امن کی تلاش
پولیس اہلکاروں کو فوجی سطح کی ٹریننگ دی جائے تو امید کی جاسکتی ہے کہ کراچی جلد امن کا گہوارہ بن جائے گا۔
LAHROE:
ملک کے طول و ارض میں گزشتہ کئی سال سے امن و امان کی مخدوش صورتحال نے ہر محب وطن پاکستانی کو فکرمند اورخوفزدہ کر رکھا ہے، آئے دن ہونے والے بم دھماکوں، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے خونریز واقعات نے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی کو بری طرح متاثرکیا ہے۔ ملک کو داخلی اور خارجی ہر دو حوالوں سے خدشات اور خطرات کا سامنا ہے۔
اس تناظر میں صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اورآرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی حالیہ ملاقات و مشاورت اہمیت کی حامل ہے،یکم محرم الحرام سے چاروں صوبوں کے حساس شہروں میں دہشت گردی کے واقعات میں یکدم تیزی آگئی تھی اور اس خدشے کا اظہار کیا جارہا تھا کہ 9 اور 10 محرم کو دہشت گرد عناصر امامؓ عالی مقامؓ کی کربلا میں شہادت کے سوگ میں نکالے جانے والے عزاداروں کے تعزیتی جلوسوں اور ماتمی مجلسوں کو نشانہ بناسکتے ہیں۔
لہٰذا امکانی خطرے کے پیش نظر وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک کی نگرانی میں وفاقی و صوبائی حکومتوں نے سیکیورٹی کے سخت حفاظتی اقدامات کیے تھے، ملک کے 52 سے زائد شہروں میں موبائل فون سروس پر پابندی عائد تھی اور موٹرسائیکل پر ڈبل سواری بھی ممنوع تھی۔ پولیس، رینجرز، خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر ملک بھر میں نکلنے والے عزاداروں کے ماتمی جلوسوں اور مجلسوں کی حفاظت کی۔
نتیجتاً ڈیرہ اسمٰعیل خان میں ہونے والے بم دھماکے، جس میں 8 افراد جاں بحق ہونے کے علاوہ ملک کے کسی بھی حساس شہر میں دہشت گرد عناصر، دھمکیوں کے باوجود کوئی بڑی خونریز کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔ وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے بھرپور پلاننگ کے ذریعے تمام سیکیورٹی اداروں کو ہمہ وقت ہائی الرٹ رکھا، کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوجی دستے بھی تیار تھے، تاہم اس کی نوبت نہ آئی۔ یوم عاشور پر پولیس، رینجرز و دیگر سیکیورٹی اہلکاروں کی کارکردگی قابل تعریف ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ بالخصوص کراچی میں پولیس و رینجرز نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔
یومِ عاشور کے موقعے پر کراچی میں دہشت گردی کی بڑی کارروائی کا خدشہ تھا اسی لیے یہاں کے تمام ادارے پوری طرح الرٹ تھے، سی آئی ڈی پولیس نے ایک خفیہ اطلاع پر منگھو پیر کے علاقے سلطان آباد میں کارروائی کرکے ایک کار، 2 خودکش جیکٹس اور بھاری اسلحہ اور 3 من بارود برآمد کیا۔ پولیس مقابلے میں ایک دہشت گردگرفتار جب کہ ایک ہلاک ہوگیا۔ وزیر داخلہ رحمٰن ملک کے بقول تاریخ میں اتنی بڑی مقدار میں بارود پہلے کبھی برآمد نہیں ہوا، یہ بارود ایک کلومیٹر کے علاقے میں تباہی پھیلا سکتا تھا۔
اگر خدانخواستہ دہشت گرد عناصر اپنے ہدف تک پہنچ کر دھماکا کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو یقیناً کراچی میں دہشت گردی کا شاید یہ سب سے بڑا، خوفناک اور الم انگیز سانحہ ہوسکتا تھا اور درجنوں افراد خون کی ہولی کی نذر ہوجاتے، لیکن قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور کراچی کو ایک بڑے جانی و مالی نقصان سے بچالیا، جس کے لیے وہ بلاشبہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ایس ایس سی آئی ڈی چوہدری اسلم پہلے ہی دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں، انھوں نے خطرے کے باوجود اپنی ٹیم کے ہمراہ دلیرانہ کارروائی کرکے کراچی کو خونیں حادثے سے بچالیا، جس کے لیے وہ قابل مبارکباد ہیں۔ حکومت نے متعلقہ اہلکاروں کے لیے 20 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے، جو خوش آیند فیصلہ ہے تاہم انھیں اگلے گریڈ میں ترقیاں بھی دی جانی چاہئیں تاکہ ان کے حوصلے بلند ہوں اور وہ مزید جانفشانی کے ساتھ کام کریں۔
