جھوٹی خبروں سے جرائم تک

سوشل میڈیا کا منفی کردار، اس میڈیم کو مثبت انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے


شکیلہ شیخ July 31, 2016
سوشل میڈیا کا منفی کردار، اس میڈیم کو مثبت انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

آج کے دور میں انسان نے اپنی زندگی کو مقابلے کی دوڑ میں شامل کردیا ہے۔ وہ ہر ممکن کو شش کرتا ہے کہ دوسروں سے سبقت لے جائے۔

مقابلے کا رجحان ا تنا زیادہ ہوگیا ہے کہ چاہے وہ کوئی عام شخص ہو یا کوئی مشہور شخصیت ہر ایک بس یہی چاہتا ہے کہ دوسروں سے آگے نکل جائے۔ چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ اس دوڑ میں سوشل میڈیا بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا ایک ایسا ذریعہ اور ایک ایسا آلہ ہے جو لوگوں کی رائے ان کے خیالات کا اظہار کرنے، خیالات کا تبادلہ کرنے کے کام آتا ہے اور ان کی تصویر اور ویڈیو شیئر کرکے ان کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ کرتا ہے۔ آج کل مقابلے کا رجحان اتنا ہے کہ لوگ خود فرمائش کرتے ہیں کہ ان کی پوسٹ کو لائیک اور شیئر کیا جائے۔

ماہرین کے مطابق انٹرنیٹ دنیا بھر میں ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات کے مقابلے میں خبروں تک رسائی کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق گذشتہ دو سال کے دوران سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے ذریعے خبروں تک پہنچے میں 29فی صد سے 47 فی صد اضافہ ہوا۔ ماہرین نے کہا ہے کہ موبائل آلات اور سماجی نیٹ ورک سائٹس آن لائن نیوز کے پھیلاؤ کو بڑھا رہی ہیں۔

ایک آن لائن سروے میں 39 فی صد افراد نے کہا کہ وہ خبریں آن لائن پڑھتے ہیں۔ صرف ٹی وی خبروں کے ذرائع آن لائن خبروں کے مقابل رہے ہیں، جن کو اس سروے کا حصہ بننے والے ایک تہائی افراد نے، جن کی عمر 18سے 29 سال تھی، دیکھا۔ 30سال سے کم عمر افراد میں سے صرف 13فی صد نے ٹی وی دیکھا یا اخبار پڑھا جب کہ 33 فی صد نے سماجی نیٹ ورک سائٹس پر خبریں پڑھیں۔

حقیقت ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں سوشل میڈیا نے ایسی کام یابی حاصل کی ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی کثیر تعداد نے اس کا استعمال شروع کردیا ہے۔ ہر نئی ٹیکنالوجی یا نئی ایجاد اپنے ساتھ کچھ نقصانات بھی لاتی ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے بھی کافی سارے نقصانات ہیں۔ جیسے ایک نقصان تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ کسی بھی خبر یا افواہ کو تحقیق کیے بغیر پھیلادیا جاتا ہے۔

ہمارے یہاں تو یہ رجحان بہت عام ہے، جیسے شاہد آفریدی کی چھوٹی بیٹی کی موت کی جھوٹی خبر ، ابھی حال ہی میں رمضان میں عبدالستار ادھی کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر پھیلادی گئی تھی، جب کہ ان کا انتقال بعد میں ہوا۔ لوگ اس طرح کی خبر یں تصدیق کیے بغیر شیئر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

دوسری طرف یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ جن خبروں کا کوئی سورس نہیں ہوتا انہیں شیئر کردیا جاتا ہے۔ چارٹ بیٹ نامی انٹر نیٹ ٹریفک کا تجزیہ کرنے والی ایک ویب سائٹ کے مطابق اکثر کیا بل کہ 90 فی صد سے زاید افراد کسی مضمون کو ٹوئٹ کے ذریعے شیئر کرنے سے پہلے اسے پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اس تحقیق کے دوران لوگوں کی کسی پیج پر رکنے کے وقت اور اسے اسکرول کرنے جیسے امور کا تجزیہ کرکے نتیجہ نکالا گیا۔

تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بیشتر افراد کسی مضمون یا خبر کو سرسری دیکھ کر ہی اسے ٹوئٹر پر شیئر کردیتے ہیں یا د یگر الفاظ میں لوگ بہت جلدباز ہوگئے ہیں۔ درحقیقت لوگوں کی اکثریت ہیڈلائن سے آگے ایک لفظ بھی نہیں پڑھتے اور سرخی دیکھتے ہی خبر شیئر کردیتے ہیں۔ ایسے لوگ دوسروں کے سامنے دعویٰ کر تے ہیں کہ انہوں نے سب کچھ پڑھ لیا ہے، جس کا مقصد لوگوں کو باور کرانا ہوتا ہے کہ ہم جیسا کوئی نہیں، ہم سب سے آگے ہیں، خبروں کی دوڑ میں بھی اور معلومات میں بھی۔

یہ بھی ہوتا ہے کہ فیس بک پر جعلی اکاوئنٹ بناکر لوگوں کو دھوکا دیا گیا۔ اسی طرح ای میل یا سوشل میڈیا اکاوئنٹ ہیک کر کے لوگوں کی ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کی گئیں۔ پاکستان میں کچھ عرصہ قبل ہی کراچی میں فیس بْک کے ذریعے ایک بچے کو اغوا کر لیا گیا تھا جو ظاہر کرتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سنگین جرائم کا ارتکاب کس حد تک ممکن ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر بہت سے جعلی اکاؤنٹس بھی موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا کو مثبت کاموں کے لیے بروئے کار لایا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں