’’گجرات فائلز‘‘ کے انکشافات

ایک دلیر خاتون مسلمان صحافی نے سانحہ گجرات کے حقیقی مجرموں پہ پڑا دبیز پردہ چاک کر دیا


پلان کی تکمیل کے بعد رانا ایوب واپس نئی دہلی پہنچی، تو ’’تہلکہ‘‘ نے اس کی تحریریں خطرناک قرار دے کر شائع کرنے سے انکار کردیا۔۔ فوٹو : فائل

یہ 2010ء کی بات ہے جب رانا ایوب امریکا سے آئی فلم ساز کا روپ دھار کر بھارتی ریاست گجرات پہنچی۔ اس مسلمان لڑکی نے اپنا جعلی نام ''متھالی تیاگی'' رکھ چھوڑا تھا۔ بظاہر وہ ریاست گجرات کی تاریخ و جغرافیہ پر دستاویزی فلم بنانا چاہتی تھی، مگر اس کا اصل مشن خفیہ تھا۔رانا ایوب مشہور بھارتی رسالے ''تہلکہ'' کی رپورٹر تھی۔ وہ اس لیے گجرات آئی تاکہ سرکاری افسروں اور ''سنگھ پریوار'' (ہندو قوم پرست جماعتوں) کے لیڈروں سے مل کر باتوں باتوں میں ان مظالم کی معلومات لے سکے جو مسلمانوں پر توڑے جارہے تھے۔

یہ مظالم حال ہی میں نمایاں ہوئے جب مشہور گلبرگ سوسائٹی کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بھارتی عدالت نے 60 ملزمان میں سے صرف 24 کو معمولی سزائیں سنائیں اور بقیہ ''باعزت''طور پر بری کر دئیے۔بھارتی عدلیہ خودمختار و آزاد سمجھی جاتی ہے ،مگر فیصلے نے اس دعویٰ کی قلعی کھول دی۔دلیر رانا ایوب آٹھ ماہ تک متھالی بن کر گجرات میں مقیم رہی۔ اس دوران وہ اہم سرکاری افسروں اور سیاست دانوں سے ملنے میں کامیاب رہی۔ یہ تمام ملاقاتیں خفیہ کیمرے میں ریکارڈ کی گئیں۔ رانا ایوب حسب پلان باتوں باتوں میں اپنے شکاروں سے اہم انکشافات اگلوانے میں کامیاب ہوگئی۔ پلان کی تکمیل کے بعد رانا ایوب واپس نئی دہلی پہنچی، تو ''تہلکہ'' نے اس کی تحریریں خطرناک قرار دے کر شائع کرنے سے انکار کردیا۔

بہادر مسلمان لڑکی کو حیرانی تو ہوئی، مگر اس نے حوصلہ نہ ہارا۔ رانا نے وزیراعلیٰ نریندر مودی اور وزیرداخلہ امیت شاہ کے انٹرویو چھوڑ کر بقیہ کو کتابی شکل دے ڈالی۔ اس کتاب میں مودی اور امیت شاہ کے انٹرویو حساس ہونے کی بنا پر شامل نہیں۔ رانا کا کہنا ہے ''جب بھی حکومت کی تحقیقاتی ایجنسیوں نے مجھ سے رابطہ کیا، میں دونوں انٹرویو ان کے حوالے کردوں گی۔''

اب رانا ایوب اپنی کتاب چھپوانے کے لیے مارے مارے پھرنے لگی۔ کوئی بھی ناشر کتاب چھاپ کر ہندو قوم پرستوں کا نشانہ نہیں بننا چاہتا تھا۔ اس دوران 2014ء میں سنگھ پریوار کی حکومت آگئی۔ اس امرنے کام مزید دشوار بنا دیا۔اب بلند ہمت رانا ایوب نے ازخود کتاب شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوں وہ ریاست گجرات میں مسلمانوں پر توڑے جانے والے مظالم اور وہاں سنگھ پریوار کی گھناؤنی سازشیں نمایاں کرنا چاہتی تھی۔ یہ کتاب حال ہی میں "Gujarat Files: Anatomy of a Cover Up" کے نام سے طبع ہوچکی۔ اس کا موضوع یہ ہے کہ مودی سرکار نے کیونکر سانحہ گجرات کا اپنا خوفناک جرم چھپایا اور اس پرمٹی ڈالنے میں کامیاب رہی۔

یہ کتاب آشکارا کرتی ہے کہ ہندو قوم پرستوں کی ریاستی حکومت مسلمانوں کی نسل کشی پر جتی ہوئی ہے۔ اس نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے ریاستی مسلمانوں کے کاروبار تباہ کردیئے۔

