خلابازپُراسرار طورپرضعف بصارت کا شکار

مریخ تک انسانی رسائی کی کوششیں کھٹائی میں پڑجانے کا خدشہ


مریخ تک انسانی رسائی کی کوششیں کھٹائی میں پڑجانے کا خدشہ ۔ فوٹو : فائل

RAWALPINDI: یہ 2005ء کی بات ہے، خلانورد جان فلپس سطح ارض سے چار کلومیٹر کی بلندی پر، بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر اپنے کام میں مصروف تھا۔ تھکن محسوس ہوئی تو کھڑکی کے پاس آکر بیٹھ گیا اور زمین کی طرف نظر دوڑائی۔ نیلے اور سفید رنگوں سے سجا زمین کا گولا اسے کچھ دھندلایا ہوا محسوس ہوا۔

اس نے آنکھیں ملیں اور پھر آبائی سیارے کو دیکھا مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ اب بھی زمین اسے دھندلی ہوئی نظر آرہی تھی اور اس کی نگاہ ایک نقطے پر ٹھہر نہیں پارہی تھی۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ بینائی کی یہ کیفیت اس کی زمین پر واپسی پر بھی برقرار تھی۔ ٹیسٹ ہوئے تو پتاچلا کہ بینائی کمزور ہوگئی تھی۔ یہ تشویش ناک بات تھی کیوں کہ خلائی اسٹیشن کی طرف روانگی کے وقت جان کی نگاہ درست کام کررہی تھی۔

ضعف بصارت کی وجہ دریافت کرنے کے لیے ناسا کے ماہر ڈاکٹروں نے ایم آر آئی اور ریٹینل اسکین سمیت متعدد ٹیسٹ کیے۔ ان ٹیسٹوں سے پتا چلا کہ نہ صرف جان کی نگاہ میں فرق آگیا تھا بلکہ اس کی آنکھیں بھی بھینگی سی ہو گئی تھیں۔ مسلسل علاج کے بعد جان کی نگاہ قدرے بہتر ہوگئی مگر اس میں مزید بہتری نہ آسکی۔ آج بھی اسے چشمے کے بغیر کوئی شے واضح دکھائی نہیں دیتی۔ ان گنت ٹیسٹوں کے بعد بھی ناسا سے منسلک چوٹی کے ڈاکٹر اور دوسرے طبی ماہرین جان کے ضعف بصارت کا سبب نہیں جان پائے۔

بعدازاں کئی اور خلاباز بھی اس پراسرار مرض کا شکار ہوگئے جس نے انھیں ضعف بصارت میں متلا کردیا۔ تمام خلابازوں میں ایک قدر مشترک تھی کہ یہ سب طویل عرصے کے مشن پر عالمی خلائی اسٹیشن پر تھے۔ طویل المدت مشن انجام دینے والے 80 فی صد خلاباز اس پُراسرار مرض میں مبتلا ہوکر نظر کی عینک لگانے پر مجبور ہوگئے۔ اس مرض کی وضاحت کے لیے محققین نے ایک نظریہ پیش کیا۔ جس کی بنیاد پر اسے Visual Impairment Intracranial Pressure Syndrome ( وی آئی آئی پی) کا نام دیا۔

اس نظریے کے مطابق زمین پر جسم کے اندر گردش کرنے والے سیال مادّے کشش ثقل کی وجہ سے پیروںکی جانب کھنچتے ہیں، مگر خلا میں ان پر کشش ثقل کی قوت عمل نہیں کرتی چناں چہ کھوپڑی میں پائے جانے والے مائعات دماغ پر آنکھوںکے پیچھے کی جانب دباؤ ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے ضعف بصارت اور آنکھوں کی ظاہری ساخت میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ بہ ظاہر یہ نظریہ معقول نظر آتا ہے مگر اسے ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔

ناسا کے سینیئر فلائٹ سرجن جے ڈی پوک کہتے ہیں کہ آنکھ کے ڈیلے کے پچھلی جانب پڑنے والے دباؤ کی پیمائش ریڑھ کی ہڈی یا کھوپڑی کی پشت پر سوراخ کے ذریعے ہی ممکن ہے مگر یہ طریقے خطرناک ہیں۔ ان کے دوران انفیکشن کا خطرہ ہوتا ہے، علاوہ ازیں خلا میں ان پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔ اب جب کہ ناسا مریخ کی جانب خلابازوں کی روانگی ممکن بنانے کی کوشش کررہی ہے، یہ پُراسرار مرض ان کوششوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ظاہرہے کہ کوئی بھی خلاباز ضعف بصارت کی قیمت پر مریخ کی جانب پرواز نہیں کرنا چاہے گا۔

کئی ادارے اس مرض یا کیفیت کا سبب جاننے اور اس کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مگر تجربات کے بعد ان کا کہنا ہے کہ اس مرض پر تحقیق خلا ہی میں ممکن ہے کیوں کہ زمین پر اتنے طویل وقت تک زیرتجربہ رضاکاروں کو خلا میں رکھنا ممکن نہیں۔ اس طرح یہ مرض ناسا کے لیے درد سَر بن گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں