ٹیک تھری

آزاد کشمیر میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت کو اتنی سیٹیں اپنی کارکردگی سے زیادہ دوسروں کی غلطیوں کی وجہ سے ملی ہے۔


شاہد کاظمی August 01, 2016
پہلے سین کا ٹیک تھری مکمل طور پر نواز لیگ کے نام رہا اور سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ پاکستان کی اسمبلیوں میں جو تھوڑی بہت اپوزیشن پریشانی پیدا کرتی رہتی ہے اب وہ بھی نہیں رہی ہے۔ فوٹو: فائل

شعور کی منازل پر ابھی قدم نہیں رکھا تھا کہ ہمارے گاوں میں ڈرامے کی ریکارڈنگ کے لیے فنکار آئے۔ بچے بوڑھے سب ہی شوق میں جمع ہوگئے۔ ایک لڑکا سا ہاتھ میں لکڑی کی تختی سی پکڑے ہوئے جس پر سیادہ رنگ پینٹ ہوتا اور اس پر کچھ حروف لکھے ہوتے کھٹ سے کھڑکاتا اور پکارتا ٹیک ون، کچھ دیر کیمرہ وغیرہ چلتا پھر کام رک جاتا چند لمحوں بعد پھر یہی عمل دہرایا جاتا اور آواز آتی ٹیک ٹو، اسی طرح کبھی کبھار ٹیک دس یا زیادہ پر بات چل نکلتی تو کبھی کم پر ہی معاملہ رک جاتا۔ ہوش سنبھالا تو پتا چلا کہ کسی ایک ہی سین کو بہتر انداز میں ریکارڈ کرنے کے لیے بار بار ٹیک کا سہارا لیا جاتا ہے تا وقت یہ کہ وہ سین بہترین حالت میں نہ فلمایا جاچکے۔

آزاد کشمیر انتخابات ٹیک تھری تھا۔ جی ہاں سین کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں تمام پارٹیاں اپنی اپنی ٹیم کے ساتھ مناظر فلمانے میں مصروف تھیں باقی تمام پارٹیاں ابھی رول، کیمرہ ایکشن کی صدائیں ہی بلند کر رہی تھیں کہ نواز لیگ نے پہلے ہی ٹیک میں سین فائنل کردیا اور اقتدار کی مسند سنبھال لی۔

پہلے سین کی ہی کچھ مزید جزئیات کی صورت میں بلدیاتی انتخابات کا ٹیک ٹو ہوا جس میں کوئی واضح تبدیلی دیکھنے کو محسوس نہیں ہوئی اور بلدیاتی نظام میں وہی نتائج آئے جس کی روایتی تجزیہ کار توقع کر رہے تھے اور کچھ جوشیلے قسم کے لکھاری کے دعوے غلط ثابت ہوئے، لیکن سین میں کچھ کمی رہ گئی تھی۔ ٹیک ٹو میں بنیادی طور پر کچھ مزید بہتر انداز میں سین فلمایا گیا۔ جو جزئیات پہلے سین میں رہ گئی تھیں ان کو مکمل کرنے کی کوشش کی گئی اور تمام مراحل میں کوئی مقابلہ بھی نظر نہ آیا۔ آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات کو نواز لیگ کا ٹیک تھری کہا جانا بہت بہتر ہوگا۔ کیوںکہ ریاست آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات کے نتائج دیکھ کر یوں محسوس ہوا کہ پہلے سین کو ہی بار بار کٹ کر کے اس کو بہتر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

حقیقی معنوں میں وادی کے انتخابات میں سب سے اہم تاثر یہ ابھرا ہے کہ نہ صرف پاکستان تحریک انصاف کے تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکلتی نظر آرہی ہے بلکہ بلاول کی آکسفورڈ لہجے کی اردو بھی کچھ خاص دبدبہ قائم نہیں کر پائی۔ کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پوسٹرز اور بینرز پر آصف زرداری اور فریال تالپور کی تصاویر نسبتاً بلاول کی تصاویر سے چھوٹی کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پارٹی کا حقیقی وارث بلاول ہی ہے لیکن اس کے باوجود نقادوں کے لیے پیپلز پارٹی کی اتنی بُری شکست حیران کن رہی۔

پاکستان تحریک انصاف تو خود آپ اپنے دام میں صیاد آگیا کہ مصداق بیرسٹر کے ہاتھوں لٹ گئی۔ کچھ ہاتھ بھی نہیں آیا اور عزتِ سادات بھی گئی۔ الیکشن کہانی میں سب سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ٹھہرا کہ کشمیر کی صرف ایک مقامی جماعت اس نظام میں مقابلے میں تھی۔ جس کی قیادت مضبوط اعصاب والے سردار عتیق کے ہاتھ میں تھی۔ سردار عبدالقیوم جیسا نام ہونے کے باوجود اس کی شکست سمجھ سے بالاتر ہے۔ شاید مسلم کانفرنس کو پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسمٹ گلے پڑا اور یہ ایک ایسا ڈھول بن گیا جسے نہ اتارا جا سکے نہ بجایا جاسکے۔

پہلے سین کا ٹیک تھری مکمل طور پر نواز لیگ کے نام رہا اور سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ پاکستان کی اسمبلیوں میں جو تھوڑی بہت اپوزیشن پریشانی پیدا کرتی رہتی ہے اب وہ بھی نہیں رہی ہے۔ 41 میں سے 31 نشستیں حکمرانی کے لیے اس لیے کافی سے بھی زیادہ ہوں گی کیوںکہ کوئی واضح اپوزیشن باقی نہیں رہے گی۔ ایک اور دو دو ممبران سے بھلا اپوزیشن جیسا مضبوط کردار کیسے نبھانا جاسکے گا۔ کشمیریوں نے تحریک انصاف کے آزمائے ہوئے راہنمائوں کی تبدیلی کو جہاں واضح رد کردیا وہیں پہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے بھی بگل بج گیا ہے کہ اب بھٹو کارڈ سے نکل آئیے۔ بھٹو نے کشمیریوں کا اگر ساتھ دیا ہے تو آج تک پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کر انہوں نے بھی اس ساتھ کا حق ادا کردیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت کو اتنی سیٹیں اپنی کارکردگی سے زیادہ دوسروں کی غلطیوں کی وجہ سے ملی ہے۔ مسلم کانفرنس کا پاکستان تحریک انصاف سے اتحاد اور پیپلز پارٹی کی ناقص حکمت عملی ایسے عوامل رہے ہیں جس کی وجہ سے عوام نے بُروں میں سے کم بُرے کو منتخب کرنا زیادہ اہم سمجھا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے وفاق اور سب سے بڑے صوبے میں نواز لیگ کی مضبوط حکومت قائم ہے اور وادی میں یہ تاثر قائم ہے کہ جس پارٹی کی پاکستان کے وفاق میں حکومت قائم ہوگی وہی ان کا بہتر خیال رکھ سکتی ہے۔

جس طرح کے حالات ترتیب پا رہے ہیں کچھ بعید نہیں کہ ٹیک تھری کی طرح 2018ء میں ٹیک فور بھی اسی سین کو دوبارہ سے سامنے لائے گا کیوںکہ جہاں پاکستان مسلم لیگ نواز غلطیاں بھی کر رہی ہے تو دوسری پارٹیاں اپنی کارکردگی کے بجائے صرف نعروں کو ووٹ کا ذریعہ سمجھے بیٹھی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