ان کی ملازمتیں چھین لیں اور انہیں الگ تھلگ محلوں میں رہنے پر مجبور کردیا جہاں زندگی کی بہت کم سہولتیں دستیاب ہیں۔ کسمپرسی اور بے بسی کی زندگی گزارتے ہوئے بعض مسلمان تو ہندو ہوچکے تاکہ اپنے سماجی بائیکاٹ سے نکل سکیں۔ ریاستی حکومت کی بھی دراصل یہی چال ہے کہ مسلمانوں کو اتنا زیادہ محصور کیا جائے کہ وہ آخر کار اپنے مذہب سے برگشتہ ہوجائیں۔اب صورتحال یہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی سب سے بڑی الگ تھلگ آبادی (Ghetto) ''جوہا پورہ'' گجرات کے شہر، احمد آباد میں واقع ہے۔ 2002ء میں اس علاقے میں پچاس ہزار مسلمان آباد تھے۔ اسی سال مسلم کش فسادات ہوئے، تو پوری ریاست سے مسلمان لٹ لٹا کر جوہا پورہ چلے آئے۔ چناںچہ آج اس ''گھیٹو'' میں پانچ لاکھ سے زائد مسلمان بستے ہیں۔ یہ جن اذیت ناک حالات میں زندگیاں بسر کررہے ہیں، ان کا اندازہ وہاں پہنچ کر ہی ہوتا ہے۔

گجرات میں رانا ایوب اشوک نارائن سے بھی ملی۔ فروری 2002ء میں گجرات فسادات کے موقع پر یہ ریاست کا سیکرٹری داخلہ تھا۔ اشوک نے دوران گفتگو چشم کشا انکشافات کیے۔ یہ ثابت کرتے ہیں کہ آج معصوم اور دانشور بنے بیٹھے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 2002ء میں غنڈے، بدمعاش کی طرح مسلمانوں کے ساتھ پیش آئے۔ اس کی قیادت میں سنگھ پریوار کے غنڈوں نے مسلمانوں پر ایسے خوفناک ظلم ڈھائے کہ ان کی بابت پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اشوک نارائن کے انٹرویو سے چیدہ اقتباس پیش خدمت ہیں۔

٭٭
سوال:۔ سانحہ گجرات (2002ء) کے متعلق کچھ بتائیے۔
جواب: بی بی، ان دنوں کا کیا پوچھتی ہو۔ تب تو ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے گئے تھے۔ ماحول ہی کچھ ایسا بن گیا تھا کہ ہم چاہتے ہوئے بھی سنگھ پریوار کو روک نہ سکے۔ مسلمانوں پر جن لوگوں نے حملے کیے، ان کی قیادت مودی کے وزیر مشیر، ارکان اسمبلی اور سنگھ پریوار کے لیڈر کررہے تھے۔

سوال:۔ ان دنوں انسان پاگل ہوگیا تھا؟
جواب: بے شک۔ عام مسلمان تو ایک طرف، سرکاری مسلم افسروں کو اپنی جانوں کے لالے پڑگئے تھے۔ میرا ایک نائب سرکاری افسر مسلمان تھا۔ احمد آباد رہتا تھا۔ اس کا مجھے فون آیا ''سر! میری جان بچالیجیے۔ غنڈوں نے میرے گھر کا محاصرہ کرلیا ہے۔'' میں نے کمشنر پولیس کو فون کرکے کہا کہ اس کے گھر پولیس بھجوادو۔اگلے دن اس مسلمان افسر کا فون آیا۔ بولا ''سر! کل تو میں کسی طرح بچ گیامگر آج زندہ بچنے کا امکان کم ہے۔'' میں نے پھر کشمنر پولیس کو فون کیا اور اسے کہا کہ میرا نائب باحفاظت رہنا چاہیے۔ میں پھر اپنے کاموں میں مصروف ہوگیا۔
وہ مسلم افسر پندرہ دن بعد مجھ سے ملنے آیا۔ کہنے لگا ''سر! یہ کہانی پورے گجرات میں دہرائی گئی ہے۔ جس محلے میں ہندو بہ کثرت تھے، وہ اپنے مسلمان پڑوسیوں پر پل پڑے اور انہیں تیہ تیغ کرڈالا۔ جب پولیس مجھے بچانے پہنچی تو امیت شاہ (ریاستی رکن اسمبلی) غنڈوں کی قیادت کررہا تھا۔پولیس افسر نے امیت شاہ کو دیکھ کر سیلوٹ مارا اور پھر ہاتھ ملایا۔ امیت شاہ کہنے لگا کہ یہاں پر حالات ''نارمل'' ہیں، تم واپس چلے جاؤ۔ پولیس افسر نے مجھے بچالیا، مگر غنڈوں کی راہ میں حائل نہ ہوا۔ وہ کھلے عام غریب مسلمانوں پر حملے کرتے رہے اور میں کچھ نہ کرسکا۔''

