اغوا کاری کے راستے محفوظ کیوں
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور ان کی فیملی واقعی خوش نصیب اور مبارکباد کے لائق ہیں
WASHINGTON DC:
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور ان کی فیملی واقعی خوش نصیب اور مبارکباد کے لائق ہیں کہ ان کے صبر کا پھل 29 روز میں رنگ لے آیا اور ان کے صاحبزادے بازیاب ہو کر گھر واپس پہنچ گئے جب کہ اس سے قبل سابق گو رنر پنجاب اور سابق وزیراعظم گیلانی کے صاحبزادگان بھی طویل عرصے بعد بازیاب ہو کر گھر واپس آئے تھے اور تینوں اہم شخصیات کے صاحبزادوں کی بازیابی پاک فوج کی محنت سے ممکن ہوئی۔ پی پی کے دونوں عہدیداروں کے صاحبزادے پنجاب سے اور چیف جسٹس کے صاحبزادے کراچی سے اغوا کیے گئے، سابق وزیراعظم اور سابق گورنر پنجاب کے بیٹوں کو اغوا کار ملتان اور لاہور سے اغوا کر کے افغانستان لے جانے کی کوشش پاک فوج کے باعث کامیاب نہ ہو سکی اور اغوا کار کراچی سے مغوی کو لے کر پورا سندھ اور پنجاب کے دو بڑے اضلاع کراس کر کے ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلع ٹانک تک کامیابی سے پہنچے مگر افغانستان لے جانے میں ناکام رہے اور پاک فوج کے آپریشن میں مارے گئے۔
ملتان اور لاہور سے تو افغانستان قریب تھا جب کہ کراچی سے بہت دور تھا اور حیرت ہے کہ 29 روز تک اغوا کار اپنے اہم مغوی کو بچاتے رہے اور ٹانک پہنچ گئے اور یہ کیسے ممکن ہوا جب کہ کراچی پولیس دعویٰ کرتی رہی کہ اویس شاہ کو کراچی ہی میں چھپایا گیا ہے جب کہ بلوچستان حکومت نے بھی کہہ دیا تھا کہ اویس شاہ بلوچستان نہیں لائے گئے اور سندھ حکومت کے مقابلے میں بلوچستان حکومت کا دعویٰ درست ثابت ہوا اور اویس شاہ کی بازیابی کے پی کے سے ممکن ہو سکی۔
وزیراعلیٰ سندھ کی حکومت اس سلسلے میں کوئی کارکردگی نہ دکھا سکی اور چار ہفتوں تک محض بیان بازی اور طفل تسلیاں دی جاتی رہیں اور سندھ حکومت شاید کراچی ہی کو مغویوں کی آماجگاہ سمجھتی ہے جب کہ اغواکار سندھ حکومت پولیس اور رینجرز سے زیادہ ذہین اور تجربے کار ہیں اور کراچی انتظامیہ کو نااہل سمجھتے ہیں اور کراچی سے لوگوں کو اغوا کر کے باآسانی باہر کامیابی سے لے جاتے ہیں اور کراچی اندرون شہر اور کراچی آنے جانے والے راستوں پر مامور پولیس اہلکار اور حساس ادارے دیکھتے رہ گئے کہ جنھوں نے شہر میں اپنے مخبروں کا جال پچھا رکھا ہے مگر اغواکار ان سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کس طرح کامیابی سے باہر نکل جاتے ہیں، یہ حیران کن ہے۔
کراچی انتظامیہ کے لیے شرمناک ناکامی اور سندھ حکومت کے لیے لمحہ فکریہ نہیں بلکہ انتہائی تشویش کا مقام ہونا چاہیے کہ سرکاری ایجنسیاں کیوں مکمل ناکام اور جرائم پیشہ عناصر اور اغواکار مکمل کامیاب ماضی میں بھی رہے ہیں اور تین سال سے جاری کراچی آپریشن کے باوجود کامیاب ہی جا رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اویس شاہ کی بازیابی کے بعد اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جو تفتیش کرے گی اور دیکھے گی کہ دوپہر کو اغوا کیے جانے والے اویس شاہ کو اغوا کار کس طرح اور کس وقت کراچی سے باہر لے جانے میں کامیاب رہے اور چیف جسٹس کے بیٹے کو کراچی انتظامیہ سخت چیکنگ کے باوجود باہر لے جانے سے روکنے میں سخت ناکام رہی۔
