ہولے ہولے پون چلے
اس گیت کوکسی نئی گلوکارہ نشی کماری نے گایا تھا اورگیت لکھا تھا شبی فاروقی نے
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اپنے والد سے چھپ چھپ کر ریڈیو سیلون، ریڈیو ایران زاہدان اور ریڈیو پاکستان سے فلمی گیتوں کے پروگرام سنا کرتا تھا۔ دراصل فلمی گیت سنے بغیر میرا کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا، کبھی کبھی والد صاحب کی ڈانٹ بھی پڑ جاتی تھی مگر یہ عادت پختہ ہو چکی تھی۔ اس زمانے سے ریڈیو سے ہفتے میں ایک بار صرف نئے ریکارڈ شدہ فلمی گیت بھی سنائے جاتے تھے۔ اسی دوران میں نے ایک نئی فلم ''بارہ بجے'' کا ایک گیت سنا جس کے بول تھے۔
ہار گئی ہار گئی تو سے دل لگا کے
نینوں میں بسایا تجھے کجرا بنا کے
اس گیت کوکسی نئی گلوکارہ نشی کماری نے گایا تھا اورگیت لکھا تھا شبی فاروقی نے۔ یہ گیت جب بھی ریڈیو کھولو پاکستان کے کسی نہ کسی ریڈیواسٹیشن سے نشرہوتا رہتا تھا، میں ان دنوں اسلامیہ کالج کراچی میں پہلے سال کا طالب علم تھا اور اسی کالج میں مجھ سے سینئر طالبعلم شبی فاروقی رہ چکا تھا اورکیونکہ میں ان دنوں ریڈیو کی بزم طلبا میں حصہ لیتا رہتا تھا۔ شبی فاروقی بھی اکثر ریڈیو آتا تھا اور ریڈیو کے لیے موسیقی کے پروگرام بھی لکھتا تھا۔ اس کی دوستی ریڈیو کے اسٹاف آرٹسٹ بانسری نواز لال محمد اور سارنگی نواز اقبال بندوخاں سے تھی۔
لال محمد نے اقبال کے ساتھ اپنی جوڑی بنا لی تھی اور جب فلم ''بارہ بجے میں'' موسیقی دینے کا مرحلہ آیا تھا تو فلم کے ہدایت کار باقر رضوی جو لال محمد اور اقبال دونوں کے دوست تھے۔ انھوں نے ان موسیقار دوستوں کی ایک جوڑی بنائی اور پھر لال محمد اقبال نے فلم ''بارہ بجے'' کی پہلی بار موسیقی دی اور جس گلوکارہ نشی کماری سے انھوں نے اپنی فلم کا گانا گوایا وہ گلوکارہ بھی ہندوستان سے کراچی کسی رشتے دار کی شادی میں آئی تھی۔ نشی کماری اصل میں مسلمان تھی اس کا اصلی نام ریشماں تھا وہ ہندوستان میں کی چھوٹی محفلوں میں نشی کماری کے نام سے گاتی تھی۔
کراچی میں بھی ایک نجی محفل میں اس نے اپنی آوازکا مظاہرہ کیا اور محفل کی فرمائش پر ہندوستانی فلموں کے گیت اور غزلیں سنائیں آواز اس کی اچھی تھی اس محفل میں لال محمد اقبال نے بھی بانسری پر کئی فلمی گانوں کی دھنیں سنائی تھیں۔ لال محمد کو نشی کماری کی آواز کچھ بھلی لگی انھوں نے یہ سوچ کر کہ یہ ہندوستان سے آئی ہے اسے اپنی پہلی فلم میں ایک گیت گوا دیا۔ نشی کماری کی آواز میں گیت تو ہٹ ہو گیا تھا لیکن فلم بارہ بجے بری طرح فلاپ ہو گئی تھی مگر موسیقار لال محمد اقبال لائم لائٹ میں آ گئے تھے۔
نوجوان شاعر شبی فاروقی اب ریڈیو سے ایک قدم آگے بڑھ کر فلم کا شاعر بھی بن گیا تھا لیکن شبی فاروقی کو جو صحیح معنوں میں بحیثیت فلمی نغمہ نگار شہرت ملی وہ فلم ''السلام علیکم'' کا ایک گیت تھا جسے ان دنوں کراچی میں پلی بڑھی تیرہ چودہ سال کی نو عمر نئی گلوکارہ رونا لیلیٰ نے گایا تھا۔ فلم ''السلام علیکم'' کا فلمساز ہدایت کار اور ہیرو فیروز تھا، فیروز اور شبی فاروقی دونوں اسلامیہ کالج کے ساتھی طالب علم تھے۔
فیروز کو ہیرو بننے کا شوق تھا۔ اس نے کالج سے بی۔اے کرنے کے بعد کراچی کی فلم انڈسٹری میں بڑی کوشش کی کہ کوئی فلمساز و ہدایت کار اسے اپنی فلم میں کاسٹ کر لے مگر اسے جب اس میدان میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی تو پھر فیروز کی دیوانگی نے خود فلمساز و ہدایت کار اور ہیرو بننے کا فیصلہ کیا۔ فلم کے تمام گیت اپنے دوست شاعر شبی فاروقی ہی سے لکھوائے اور جو پہلا گیت رونا لیلیٰ کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا اور جس کی موسیقی غلام علی جو کراچی ٹی وی کے ہی موسیقار تھے اس نے بہت ہی خوبصورت دھن بنائی تھی اورگیت کا بھی جواب نہیں تھا۔ گیت کے بول تھے۔