سوال: لیکن امیت شاہ تو اب جیل میں ہے؟
جواب: وہ جلد باہر آجائے گا۔ گجرات میں کوئی مائی کا لال نہیں جو ان وزیروں مشیروں کے خلاف گواہی دے سکے۔ دیکھنا، ایک ایک کرکے سب رہا ہوجائیں گے۔ کس کی شامت آئی ہے جو سنگھ پریوار والوں سے پنگالے۔سنگھ پریوار کے وزیر اور سارے لیڈر ذومعنی گفتگو کے ماہر ہیں۔ مثال کے طور پر کسی علاقے میں ہنگامے ہوئے اور پولیس افسر نے وزیر کو فون کیا۔ اسے حکم ملا ''اچھا تم اس علاقے کی خبر رکھو۔''
یہ جملہ سن کر عام آدمی یہی سمجھے گا کہ وزیر پولیس افسر سے کہہ رہا ہے، دھیان رکھو، علاقے میں دنگا فساد نہ ہونے پائے۔ لیکن اس حکم کا اصل مطلب یہ ہے کہ دھیان رکھو، اس علاقے میں فساد ضرور ہونا چاہیے۔ سنگھ پریوار کے لیڈر، وزیر اور مشیر براہ راست فساد میں حصہ نہیں لیتے۔ ان کے ایجنٹ پورے بھارت میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پھران کا ایک خاص طریق واردات یہ ہے کہ ایف آئی آر ''ہجوم'' کے خلاف کٹوائی جاتی ہے۔ اب پولیس ''ہجوم'' کو کیسے گرفتار کرے؟



سوال: سانحہ گجرات پر حکومت کی جانب سے کمیشن بھی بٹھائے گئے۔ ان سے کچھ نتیجہ برآمد ہوا؟
جواب: کچھ بھی نہیں۔ وجہ یہی ہے کہ تحقیقاتی اداروں کو مجرموں کے خلاف ٹھوس ثبوت نہیں مل سکے۔ دراصل سانحہ گجرات انجام دینے والوں نے سب کچھ زبانی کلامی کیا۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔جب 28 فروری 2002ء کو ٹرین میں آگ لگنے سے ہندو یاتری چل بسے، تو پوری ریاست بدامنی کی لپیٹ میں آگئی۔ تب میں نے پوری پولیس فورس کو حکم دیا کہ تحریری احکامات کے بغیر کسی قسم کی کارروائی نہیں کی جائے۔
اسی دن شام کو سنگھ پریوار والوں نے ''بندھ'' (ہڑتال و احتجاج) کا اعلان کردیا۔ شام سات بجے گجرات کے چیف سیکرٹری، سبھاراؤ نے مجھے فون کیا اور کہا، وشوا ہندو پریشد کا لیڈر ،پراون ٹوگڈیا احتجاجی جلوس نکالنا چاہتا ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا ''سر! احتجاجی جلوس نکالنے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے کیونکہ پھر فسادات پوری ریاست میں پھیل سکتے ہیں۔'' چیف سیکرٹری نے میری تجویز سن کر فون بند کردیا۔
اسی رات وزیراعلیٰ نریندر مودی نے اپنے بنگلے پر ہائی پروفائل میٹنگ بلالی۔ میں بھی اس میں شریک تھا۔ تب تک میرا مشورہ مودی کو مل چکا تھا۔ وہ مجھے مخاطب کرکے بولا ''جناب! ہمیں ہرحال میں بندھ کی اجازت دینی ہے۔'' میں نے کہا ''سر! یہ بات ہے، تو مجھے تحریری حکم دے دیجیے۔'' اس پر نریندر مودی غصے سے مجھے گھورنے لگا۔ پھر تھوڑی دیر بعد چیف سیکرٹری سے باتیں کرنے لگا۔ غرض میری سر توڑ کوشش کے باوجود مجھے بندھ کی اجازت دینے کا تحریری حکم موصول نہیں ہوا۔

سوال: یہ بتائیے کہ نریندر مودی فساد کرانے پر کیوں تلا بیٹھا تھا؟ قوم پرست ہندو ہونے کی وجہ سے؟
جواب: مودی مسلمانوں کا کھلا مخالف تھا۔ مگر بہ حیثیت وزیراعلیٰ مودی نے فساد اس لیے کرایا کیونکہ اسے ہندو ووٹ چاہیے تھا۔ مودی نے مسلمانوں کے خلاف سبھی ہندوؤں کو متحد کردیا اور یوں جولائی 2002ء کے ریاستی انتخابات جیتنے میں کامیاب رہا۔

