تماشا مرے آگے
وہ جانتا ہے کہ جس کے خلاف بات کر رہا ہے اس کے پاس اس کے کارندے گرفتار ہیں،
ہزار اختلاف کے باوجود ایک بار پھر تعریف کرنی پڑے گی حب الوطنی، ملک سے محبت کی کہ جس کے تحت اس ملک کا وزیراعظم کس طرح ملک در ملک جا کر ان ملکوں سے اختلافات کو ختم کر رہا ہے، جن کی وجہ سے اس کے ملک کو شاید وہ کچھ نہ مل سکے جو اس کے خیال کے مطابق ملنا چاہیے۔ اس کے ملک کا جاسوس دوسرے ملک میں پکڑا گیا ہے، زندہ سلامت موجود ہے، اس ملک میں دہشت گردی کا اعتراف کر چکا ہے، اس کے ساتھی پکڑے جا چکے ہیں اور اس ملک میں ان کی دہشت گردی کے تمام ثبوت موجود ہیں، مگر جس ملک کے خلاف یہ سب کچھ ہوا ہے اور جس کے خلاف یہ ہوتا رہتا ہے، گزشتہ چھیاسٹھ سال سے وہ کان دبائے اسی جاسوس کو لیے بیٹھے ہے۔ اور جس ملک کا یہ جاسوس ہے وہ دھڑلے سے یورپی یونین اور دوسرے ممالک میں بالواسطہ اور براہ راست متاثرہ ملک کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے اور انگریز اس کی دیسی انگریزی سن کر تالیاں بجا رہے ہیں۔
وہ جانتا ہے کہ جس کے خلاف بات کر رہا ہے اس کے پاس اس کے کارندے گرفتار ہیں، مگر اس نے اس ملک کی کمزور ترین حکومت کی وجہ سے بھرپور وار کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور 'الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے' ہو رہا ہے۔ دنیا اس کی بات سن رہی ہے۔ امریکا دنیا کو اس کی حمایت کا مشورہ دے رہا ہے اور اسے نیوکلیئر تجارتی گروپ میں شامل کرنے کو کہہ رہا ہے۔
یہ وہی امریکا ہے جس کے کارندے ایک ''آمر'' کی حکومت کے دنوں میں اسلام آباد کے چکر لگایا کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ یہ حکومت امریکا سے تعاون کرتی رہے۔ دنیا کو دھوکا دینا امریکا کی پرانی عادت ہے اور اس کی سب سے زیادہ مشق اس نے اس ملک پر کی ہے۔
اب بھی لوگ آئے، وہاں سے ظاہری بیانات کو چھوڑیے، درپردہ وہ یہ پیغام لے کر آئے تھے کہ تم ایک مقروض ملک ہو اور اب ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے، ہمارا کام تمہارے پڑوسی ملک میں ہو چکا ہے، ہم جا رہے ہیں آج یا کل، اور اب ہمیں تمہاری ناز برداری نہیں کرنی اور تمہیں چاہیے کہ ہم جس کو اس علاقے میں ''راجا'' اناؤنس کر رہے ہیں اسے ''راجا'' تسلیم کر لو اور سر جھکا دو۔ ورنہ ان پابندیوں کے لیے تیار رہو کہ جس کے بعد نہ تمہاری اقتصادیات رہے گی اور نہ تم۔ ایک پارٹی بلکہ دو پارٹیاں ایسی ہیں کہ جن کے دور میں پاکستان تنزلی کا سفر طے کرتا ہے۔ ڈوبے ہوئے کو پھر اوپر سطح آب پر وہی لاتا ہے جس کا نام خدا ہے اور ہر بار ان حکومتوں کے دوران اور ان کے ایک دوسرے کو ٹرانسفر آف پاور کے دوران خدا ملک کا بہت خیال رکھتا ہے۔
حالانکہ ہم نے ذاتی طور پر بھی مشاہدہ کیا ہے کہ سیاستدانوں کی یہ بات بھی ان باتوں کی طرح غلط ہے جو وہ رات دن کہتے رہتے ہیں اور لوگ ان غیر سیاسی ادوار میں اگر کھڑکی دروازے کھول کر نہیں بھی سوتے تو پھر بھی انھیں چوری چکاری کا ڈر نہیں ہوتا۔ چور ڈاکوؤں کی حکومت نہیں ہوتی۔
چار سال سے ایک ملک وزیر خارجہ سے محروم ہے اور چند سال میں پڑوسی ملک کے وزیراعظم نے اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر نہایت کامیاب سیاسی حکمت عملی کے طور پر دنیا کو اس ملک کے خلاف کر دیا ہے جس کے بارے میں صدر امریکا کی تقریر پر جب اس ملک کا نام آتا تھا تالیاں بجتی تھیں، وہیں اب پڑوسی ملک کا وزیراعظم مہذب گالیاں دے رہا ہے، جس کے ہم سزاوار بھی نہیں۔
