جسے ہندوستانی صحافی شرا بنی باسو نے لکھا ہے۔ ایک برطانوی مصنفہ جین اورٹن فلر نے بھی Madeleine کے نام سے نور عنایت کی کہانی لکھی تھی جو کہ 1952ء میں پہلی بار شائع ہوئی۔ نور کی زندگی پر فرانس میں ایک بیسٹ سیلر ناول بھی لکھا گیا ہے' لیکن اس میں حقیقت کم اور فکشن زیادہ ہے۔ممتاز بالی وڈ فلم ڈائریکٹر شیام بینیگل نور النساء کی زندگی پر فلم بھی بنانا چاہتے تھے، تاہم گزشتہ دنوں ایکسپریس کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ وہ اس حوالے سے کافی کام بھی کر چکے تھے لیکن مختلف مسائل کی وجہ سے یہ منصوبہ بیچ میں لٹک گیا۔ اب ایک اور بھارتی فلم میکر ظفر حئی اس پر فلم بنا رہے ہیں۔
نور عنایت خان نے خود بھی گوتم بدھ کی منتخب جاتک کتھائوں کا بچوں کے لئے ترجمہ کیا تھا' جو کہ پہلی مرتبہ کتابی شکل میں 1939ء میں Twenty Jataka Tales کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ معروف مصنف آصف فرخی نے اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا ہے' جو کہ ان دنوں اشاعت کے مراحل میں ہے۔