اعلیٰ پولیس حکام کا کہناہے کہ بعض پولیس افسروں نے اویس شاہ کے اغوا کی بروقت اطلاع نہیں دی اور اس تاخیر کی وجہ سے بروقت کچھ نہ کیا جا سکا۔ چیف جسٹس کے بیٹے کو اغوا کرنے والے اغوا کاروں کو پتہ تھا کہ وہ کسی عام شخص کو اغوا نہیں کر رہے بلکہ سندھ کے عدالتی سربراہ کے بیٹے کو اغوا کر رہے ہیں اور انھوں نے اس سلسلے میں کامیاب منصوبہ بندی کی ہو گی اور یہ بھی انھیں پتہ ہو گا کہ بعض پولیس افسر ان کے اس اغوا کی اطلاع اعلیٰ حکام کو نہیں دیں گے۔ ملزموں کو پتہ ہو گا کہ اویس شاہ کے اغوا پر سندھ ہی نہیں پورے ملک کی انتظامیہ گھبرا جائے گی اور ان کا کراچی سے نکلنا ناممکن ہو جائے گا اغوا کار انتہائی تجربہ کار اور کراچی سے باہر جانے کے تمام راستوں سے واقف ہوں گے اس لیے وہ کامیابی سے کراچی سے باہر جانے میں کامیاب رہے اور کراچی انتظامیہ منہ دیکھتی رہ گئی۔
اویس شاہ کو اغوا کرنیوالے دہشتگرد ٹانک میں مارے جا چکے ہیں اب وزیراعلیٰ کی کمیٹی کو فرشتے تو بتائیں گے نہیں کہ اس ہائی پروفائل کیس کے اغوا کار کیسے کامیاب اور سندھ حکومت اور تمام ایجنسیاں کیوں ناکام رہیں البتہ یہ ضرور ہو گا کہ کراچی پولیس میں موجود بعض افسران بعض بے گناہوں کو مار کر میڈیا کو بتا دیں کہ یہی ملزمان اغوا کے کیس میں ملوث تھے جو مار دیے گئے ہیں۔کراچی سے کسی کو بھی اغوا کر کے اندرون سندھ اور بلوچستان لے جانا آسان تو نہیں مگر ممکن ضرور ہے مگر کراچی سے افغانستان چلے جانا آسان نہیں ناممکن ہے۔
جسے ممکن کر دکھایا گیا اغوا کار کراچی سے نکل کر سپر ہائی وے یا نیشنل ہائی وے سے جامشورو گئے ہوں گے جہاں پولیس اور رینجرز کی چیک پوسٹ بھی ہیں کراچی انتظامیہ کو جل دے کر ملزمان جامشورو، دادو، لاڑکانہ، شکار پور اور کشمور اضلاع سے گزر کر پنجاب کے اضلاع راجن پور، ڈی جی خان کو کراس کر کے ڈیرہ اسماعیل خان اور وہاں سے ایک گھنٹے کے سفر کے بعد کے پی کے کے ضلع ٹانک تک رات کے اندھیرے میں کامیابی سے پہنچ گئے مگر پاک فوج کے چوکس رہنے اور پاک آرمی کی ایجنسیوں کو دھوکا نہ دے سکے اور اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے اور مارے گئے اور اویس شاہ بازیاب کرا لیے گئے۔ کراچی سے ٹانک تک تین صوبوں کے نو اضلاع کو کامیابی سے عبور کرنے والے اغوا کاروں کو کیسے ممکن ہے کہ کہیں چیک نہ کیا گیا ہو۔ اغوا کار طالبان دہشت گرد تھے تو وہ تو اپنے حلیے سے ہی شناخت ہو جاتے ہیں۔
ان کے پاس اسلحہ بھی ہو گا۔ وہ اس طویل سفر میں کھانے اور سونے کے لیے بھی رکے ہوںگے۔ انھوں نے سارے راستے اویس شاہ کو برقعہ میں رکھا اور تین افراد ایک برقعہ پوش کو لے کر منزل کے قریب پہنچ گئے اور 28 روز تک سفر میں کہیں نہیں پکڑے گئے۔ یہ بات سمجھ میں آنے جیسی تو نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ اس طویل سفر کے نو اضلاع سے گزرتے ہوئے متعلقہ پولیس موٹر وے پولیس اور دیگر اداروں نے انھیں ضرور روکا ہو گا مگر رشوت لے کر چیک نہیں کیا ہو گا۔
ہماری قومی شاہراہوں پر کسی بھی قسم کا سفر رشوت کے بغیر ممکن نہیں۔ ہر جگہ نوٹ دے کر گزرا جا سکتا ہے۔ سندھ پنجاب اور کے پی کے کی سرحدوں سے گزر کر ٹانک پہنچنا آسان سفر نہیں کسی سرحدی چوکی پر انھیں چیک نہیں کیا گیا، اغوا کار 28 روز کے سفر میں چھپے بھی ہوں گے اور کسی نے انھیں پناہ دی ہوگی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک مضبوط اور منظم ہے۔
کراچی سے ٹانک تک تمام اضلاع کے ذمے داروں کے خلاف اس سلسلے میں سخت کارروائی ضروری ہے کہ اغوا کار ان کے اضلاع سے کیسے گزرے اور ان کے سہولت کار کہیں تینوں حکومتوں میں تو موجود نہیں رشوت کو اپنا ایمان بنا لینے والے کرپٹ اہلکاروں کو بھی اس سلسلے میں شکنجے میں لایا جانا چاہیے تا کہ آیندہ اغوا کاروں کو ناکام بنایا جا سکے۔