ہولے ہولے پون چلے ڈولے جیا رے
نیلے نیلے گگن تلے آ جا پیا رے
بھولے پیا تونے یہ کیا جادو کیا رے
یہ گیت ریکارڈ ہوتے ہی ریڈیو سے نشر ہونے لگا تھا اور دن میں روزانہ کئی کئی بار نشر ہوتا تھا۔ اس گیت کی شہرت نے شبی فاروقی کو کافی عروج عطا کیا اور پھرکراچی کی ہر دوسری فلم میں مسرور انورکے بعد شبی فاروقی ہی کے گیت ہوتے تھے۔ اس کی لکھی ہوئی فلموں میں اور بھی غم ہیں، جہاں برف گرتی ہے، پرائی بیٹی، جانور، چھوٹی بہن اور منزل دور نہیں ہیں اور ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ السلام علیکم سے لے کر چھوٹی بہن تک جتنی بھی فلموں میں شبی فاروقی نے گیت لکھے۔ اس کا کوئی نہ کوئی گیت ضرور ہٹ ہوا مگر یہ تمام فلمیں ناکامی سے دوچار ہوئیں فلم چھوٹی بہن کا ایک گیت جو مسعود رانا نے گایا تھا جس کے بول تھے ''میری خاموش محبت کو اشارہ دے دو'' بڑا مشہور ہوا۔ ''السلام علیکم'' اور ''بارہ بجے'' کے ایک گیت کو بھی بڑی شہرت ملی تھی۔
اب میں شبی فاروقی کی ادبی شاعری اور شخصیت کی طرف آتا ہوں۔ شبی فاروقی کا پورا نام محمد شعیب فاروقی ہے شبی اس نے اپنا تخلص رکھ لیا تھا۔ شبی فاروقی نے کراچی یونیورسٹی سے معاشیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی پھر یہ باقاعدہ تعلیم و تدریس ہی کے شعبے سے منسلک ہو گیا۔ میری شبی فاروقی سے ریڈیو اورکراچی ٹیلی ویژن پر اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ شبی نے ریڈیو کے لیے بھی خوب جم کر لکھا پھر جب ٹیلی ویژن کی طرف توجہ دی تو بہت سے موسیقی کے پروگرام لکھے۔ قومی نغمات بھی کافی لکھے احمد رشدی، محمد افراہیم اور محمد علی شہکی نے بھی شبی فاروقی کے لکھے ہوئے کافی گیت گائے۔ بلکہ ٹی وی کا ایک بے مثال گیت جو محمد علی شہکی اور مشہور سندھی لوک فنکار الن فقیرکی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا تھا جس کے بول تھے:
اللہ اللہ کر بھیا، اللہ ہی سے ڈر بھیا
اس گیت کو سارے پاکستان میں بڑی شہرت حاصل ہوئی بلکہ اس گیت کو کوالالمپور کے ایک موسیقی کے میلے میں بڑا سراہا گیا تھا اور ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ میری شبی فاروقی سے پھر اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ وہ مجھ سے کافی سینئر تھا اور بحیثیت شاعر نوجوانوں میں بڑا مقبول تھا مگر مزاج میں انتہائی نرمی اور دھیما پن تھا۔ اس کی پی آر زیادہ نہیں تھی۔ ایک اچھا شاعر ہوتے ہوئے بھی اور پھر کراچی کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہونے کے بعد بھی شہرت سے کنی کترایا کرتا تھا اور آج بھی شبی فاروقی کا یہی حال ہے یہ مشاعروں اور رت جگوں سے آج بھی دور دور رہتا ہے۔
میری شبی فاروقی سے کبھی کبھی مشہور موسیقار نثار بزمی کے گھر پر بھی ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ شبی فاروقی نے نثار بزمی کے ساتھ ٹیلی ویژن کے لیے بھی کافی لکھا ہے شبی فاروقی سے جب کبھی میں کہا کرتا تھا یار شبی فاروقی! کبھی لاہورکی فلمی دنیا میں جانے کا کیوں نہیں سوچا؟ تو شبی بڑی سادگی سے کہتا کہ یونس ہمدم! میں نہ زیادہ شہرت پسند ہوں نہ زیادہ رونق پسند۔ میں سیدھی سادی زندگی گزارنے کا عادی ہوں اور جب سے شعبہ تعلیم و تدریس میں آیا ہوں میں اپنی فلمی شاعری کو بھول ہی گیا ہوں۔ فلمی شاعری اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ اب تو کبھی کبھی ایسٹرن فلم اسٹوڈیوز کا وہ پرانا زمانہ یاد کرتا ہوں تو جلدی سے اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہوں کہ ان خوابوں کوکسی طرح باہر نہ آنے دوں۔ سنا ہے شبی فاروقی بھی آج کل کینیڈا آ گیا ہے، مگر ابھی تک شبی فاروقی سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