قومی زبان و لباس سے عدم دلچسپی
پاکستانی عوام کے لیے یہ خبر خوش آیند ہے کہ لندن کے نومنتخب مسلمان میئر کا تعلق پاکستان سے ہے
پاکستانی عوام کے لیے یہ خبر خوش آیند ہے کہ لندن کے نومنتخب مسلمان میئر کا تعلق پاکستان سے ہے اور برطانیہ ہی کے زیر تحت اسکاٹ لینڈ اسمبلی کے پاکستانی نژاد نو منتخب رکن اسمبلی حمزہ یوسف نے اسمبلی میں آکر اپنی رکنیت کا حلف ہماری قومی زبان اردو میں اٹھایا اور ملک کے ان لوگوں کو حیرت زدہ کردیا جو صحیح انگریزی نہ آنے کے باوجود منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بولنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کے آئین میں ارکان پارلیمنٹ نے اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا تھا مگر اس کے بعد ملک کے کسی بھی حکمران کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس اہم فیصلے پر عمل بھی کراتے۔
پاکستان میں مختصر عرصہ رہنے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس ایس خواجہ کو یہ کریڈٹ حاصل ہے کہ انھوں نے حکم جاری کیا کہ قومی زبان اردو کو فیصلے کے مطابق سرکاری اداروں میں فوری طور پر نافذ کیا جائے ۔ جسٹس خواجہ اگر ہوتے تو اس فیصلے پر عمل بھی کرا دیتے مگر وہ اپنی مدت مکمل کرکے سبکدوش ہوگئے اس لحاظ سے جسٹس ایس خواجہ کو اردو کے حامی محب وطن حلقوں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا تھا جس پر مشرقی پاکستان میں بنگالیوں نے مخالفت بھی کی تھی مگر قائد کی رحلت کے بعد کسی پاکستانی حکمران نے قائد اعظم کے اعلان کا پاس نہیں رکھا اور 1973 کے آئین میں بھی اردو کو ملک کی سرکاری زبان قرار دیے جانے کے باوجود چالیس سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی عمل نہیں ہوا۔
کہنے کو شلوار قمیص کو قومی لباس ضرور قرار دیا جاتا ہے اور ملک کی بیوروکریسی کے قریب اس قومی لباس کی کوئی اہمیت نہیں اور تمام سرکاری افسروں کو انگریزی لباس سب سے زیادہ پسند ہے اور ان کی سرکاری زبان اردو نہیں انگریزی ہے کیونکہ انگریزی سوٹ پہن کر انگریزی بولنا ہی ان کے لیے باعث فخر اور قومی لباس پہننا اور قومی زبان ان کے لیے شرم کا باعث بن چکی ہے۔
بھارت نے قیام پاکستان کے بعد اپنی تمام ریاستوں سے اردو کو باہر نکال دیا ہے اور وہاں سرکاری زبان ہندی ہے اور اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھ کر اردو سے نفرت کی جانے لگی ہے حالانکہ بھارت سے تعلق رکھنے والے ہندو ادیبوں اور شاعروں میں سیکڑوں ایسے معتبر نام ہیں جنھوں نے اردو کو اپنایا اور دنیا بھر میں اردو زبان نے اپنا ایسا مقام بنالیا جو رہتی دنیا تک ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اردو زبان ان کی احسان مند ہے اور رہے گی جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی مگر انھوں نے اردو کو اپنی مادری زبان سے بھی زیادہ اہمیت دی اور اردو سے تعلق پر ہمیشہ فخر کیا جس کا اظہار حال ہی میں قائم مقام شیخ الجامعہ کراچی ڈاکٹر سلیمان ڈی عمر نے کیا کہ اردو میری مادری نہیں پسندیدہ ترین زبان ہے۔ ڈاکٹر عطا الرحمن کا بھی کہنا ہے کہ ہمیں اردو بولنے پر فخر کرنا چاہیے۔ملک کے تمام صوبوں اور علاقوں میں اردو بولی اور سمجھی ہی نہیں جاتی بلکہ باہمی رابطوں کی زبان ہے جس نے ملک کے تمام لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رکھا ہے اور ملک کی صنعتیں، تجارت اور عام کاروبار بھی اردو میں ہی ہو رہا ہے مگر عوام کی اکثریت سے جدا حیثیت ظاہر کرنے کے اردو مخالفین نے انگریزی بولنے اور انگریزی سوٹ پہننے کو اپنا فرض اولین بنا رکھا ہے جس میں سرکاری افسران ہی نہیں بلکہ حکمران طبقہ پیش پیش ہے اور وہ قومی لباس پہننا اور قومی زبان بولنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
اب تو دیکھا دیکھی شہروں میں ولیمہ کے روز سوٹ پہننا کلچر بنالیا گیا ہے اور اپنی شادی پر معمولی پڑھے لکھے ہی نہیں بلکہ ان پڑھ نوجوان بھی سوٹ پہننا ضروری سمجھتے ہیں اور سوٹ پہن کر ٹائی لگائے بغیر ان کا ولیمہ مکمل ہی نہیں ہوتا اور صرف ولیمے پر سوٹ پہننے کے لیے ہزاروں روپے خرچ کردیے جاتے ہیں اور سوٹ بے کار ہوکر رہ جاتا ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی سینیٹ کی ایک تقریب میں اظہار خیال کے لیے آئے تھے جہاں سوٹ اور انگریزوں کے ہی نہیں بلکہ بڑھاپے میں بالوں کی پونی کے شوقین چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے انگریزی میں تقریر کرکے چیف جسٹس کا خیر مقدم کیا اور جواب میں فاضل چیف جسٹس نے ان کی انگریزی کا جواب اردو میں تقریر کی مگر میاں ربانی نے اس کے بعد بھی تعلیمی تقاریب میں انگریزی بولنا نہیں چھوڑا اور تعلیمی اداروں میں منعقدہ تقاریب میں وہ سوٹ پہن کر اور انگریزی میں تقریر کرکے اپنا شوق پورا کرلیتے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف کے لیے سنتے ہیں کہ وہ بے نظیر بھٹو جیسی انگریزی نہیں بول سکتے مگر غیر ملکی دوروں میں خاص طور پر انگریزی سوٹ پہن کر اپنی انگریزی میں لکھی تقریر پڑھ کر کام چلا لیتے ہیں ویسے وزیر اعظم کو بھی قومی لباس سے زیادہ سوٹ زیادہ پسند ہیں اور غیر ملکی دوروں میں سوٹ پہننا ان کی ہمیشہ ترجیح رہی ہے۔ وزیر اعظم کو جب سوٹ اس قدر پسند ہیں تو صدر ممنون حسین بھلا کیسے پیچھے رہ سکتے تھے ، شاید وہ بھی سمجھتے ہیں کہ سوٹ پہنے بغیر غیر ملکی دورے نہیں ہوسکتے اور انھیں سوٹ پہن کر ہی حکمران سمجھا جائے گا۔ پاکستان کے برعکس بھارت اور بعض دیگر ممالک کے حکمرانوں کو اپنے ملک ہی میں نہیں بیرون ملک بھی سوٹوں میں نہیں دیکھا گیا اور وہ ہر جگہ اپنے ملکی لباس ہی میں نظر آئے۔
قومی زبان اور قومی لباس ہر ملک کی پہچان ہوتا ہے مگر ہمارے حکمران اردو کی بجائے انگریزی میں خطاب اور وہ بھی سوٹ پہن کر کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں جو حقیقت میں ان کا احساس کمتری ہے۔ راقم کو اپنے آبائی شہر شکارپور میں بھٹو کابینہ کے وفاقی وزیر تاج محمد جمالی کی وہ بات یاد ہے جب انھیں سپاف کے کارکنوں نے سندھی میں تقریر کرنے کو کہا تو انھوں نے کہا تھا کہ مجھے سندھی آتی ہے مگر میں اردو میں تقریر کروں گا کیونکہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔
سپریم کورٹ نے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا جو حکم دیا تھا اس پر کئی ماہ گزر جانے کے بعد بھی عمل شروع نہیں ہوسکا ہے اور سرکاری تقاریب میں وفاقی وزرا انگلش ہی میں خطاب کرتے ہیں اور سوٹ کے بغیر تو لگتا ہے کہ وہ خود کو وزیر ہی نہیں سمجھتے حالانکہ اندرون ملک وہ اردو میں تقریریں کرسکتے ہیں۔ ہمارے حکمران غیر ملکی دوروں میں تو کیا سعودی عرب کے دورے پر بھی سوٹ پہنے بغیر نہیں جاتے کیا کبھی سعودی حکمرانوں اور ایرانی حکمرانوں کو سوٹوں میں غیر ملکی دورے کرتے دیکھا گیا ہے؟ بڑے اسلامی ملک تو کیا غیر مسلم ریاستوں کے متعدد ایسے حکمران ہیں جو پاکستان اپنے قومی لباس میں آئے مگر ہمارے حکمران سوٹ کے بغیر دورے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
قوم کو سادگی کا درس دینے والے پاکستانی حکمرانوں نے کبھی سوچا کہ ان کے ملک کے عوام کی اکثریت جسم ڈھانپنے کے لیے اپنی خوراک اور غیر ضروری اخراجات روک کر اپنا تن ڈھانپتی ہے گزشتہ پی پی دور میں صدر اور وزیر اعظم سمیت وزیروں میں مہنگا غیر ملکی سوٹ پہننے کے مقابلے ہوتے تھے۔ سوٹ پہن کر غیر ملکی دوروں میں حکمران اپنی انا کی تسکین تو کرلیتے ہیں مگر عوام اپنے حکمرانوں کو بھی اپنی طرح سادہ دیکھنا چاہتے ہیں۔