مزدور بچے اور ہماری ذمے داری
اس ایکٹ پر موثر درآمد کے لیے ضلعی سطح پر ویجیلنس کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی
یہ امر قابل ستائش ہے کہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے صوبائی اسمبلی سے منظور شدہ جبری مشقت کے خاتمے کے بل 2015 کی توثیق کردی ہے، گورنر سندھ کے دستخط کے بعد اسے سندھ بانڈڈ لیبر سسٹم (ابالیشن) ایکٹ 2015 کہا جائے گا، اس کا اطلاق پورے صوبہ سندھ پرفوری ہوگا۔ ایکٹ کے اطلاق کے بعد جو کوئی شخص کسی بھی فرد کو جبری مشقت کے لیے مجبور کرے گا اسے 2 سے 5 سال کی سزا یا ایک لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جاسکیں گی۔
اس ایکٹ پر موثر درآمد کے لیے ضلعی سطح پر ویجیلنس کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی، جو مقامی منتخب نمایندوں، ضلعی انتظامیہ، بار ایسوسی ایشنز، میڈیا، معتبر سماجی سروسز اور محکمہ محنت کے نمایندوں پر مشتمل ہوں گی، اگر کوئی کمپنی جبری مشقت میں ملوث پائی گئی تو اس کے سربراہ کے خلاف ایکٹ کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ پاکستان میں بچوں کی مشقت کے حوالے سے آخری سروے 1996 میں کیا گیا تھا۔
2014 کے چائلڈ لیبر انڈیکس کے مطابق پاکستان 196 ممالک میں پست ترین سطح پر ہے، یعنی نویں نمبر پر ہے۔ پاکستان بھر میں ایک کروڑ 2 لاکھ بچے جب کہ سندھ بھر میں 2 لاکھ 98 ہزار بچے مزدوری کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی کی شاہراہوں پر 5 لاکھ بچے مشقت کرنے پر مجبور ہیں جب کہ مختلف فیکٹریوں اور کارخانوں میں 30 لاکھ بچے مشقت کرتے ہیں، اس حوالے سے ملک میں دی ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1992 (ای سی اے) کا قانون موجود ہے، جس کے مطابق 14 سال سے کم عمر بچے کو فیکٹری یا دکان پر کسی خطرناک کام کے لیے نہیں رکھا جاسکتا۔ یونیسکو کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 10 سے 14 سال کی عمر کے 13 فیصد بچے مشقت کرتے ہیں۔
پاکستان عالمی ادارہ برائے محنت کے معاہدے پر بچہ مزدوری کے حوالے سے دستخط کرچکا ہے۔ ملک میں بچوں کی آبادی کا 35 فیصد چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتا ہے، آج بھی دنیا کا ہر دسواں بچہ محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہے۔ بچوں کی عالمی آبادی کا 11 فیصد یعنی 12 کروڑ بچے محنت کش ہیں اور ان محنت کش بچوں کا 53 فیصد صرف ایشیائی ممالک سے ہیں۔ ورلڈ چائلڈ لیبر انڈیکس 2014 کے اعدادوشمار کے مطابق عالمی سطح پر چائلڈ لیبر کے حوالے سے سب سے متاثرہ ملک ایریٹریا ہے، جب کہ صومالیہ دوسرے اور جمہوریہ کانگو تیسرے نمبر پر ہے۔ اس طرح یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ چائلڈ لیبر کا مسئلہ صرف پاکستان ہی کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا ہے۔
بچے، جنھیں ہم مستقبل کا معمار کہتے ہیں، جو آنگن کے پھول ہوتے ہیں۔ بچے کا پہلا اسکول ماں کی گود ہے، بچوں کی نگہداشت، نشوونما کرنا والدین کی ذمے داری ہے۔ بچوں کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آنا چاہیے، بچے سچے ہوتے ہیں، بچے حساس ہوتے ہیں، بچے معصوم ہوتے ہیں۔ یہ طبقہ ہے مستقبل کے معمار اور حال کا مزدور (بچہ) جس کے نام کو کیش کرانے کے لیے معاشرے میں نام پیدا کرنے کے لیے 'آج کی شام بچوں کے نام' پر مجلس مذاکرہ منعقد کرائی جاتی ہیں اور اپنی اپنی رٹ سنا کر چلتے جاتے ہیں اور بس ہوگیا فرض پورا۔ لیکن آج تک بچوں کے بنیادی مسائل حل کرانے کے لیے کسی بھی جانب سے عملی جدوجہد کا آغاز نہیں کیا گیا، جب کہ اقوام متحدہ بچوں کے مسائل حل کروانے کے لیے ایک طویل چارٹر آف ڈیمانڈ دنیا بھر کے سے منظور کرواچکا ہے اور ہمارے وطن عزیز پاکستان کے 1973 کے آئین میں بچوں کے حقوق کی پاسداری کا واضح ذکر موجود ہے۔ اگرچہ ہمارے یہاں چائلڈ لیبر کا قانون موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد دور دور تک نظر نہیں آتا۔
ملک بھر میں گزشتہ کئی سال سے ہوش ربا مہنگائی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور شدید مالی بدحالی نے متوسط اور نچلے طبقے کی زندگی میں شدید مشکلات پیدا کی ہوئی ہیں اور لاکھوں لوگ اپنے مالی مسا ئل کے حل کے لیے اپنے نوعمر بچوں سے محنت و مشقت کرانے پر مجبور ہیں، جن کی عمریں 6 سے 12 سال تک ہیں، جن کی تعداد ملک بھر میں ایک کروڑ سے زائد ہے، جو محنت مزدوری کے ذریعے اپنے والدین کے مسائل حل کرنے میں سرگرداں ہیں۔ سخت موسمی حالات میں یہ بچے ہوٹلوں، گیراجوں، گھروں، دکانوں، ٹھیلوں، سبزی، اناج منڈیوں میں کام کرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں، جب کہ ایسے بچے بوٹ پالش، مشروبات، پھولوں، آلو چپس کی فروخت، کاشت کاری، بھٹہ، اخبارات کی ترسیل و فروخت اور گاڑیوں کی صفائی کے ذریعے آمدنی حاصل کررہے ہیں۔
ان بچوں میں افغان بچے بھی شامل ہیں جو گلی گلی اور کچراکنڈیوں میں کچرا چنتے ہیں، جنھیں بیچ کر چند پیسے کما لیتے ہیں۔ بچوں کی یومیہ اجرت بہت کم ہوتی ہے، اس لیے کاروباری حضرات اپنے یہاں زیادہ زیادہ تر کم عمر لڑکوں کو نوکری پر لگا لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ قانونی جرم ہے، مگر سرعام یہ جرم جاری ہے۔ ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا لاڈلا پڑھ لکھ کر بڑا افسر بنے، مگر حالات کی چکی اسے اپنے چکر میں لگا دیتی ہے۔ نتیجہ غریب غریب تر، امیر، امیر تر ہوتا جارہا ہے۔
نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں بیت المال کا محکمہ قائم کیا گیا تھا۔ بیت المال کے تحت ایک مہم چلائی گئی تھی کہ جو والدین غربت کے باعث اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج سکتے وہ اپنے بچوں کا نام بیت المال میں درج کرادیں تاکہ ان کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ پھر واقعی انتظام کیا گیا۔ جو مزدور بچے تھے ان کے لیے ملک بھر میں بیت المال اسکول قائم کیے، یہ اسکول مزدور بچوں سے آباد ہوگئے تھے۔
ان بچوں کو ماہانہ معقول وظیفہ اور کھانا بھی ملتا تھا اور ساتھ ان کے والدین کو بھی مالی امداد دی جاتی تھی اور والدین کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو ذمے داری سے اسکول بھیجا کریں۔ جو والدین ایسا نہیں کریں گے انھیں قانونی سزا دی جائے گی۔ اس اقدام سے ملک میں چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی ہوئی تھی کہ نواز شریف کی حکومت برخاست کردی گئی تھی، جس کے ساتھ بیت المال اسکول کا نظریہ بھی ختم ہوگیا۔ ایک بار پھر چائلڈ لیبر عروج پر ہے اور ملک میں نواز شریف کی حکومت ہے۔ توقع ہے وہ اس جانب دوبارہ اپنی توجہ مبذول کریں گے۔
ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ غربت اور مہنگائی کے باعث ہی بچے مشقت کرنے پر مجبور ہیں، بے روزگاری، مہنگائی اور غربت ہی نے بچوں کے ہاتھوں سے کتابیں چھین لی ہیں، جب انسان کے پاس روٹی، کپڑا اور مکان ہوگا تو ہر والدین کے بچے اچھے طالب علم بنیں گے۔ چائلڈ لیبر کے حوالے سے ملک گیر سروے کی ضرورت ہے تاکہ چائلڈ لیبر کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جا سکیں۔
چائلڈ لیبر کو روکنے کے لیے صوبائی چائلڈ لیبر یونٹوں کو اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ بچے مستقبل کے معمار ہیں اور پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25a کے مطابق 16 سال کی عمر تک ہر بچے کو مفت تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ غربت کے خاتمے تک بچوں کی مزدوری ختم نہیں ہوگی۔ حقوق و تحفظ اطفال کو مزید بہتر اور معیاری بنانے کے لیے عالمی قوانین سے مدد لی جائے، تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھی میدان میں آکر اپنا احسن کردار ادا کرنا ہوگا، بچوں کے مسائل پر توجہ نہ دی گئی اور معاملات جوں کے توں رہے تو خدانخواستہ ہمیں مستقبل میں بدترین بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