سوال: سنا ہے، مودی کے گھر ہوئی میٹنگ میں کے چکرورتی(پولیس کمشنر احمد آباد) نے وزیراعلیٰ کے احکامات ماننے سے انکار کردیا تھا؟
جواب: جی ہاں، اس میٹنگ میں صرف میں اور چکرورتھی وزیراعلیٰ کی مخالفت کرتے رہے۔ جواب میں ہمیں مودی کی جھڑکیاں کھانا پڑیں۔ بہرحال ہم نے اپنی ذمے داری پوری کردی۔ ہم نے کہا کہ ہم سول سروس میں اس لیے شامل ہوئے کہ عوام کی خدمت کرسکیں۔ اس لیے نہیں کہ برسراقتدار پارٹی کے کٹھ پتلی اور ''یس مین'' بن جائیں۔

سوال: دوسرے سرکاری افسر مودی کی راہ میں کیوں کھڑے نہ ہوئے؟
جواب: کیونکہ ان سب کے مفادات مودی حکومت سے وابستہ تھے۔ وہ وزیراعلیٰ کی مخالفت کرکے اپنا کیریئر تباہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اب مجھے اور چکرورتی کو ہی دیکھیے، ہماری پروموشن روک دی گئی۔ ہمیں نئے کورسوں پر اندرون و بیرون ملک نہیں بھیجا گیا۔ مگر ہم خاموش نہیں رہے اور اپنے ضمیر کی آواز کو سامنے لے آئے۔

سوال: مودی کے گھر ہوئی میٹنگ کی خبر کیسے طشت ازبام ہوئی؟
جواب: وزیرداخلہ، ہرین پانڈے نے سب سے پہلے پریس کو اس میٹنگ کے متعلق بتایا۔ (اس میٹنگ میں ہرین پانڈے نے کئی امور پر مودی کی مخالفت کی تھی۔ اس لیے دونوں کے مابین اختلافات پیدا ہوگئے۔ 2003ء میں پانڈے نے استعفیٰ دے دیا۔ جلد ہی مودی نے پولیس کے ذریعے اسے قتل کرادیا)

سوال: اس میٹنگ میں کون کون شریک تھا؟
جواب: میٹنگ میں ریاست کے سبھی اعلیٰ سرکاری افسر اور وزیر شریک تھے۔
رانا ایوب یہ انٹرویو لے کر اپنی کتاب میں لکھتی ہیں، ''یہ انٹرویو آشکارا کرتا ہے کہ 2002ء میں ریاست گجرات کے لاکھوں مسلمانوں کو ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب تک کئی حلقوں سے یہ آوازیں اٹھی تھیں کہ مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے ریاستی مشینری استعمال کی گئی۔ مگر یہ پہلا موقع ہے کہ یہ انکشاف ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی طرف سے سامنے آیا اور یہ کوئی معمولی افسر بھی نہیں۔ وہ 2002ء میں گجرات کے سیکرٹری داخلہ تھے۔''
اشوک نارائن نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ریاست گجرات کو بھارت میں تب کی حکمران جماعت، بی جے پی کی مکمل حمایت حاصل تھی۔

سوال: کیا گجرات میں سنگھ پریوار کی مقامی قیادت نے ہڑتال و احتجاج کا فیصلہ کیا؟
جواب: جی نہیں، انہیں بی جے پی کی طرف سے سگنل ملا۔ اگر بی جے پی اور آر ایس ایس کی قیادت سگنل نہ دیتی، تو گجرات کے مقامی لیڈروں میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ مسلمانوں کا کھل کر قتل عام کرسکیں۔

سوال: گجرات میں مودی کو کس نظر سے دیکھا جاتا تھا؟
جواب: ہندو عوام تب بھی اس کی پوجا کرتے تھے۔ قدامت پسند ہندوؤں کو یقین تھا کہ وہ ہندومت کا جھنڈا پوری دنیا میں بلند کرے گا۔

سوال: میں نے سنا ہے کہ مودی نے مقتول ہندو یاتریوں کی لاشوں کو سرعام نمائش کرنے کا حکم دیا۔
جواب: آپ نے صحیح سنا۔ حقیقت یہ ہے کہ مردہ ہندو یاتریوں کی سرعام نمائش ہی سے عام ہندوؤں کے جذبات مشتعل ہوئے۔ سارے سانحے نے اسی نامعقول حرکت کے بطن سے جنم لیا اور یہ مودی نے حکم دیا تھا کہ یاتریوں کی لاشوں کی پریڈ کرائی جائے۔
درج بالا انکشاف سے عیاں ہے کہ ریاست گجرات میں ہزارہا مسلمانوں کی جانی و مالی تباہی کا ذمے دار نریندر مودی ہے ۔مگر یہ سخت حیرانی کی بات ہے کہ آج بعض اسلامی ممالک نے ہزارہا مسلمانوں کے قاتل مودی کو سر آنکھوں پر بٹھا رکھا ہے۔ کاش وہ کسی اوربھارتی لیڈر سے تجارتی و معاشی معاہدے کرلیتے، مگر مودی کو گھاس تک نہ ڈالتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں