الیکشن کی سائنسدان جماعت

الزام تو آپ نے لگا دیا لیکن اس کو ثابت کون کرے گا۔ اور یہ کیسے کیا جائے گا؟


Ayaz Khan July 26, 2016
[email protected]

مسلم لیگ (ن ) کو اگر الیکشن کا سائنسدان کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔طویل مدت سے برسراقتدار یہ پارٹی الیکشن جیتنے کے سارے گُر جان چکی ہے۔ انھیں کسی الیکشن میں شکست دینا ایسے ہی ہے جیسے ''ڈان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے''۔ دیگر تمام جماعتیں الیکشن لڑنے کی تیاری کرتی ہیں جب کہ ن لیگ صرف الیکشن جیتنے کی۔ باقی جماعتیں اپنی تیاری کے مطابق بھرپور الیکشن لڑتی ہیں اور ن لیگ انتخابات میں کامیابی کے جھندے گاڑدیتی ہے۔ الیکشن جیتنے کے سائنسی ذرایع جس طرح ن لیگ استعمال کرتی ہے کوئی دوسری پارٹی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔

عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ وہ بڑے بڑے جلسے کرنے کے بعد گھر بیٹھ جاتے ہیں اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب انھیں جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ عمران خان نے 2013ء میں دھاندلی کا الزام لگایا اور 4حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا۔ ہمارے سسٹم میں چونکہ خرابیاں موجود ہیں اس لیے انھیں اس پراسس میں دو سال کے قریب لگ گئے۔ جو چار حلقے کھلے ان میں ایک جیسی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا جوڈیشل کمیشن قائم کیا گیا۔ اس کمیشن کی انکوائری رپورٹ نے پی ٹی آئی کے چیئرمین کو خاصا مایوس کیا۔

عمران کے لیے یہ رپورٹ بڑا سیاسی دھچکا تھا۔ پھر عمران خان نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور جہاں بھی الیکشن ہوا، انھوں نے مطالبہ کیا کہ پولنگ فوج اور رینجرز کی نگرانی میں کرائی جائے۔ کپتان کے مطالبے پر اس کا اہتمام بھی کر دیا گیا۔ ہر بار نتیجہ البتہ وہی نکلا۔ ایاز صادق کے حلقے سمیت تمام ضمنی انتخابات، لوکل باڈیز الیکشن اور حالیہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو پورا زور لگانے کے باوجود پہلے سے بھی کم کامیابی ملی۔ کپتان نے آزاد کشمیر کے الیکشن میں ہارنے کے بعد ن لیگ کو مبارکباد بھی دے ڈالی۔ بیرسٹر سلطان نے البتہ احتجاج کیا اور الزام لگایا کہ الیکشن میں ن لیگ نے سائنٹیفک طریقے سے دھاندلی کی۔ پیپلزپارٹی کی فریال تالپور بھی اسی قسم کے الزامات لگا چکی ہیں۔

الزام تو آپ نے لگا دیا لیکن اس کو ثابت کون کرے گا۔ اور یہ کیسے کیا جائے گا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے علیم خان این اے 122 میں ایاز صادق کے مقابلے میں ضمنی الیکشن ہارے تو انھوں نے الزام لگایا تھا کہ ووٹر لسٹوں میں ایسا ردو بدل کیا گیا کہ ان کے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کو دوسرے حلقوں میں ڈال دیا گیا اور ن لیگ کے ووٹر بڑھا دیے گئے۔ آزاد کشمیر میں ہونے والے الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی والے بھی اسی قسم کے الزامات لگا رہے ہیں۔ سنیٹر سعید غنی نے نتائج کے فوری بعد کہا تھا کہ یہ کس قسم کی ووٹر لسٹیں ہیں جن میں ہمیشہ ایک ہی پارٹی کے ووٹ بڑھتے ہیں۔ن لیگ کی لیڈر شپ ان الزامات کے جواب میں ہمیشہ کہتی ہے کہ انھیں پرفارمنس کی وجہ سے ووٹ ملتے ہیں۔ ان کا قائد نواز شریف اس ملک کا مقبول ترین لیڈر ہے۔ ان کے وزیرخزانہ اسحق ڈار کی پالیسیوں کی وجہ سے معیشت انتہائی مضبوط ہو گئی ہے۔

لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے پراجیکٹس کی بھرمار ہے۔ انگنت ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ ہر الیکشن سے پہلے اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان اس سے علیحدہ ہے۔ حکومت کے مخالفین یا ناقدین کو یہ سب نظر نہیں آتا تو اس میں نواز سرکار کا کیا قصور ہے؟ انھیں اگر بیروزگاری ، مہنگائی، کرپشن اور امن و امان کی خراب صورتحال ہی دکھائی دیتی ہے تو اس میں میاں صاحب یا ان کی ٹیم کیسے قصور وار ٹھہرائی جا سکتی ہے۔ عمران خان نے آزاد کشمیر میں الیکشن سے پہلے ہی پانامہ لیکس پر 7اگست سے ملک گیر احتجاج کا اعلان کر دیا تھا۔ احتجاج کے اس اعلان پر آزاد کشمیر الیکشن جیتنے پر مظفر آباد میں کھڑے ہو کر وزیراعظم نواز شریف نے پھبتی کسی تھی کہ دو سیٹوں والے ہمارے خلاف کیا احتجاج کریں گے۔ جیت کی خوشی میں رکھے گئے اس جلسے میں میاں صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ کامیابی دھرنے سے نہیں کچھ کرنے سے ملتی ہے۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت مخالف تحریک چلانے کے لیے کسی تحریک کی تاریخ کا اعلان تو نہیں کیا البتہ یہ کہہ رکھا ہے کہ آزاد کشمیر کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تو پھر ایسا احتجاج ہو گا کہ لوگ 2014ء کا دھرنا بھول جائیں گے۔ بلاول بھٹو فی الوقت وزیراعلیٰ اور سندھ کابینہ میں تبدیلیوں کے ٹاسک میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انھیں رینجرز کی مدت میں توسیع کا معاملہ بھی درپیش ہے۔ امید ہے کہ یہ دونوں کام ہفتے 10دن میں پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں گے۔ اس کے بعد دیکھتے ہیں وہ کیسے میدان میں آتے ہیں۔ بلاول بھی اگر اگست کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں احتجاج کا اعلان کر دیتے ہیں تو پھر ممکن ہے کسی اسٹیج پر پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی ایک ساتھ احتجاج کرتی ہوئی نظر آئیں۔ اگست میں کیا ہوگا؟ ابھی اس بارے میںکچھ نہیں کہا جا سکتا۔ 7اگست سے احتجاج شروع کرنیکا اعلان کرنے والی پی ٹی آئی نے ابھی تک بظاہر ہوم ورک بھی شروع نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی بھی تاحال دیگر مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔ آج کی تاریخ تک ن لیگ مضبوط لگ رہی ہے۔ مواقع سے فائدہ اٹھانا حکمران جماعت پر ختم ہے۔

نواز شریف نے لندن سے واپس آنے کے بعد جب جاتی امراء کے محل میں رہائش اختیار کر لی تو مختلف قسم کی قیاس آرائیوں نے جنم لیا۔ ٹانگ پر زخم کی وجہ سے انھیں بخار ہو گیا تو پھر کچھ طرف سے یہ آواز یں بھی آئیں کہ وزیراعظم شاید علاج کے لیے دوبارہ لندن جائیں گے۔ پھر اچانک یہ خبر آئی کہ نواز شریف اسلام آباد جا رہے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت جانے سے قبل وزیراعظم نے نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کر لیا۔ اب یہ حسین اتفاق ملاحظہ کریں۔ نواز شریف 2ماہ بعد واپس وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو اسی دن یعنی 21 جولائی کوآزاد کشمیر میں الیکشن تھے۔

نواز شریف لاہور سے طیارے میں دوران سفر ایک فائل کا مطالعہ کر رہے تھے جس کی تصویر میڈیا پر چلی، اس فائل کے اوپر جی ایچ کیو لکھا ہوا تھا۔22جولائی کو دن کے پہلے ہاف میں سیکیورٹی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف بھی موجود تھے۔اس اجلاس سے ہٹ کر وزیراعظم اور آرمی چیف کی الگ ملاقات بھی ہوئی۔ دوسرے ہاف میں جیت کا جشن منانے میاں صاحب مظفر آباد پہنچ گئے۔ یعنی دو دن میں ساری قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں اور حکومت ایک بار پھر لوہے کی طرح مضبوط نظر آنے لگی۔

یہ ماننا پڑے گا ن لیگ الیکشن کی سائنسدان ہے۔ اپوزیشن نے مستقبل میں اس کا مقابلہ کرنا ہے تو جیت کا لیگی فارمولے کا توڑ تلاش کرے ورنہ الیکشن میں اس جماعت کو ہرانامشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