رینجرز گزشتہ کئی سال سے کراچی میں امن و امان کے قیام کی ذمے داری سنبھالے ہوئے ہے، اسے پولیس کی بھرپور معاونت بھی حاصل ہے، اس کے باوجود شہر قائد میں وقفے وقفے سے خودکش حملے، بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کی وارداتیں ہو رہی ہیں اور شہریوں کا گھر سے نکلنا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے، اسی لیے ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشانات اٹھائے جارہے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ کراچی میں فوجی آپریشن کے مطالبے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، اسلحے سے پاک شہر اور ملک کے حوالے سے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں قراردادیں بھی پیش کی گئی ہیں، لیکن مقام اطمینان ہے کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ کراچی میں فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں، وہاں پولیس اور رینجرز بہتر اور مؤثر طور پر کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔
یوم عاشور کے موقعے پر قیام امن کے حوالے سے پورے ملک میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص پولیس اور رینجرز کی کارکردگی قابل تعریف رہی، اسے مزید بہتر بنانے کے لیے حکومتی سطح پر موثر اقدامات کیے جانے چاہئیں تاکہ اہلکاروں کا مورال بلند ہو۔ پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنا بے حد ضروری ہے، دو کروڑ کی آبادی والے شہر میں نفری بہت کم ہے، اس میں اضافہ کرکے جدید آلات و اسلحے سے لیس کیا جائے اور زیادہ اختیارات دے کر ''فری ہینڈ'' دے دیا جائے تو کراچی میں امن وامان کے قیام میں بہتری لائی جاسکتی ہے، فوجی آپریشن تو یہاں ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں اور مخصوص لوگوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن فوجی آپریشن کے مثبت نتائج برآمد ہونے کے بجائے مسائل پیچیدہ ہوتے اور اُلجھتے چلے گئے۔
کیونکہ کبھی سیاسی مصلحتیں آڑے آتی رہیں اور کبھی داخلی مجبوریوں کے باعث مختلف جانب سے آنے والے دباؤ کو برداشت کرنا پڑتا ہے، جس کا بلاواسطہ اور بالواسطہ فائدہ دہشت گرد عناصر اور جرائم پیشہ افراد کو پہنچتا ہے جو اپنے آقاؤں کی آشیر باد سے آزادانہ وارداتیں کرکے منی پاکستان کو لہو لہان کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور یہاں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوپاتا۔ نقصان صرف عام آدمی کو پہنچتا ہے، شہر کی کاروباری سرگرمیاں معدوم ہوچکی ہیں، تاجر و صنعت کار کراچی سے ہجرت کرتے جا رہے ہیں اور بیرونی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری سے گریزاں ہیں، دہشت گرد عناصر نہ صرف عام آدمی بلکہ سیکیورٹی اہلکاروں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔
قبائلی علاقوں میں فوج کئی سال سے دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار ہے، 5 ہزار سے زائد جوان شہید ہوچکے، کراچی میں فوج کی تعیناتی اسے مزید الجھانے کے مترادف ہوگی، ملک کے دیگر حساس علاقوں اور سرحدوں کی حفاظت پر توجہ بٹ جائے گی۔ مناسب یہی ہے کہ کراچی میں پولیس میں اصلاحات کی جائیں، نفری میں اضافہ کیا جائے، پولیس اور رینجرز کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع دیا جائے، سیاسی مداخلت سے گریز کیا جائے، پولیس اہلکاروں کو فوجی سطح کی ٹریننگ دی جائے تو امید کی جاسکتی ہے کہ کراچی جلد امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ امن کی تلاش کے لیے تمام ضروی اقدامات کیے جانے چاہئیں۔