مگر میں تعریف کروں گا مودی کی اور عزت کرتا ہوں بحیثیت اس کے ملک کے سیاستدان کے، کہ بھارت کا کوئی وزیراعظم آج تک اتنی بہتر سفارت کاری نہیں کر سکا جتنی وہ کر رہا ہے، حالانکہ اس کا تعلق کس جگہ سے اور ماضی کیا ہے، اس کے سامنے صرف اس کا ملک ہے۔
وہ جانتا ہے کہ پاکستان کے پاس اس کے خلاف یعنی اس کے ملک کے خلاف بھرپور ثبوت ہیں مگر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس حکومت کے اتنے پاؤں نہیں ہیں کہ وہ ان کو لے کر کھڑی ہو سکے، کیوں؟ اس وجہ سے کہ حکمران بدعنوان ہیں، ان کی کرپشن کے قصے در و دیوار کی زینت بن گئے ہیں۔
ہم اپنے دشمن آپ ہیں۔ ہم ان لوگوں کو اپنے سروں پر مسلط کرتے ہیں جو بار بار کے آزمائے ہوتے ہیں۔ انسان غلطی ضرور کرے کہ یہ بشر کی فطرت ہے مگر ایک ہی غلطی بار بار کرنا فطرت نہیں حماقت ہے۔
ایک پارٹی دو سیاسی شہیدوں کا کمایا کھا رہی ہے۔ دوسری پارٹی کو ''سیاسی شہید'' ملتے ملتے رہ گیا، حالانکہ ''مجرم'' بھی قرار دیا گیا تھا فیصلہ سیاست میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ سیاست اور ''دوسری طاقت'' ساتھ ساتھ نہیں چلتے، احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ اس پارٹی کے کارکنوں کی بہت آرزو بھی تھی کہ ایک ''سیاسی شہید'' پنجاب کو بھی مل جائے مگر دنیا کو پتہ تھا کہ یہ آدمی اس قوم کو نہیں ہمارے کام کا ہے، لہٰذا امریکا سے سعودی عرب تک لائن لگ گئی سفارش اور بھاگ دوڑ کی، اور دنیا کامیاب ہو گئی۔
آج پھر باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں ہے جو سو رہے ہیں ملک کے ''خارجی معاملات'' پر، دوسرے ملکوں سے پاکستان کا نظام چلانے والا یہ پاکستان کا پہلا وزیراعظم ہے جس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں تحریر کیا جانا چاہیے، ساتھ ہی ساتھ اس کی حزب اختلاف اور بحیثیت ''سوئی ہوئی قوم'' سب کا اندراج ضروری ہے۔
''دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا'' بھارت، افغانستان، ایران، امریکا، سعودی عرب، عرب امارات اور بہت سے دوسرے ملک ایک ساتھ ہیں کہ اگر پاکستان کو بھی افغانستان کی طرح سزا دینے کا دنیا فیصلہ کرے گی تو دنیا بھی اس طرح ہی یہ تماشا دیکھے گی جس طرح ہم نے مسلمان ملکوں کی بربادی اور عوام کی تباہی اور ہلاکت کا تماشا دیکھا ہے اور کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔
کاش ایسا نہ ہو، یہ دلی آرزو ہے! مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک پر ان لوگوں کی حکومت ہے جو اس ملک سے محبت رکھتے ہیں اور نہ اس ملک میں رہتے ہیں۔ اس میں دونوں شریک ہیں۔ پاناما لیکس کا ڈرامہ کامیابی سے چل رہا ہے، لگتا ہے پلاٹینم جوبلی کر لے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ براڈوے کا وہ ڈرامہ بن جائے جو صدیوں تک چلا جائے کہ ایک صدی سے دوسری صدی میں داخل ہو جائے۔
کب جاگیں گے ہم، کون جگائے گا ہمیں؟ یہ جگانے والے تو پاکٹ مار ہیں، ان سے اپنی جیب پاکٹ محفوظ رکھ کر تماشا دیکھیے گا اور دیکھتے رہیے، تماشا بننے سے پہلے تماشا دیکھتے رہنا تو سب کا حق ہے۔