کچھ احتساب قرض نادہندگان کا بھی
وہی شخص کسی کا بے لاگ احتساب کرسکتا ہے جس کا دامن خود کرپشن اور مالی بد عنوانیوں سے پاک اور صا ف ستھرا ہو۔
کسی ملک کو لاغر،کمزور، بے بس،لاچارومجبور کر نے کی سزا کیا ہونی چاہیے، اس پر ہم نے شاید ابھی تک سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک وقوم کو لوٹنے والے آج بھی مزے سے سینہ تان کے گھوم پھر رہے ہیں اور انھیں کوئی چھونے والا بھی نہیں ہے۔ اس روئے زمین پر شاید ہی کوئی دوسرا ایسا ملک ہوگا جسے اس بے دردی سے لوٹا گیا ہے کہ جس کی کوئی مثال ہمیں دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
20 اکتوبر 2010 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک لسٹ جاری کی جس میں 50 بڑے بڑے لون ڈیفالٹرز کے نام ظاہر کیے گئے جنھوں نے اپنے قرضے معاف کروائے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان قرض نادہندگان کے خلاف آج تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ یہ وہ بااثر افراد ہیں جن کے خلاف کوئی کارروائی کرنا تاحال ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ ان پچاس بڑے بڑے قرض نادہندگان میں سے ایک شخص وہ ہیں جنھوں نے ایک سیاسی اتحاد میں شامل سیاستدانوں میں رقم کی تقسیم کا اعتراف کرکے وقتی طور پر ایک ہلچل سی مچا دی تھی۔
اس واقعے سے متعلق ہماری سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے اور اب یہ کام موجودہ حکومت کا ہے کہ وہ اس فیصلے پر کس طرح عملدرآمد کرتی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ وہی شخص کسی کا بے لاگ احتساب کرسکتا ہے جس کا دامن خود کرپشن اور مالی بد عنوانیوں سے پاک اور صا ف ستھرا ہو۔ سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے والے ان صاحب کا نام ہمارے معاشرے میںکتنا معتبر اور محترم ہے وہ سبھی کو بخوبی معلوم ہے۔ خود ان کے ذمے اس قوم کے اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2476.40 ملین روپے واجب الادا ہیں جو انھوں نے بڑی خاموشی سے ہڑپ کیے ہوئے ہیں۔ مہران بینک کی تباہی کا سہرا بھی ان ہی کے سر بندھا ہوا ہے۔
اسی لیے ان کے بیانات کو صرف الیکٹرانک میڈیا کی بریکنگ نیوز سے زیادہ اہمیت نہیں ملی۔ جس کام کے لیے کچھ لوگوں نے انھیں استعمال کیا تھا وہ مقصد شاید پورا نہ ہوسکا لیکن اتنا ضرور ہوا کہ اصغر خان پٹیشن کا فیصلہ جو عرصہ دراز سے مطلوب تھا بالآخر منظرِ عام پر آگیا۔ لیکن اب ہماری حکومت اس سے کسی نہ کسی طرح اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے۔ بات وہی ہے جس کا دامن خود کرپشن کی آلائشوں سے داغدار ہو، اس سے بھلا ایک غیر جانبدار احتسابی عمل کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ ایف آئی اے کا جو حال ہے وہ ہم سب کے علم میں ہے۔ وہ آج کل ایک خاص بااثر سیاسی شخصیت کے زیرِ اثر ہے اور صرف ان ہی کی ہدایتوں پر عمل پیرا ہے۔ اکابرین حکومت کی مشکل یہ ہے کہ نئے آنے والے الیکشنوں سے قبل وہ یہ سر درد اپنے ذمے لینا نہیں چاہتے اور اس پرائی مصیبت سے کسی طرح چھٹکارا چاہتے ہیں، اسی لیے ابھی تک وہ ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔
قرض نادہندگان جنھوں نے اربوں روپے کے قرض لے کر اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے انھیں معاف کروالیا ہے، کسی طور در گزر اور معافی کے لائق نہیں ہیں۔ انھیں اس قومی جرم کی پاداش میں کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔ یہ ہمارے رہبر و رہنما کہلائے جانے کے قطعی مستحق نہیں ہیں۔ ان جیسے لوگوں کی بدولت ہی ہمارا یہ وطنِ عزیز آج غیروں کا محتاج اور غلام بنا ہوا ہے۔ اس قوم نے دوسروں کے گناہوں کی بہت سزا پا لی ہے، اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قرض معاف کروانے والوں میں ہمارے بہت سے ان سیاستدانوں کے نام بھی آتے ہیں جنھوں نے خود کو کنگال اور دیوالیہ ظاہر کرکے اپنے یہ قرضے معاف کروائے ہیں، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، وہ آج بھی بڑی شاہانہ زندگی بسر کررہے ہیں، کوئی مفلسی یا غریبی ان کے قریب سے بھی نہیں گزری ہے۔ انھوں نے قوم کی رہبری کا خراج بڑی چالاکی اور مکاری سے وصول کرلیا ہے۔ اس ملک کے ایک عام غریب شخص کا لیا ہوا ہاؤس بلڈنگ کا معمولی قرض معاف نہیں ہوسکتا لیکن سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے ان ارب پتیوں کے قرض منٹوں میں معاف ہوجاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے، گزشتہ کئی سال سے یہ کیس اس کے یہاں زیرِ التوا ہے۔ قوم کے مجرم خود کو معصوم اور بے گناہ قرار دیتے ہوئے نئی اور اس سے بڑی وارداتوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
کڑے اور سخت احتساب کی عدم موجودگی انھیں نیا حوصلہ اور ہمت فراہم کررہی ہے۔ گزشتہ65 برسوں سے یہ کھیل بڑے گھناؤنے طریقوں سے کھیلا جارہا ہے۔ لوٹ مار کی نئی نئی کہانیاں روز افشا ہوتی جاتی ہیں اور پرانی وارداتوں کو بھلا دیا جاتا ہے، پھر ایک این آر او تجویز کیا جاتا ہے اور سارے گناہ بس ایک ہی لمحے میں معاف کردیے جاتے ہیں۔ یہ ملک جسے قدرت نے بیش بہا نعمتوں سے مالامال کیا ہے، ضروری غذائی اجناس میں فراوانی کے علاوہ قیمتی معدنیات سینڈک اور ریکوڈک جیسے خزانوں میںچھپی ہوئی ہیں، تھر میں کوئلے کے ذخائر ہماری غفلت سے بیداری اور توجہ کے منتظر ہیں۔ دنیا کی ایسی کونسی نعمت ہے جو خدا نے ہمیں نہ دی ہو مگر ہم پھر بھی دوسروں کے رحم و کر م پر پڑے ہوئے ہیں۔ ہر سال ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہتے ہیں۔
کبھی امریکا اور کبھی سعودی عرب کی منت و سماجت کرتے ہیں اور ساری دنیا میں بدنام و رسوا ہوتے ہیں۔ ہمارے متعلق کہا جاتا ہے کہ جن کے شب و روز کا ہر لمحہ اسی طرح کی رسوائیوں اور اسی نوع کی بھیک سے بندھا ہوا ہو ان کے ہونٹ سوال کرنے کے علاوہ سارے ہنر بھول جاتے ہیں۔ اس قوم کو اس حال پر پہنچانے والوں کی کوئی تو سزا ہونی چاہیے۔ یہ جرم بھی کوئی معمولی جر م نہیں ہے۔ کسی ملک کو توڑ دینا اور کسی قوم کو دوسروں کا محتاج اورغلام بنا دینا ایک ہی طرح کے دو جرم ہیں۔ دونوں کی سزا سخت اور عبرت انگیز ہونی چاہیے۔
اس میں کسی قسم کی نرمی اور لاپرواہی نہیں برتنی چاہیے۔ جب تک ہم چوروں اور لٹیروں کو معاف کرتے رہیں گے بدعنوانی اور کرپشن کا یہ سلسلہ یونہی چلتا اور پھلتا پھولتا رہے گا۔ قوم کی تقدیر اور قسمت پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ یہ مفاہمت اور معافی تلافی سب مفادات کا کھیل ہے۔ اسے خوبصورت نام دے کر قوم کو دھوکا اور فریب دینے کا یہ مکروہ عمل اب ختم ہونا چاہیے۔ مستقبل کو سنوارنے کے لیے ماضی کے جرائم کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ ان کے سدباب کے لیے ہمیں اپنے قومی مجرموں کو کٹہرے میں لانا ہوگا تبھی جاکر کرپشن کی بیخ کنی ممکن ہوسکے گی۔